اس کنڈکٹر کی بات مجھے پسند آئی
محمد آصف ریاض
25اکتوبر 2012 کو میں دہلی سے نوئیڈاجا رہا تھا۔ میں بس پر سوار تھا۔ میری
بغل والی سیٹ پر کنڈکٹر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے راستے میں کنڈکٹر سے اس کا تجربہ
پوچھا۔ وہ جالیس پینتالیس سال سے اسی پروفیشن سے وابستہ تھا۔ میں نے اس سے پوچھا
کہ وہ مجھے اپناکوئی انوکھا تجربہ بتائے۔
اس نے مسکرا کر کہا،اجی میں کیا بتائوں، مجھے کچھ یاد نہیں۔ میرے زور دینے پر اس
نے مسکراتے ہوئے کہا کہ دیکھو جی مجھے ہر روز طرح طرح کے لوگوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔
کئی لوگوں سے ہر روز ٹکرائو کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اگر میں سارے واقعات کو یاد
رکھو تو میں پاگل ہوجائّں گا۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ ہر روز گھر جاکر تمام تلخ
تجربات کو بھولا دیتا ہوں۔ کوئی بھی تلخ یاد میرے دماغ میں محفوظ نہیں ہے۔
مجھے اس کنڈ کٹر کی بات بہت پسند آئی۔ میں سوچنے لگا کہ اس میں تو داعیوں کے لئے بہت
بڑا سبق ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی خدا کا بندہ خدا کا پیغام لے کر اٹھتا
ہے تو وہ اپنے ماحول میں حقیر ہو کر رہ جا تا ہے۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کوئی
اس کی بات کو بیوقوفوں کی بات کہہ کر ٹال دیتا ہے۔ کوئی اسے سماج کا حقیر آدمی
سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔ کوئی اس پرطنز کے نشتر چلا تا ہے۔ کوئی اس کی عیب
جوئی کرتا ہے۔
گویا داعی کو ہرروز مختلف قسم کے تلخ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب اگر داعی یہ
کرے کہ وہ ان سارے تجربات کو اپنے ذہن و دماغ میں محفوظ کر لے وہ انھیں اپنے دماغ
سے نکالنے کے لئے تیار نہ ہوتو کیا ہوگا؟ وہ ایک نیگیٹو انسان بن کر رہ جائے گا۔
اس کے دل میں لوگوں کے لئے نفرت بھر جائے گی۔ وہ احساس نفرت میں جینے لگے گا۔ اس
سے وہ چیز چھن جائے گی جسے خیرخواہی اور بردباری کہا جا تا ہے۔ اب اس کی زبان سے
جو کلمہ نکلے گا وہ نفرت میں بھرا ہوا کلمہ ہوگا۔
ہرداعی کویہ کرنا ہےکہ جب اسے کسی ناخوشگوار واقعہ کا تجربہ ہو تو وہ اسے اپنے
ذہن سےنکال دے۔ وہ ہر نیگیٹیو تجربہ کو پوزیٹیو تجربہ میں تبدیل کرے یا پھر اسے
بھلا دے۔
مائنڈ کی ایک فیکلٹی وہ ہے جو صرف بھلانےکا کام انجام دیتی ہے، داعی کو چاہئے
کہ وہ اپنی اس فیکلٹی کے استعمال کو بھی جانے۔
كياخوب آصف بهائي
جواب دیںحذف کریں