جمعرات، 18 اکتوبر، 2012

I too possess an empire


دعوہ امپائر 

محمد آصف ریاض
دعوہ ورک دنیوی اعتبار سے کوئی فائدے کا کام نہیں ہے۔ یہ بہت ہی صبرو تحمل اورآزمائش کا کام ہے۔ اس میں "کل" کی امید میں "آج" کو قربان کرنا پڑتا ہے، "مستقبل" کی امید میں "حال" کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ اس کام میں آخرت کی امید میں دنیا کو گنوانا پڑتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کے لئے نہ ملی ہوئی چیز کی طلب میں ملی ہوئی چیز کو قربان کرنا پڑتا ہے۔
اس دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو نہ ملی ہوئی چیز کی طلب میں ملی ہوئی چیز کو قربان کرنے پر راضی ہوجائِں، جو مستقبل کی طلب میں خوبصورت حال کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوں، جو آخرت کی طلب میں دنیا کو قربان کرنے پرراضی ہوں۔ اتنی بڑی قربانی کے لئے بہت کم لوگ تیار ہوتے ہیں اسی لئے سچے داعیوں کی تعداد بھی اس دنیا میں بہت کم رہی ہے۔

دعوہ ورک وہ کام ہے جسے کرنے کے بعد انسان اپنے ہی لوگوں کے درمیان گمنام ہوکررہ جاتا ہے۔ وہ دنیا کی دوڑ میں پچھڑ جاتا ہے اوراپنے سماج میں حقیر ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ والےمادی اعتبار سے بڑے بڑے امپائرکے مالک ہوجاتے ہیں، ان امپائر کو دیکھ کر لوگ داعی کی طرف انگلی اٹھانے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ توایک ناکام آدمی ہے۔ اگر کامیاب آدمی ہوتا تو اس کے پاس بھی کوئی امپائرہوتا۔یہاں تک کہ داعی کے گھر والے بھی اس کی صلاحیتوں پر انگلی اٹھانے لگتےہیں۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں میں داعی سب سے زیادہ حقیر نظر آنے لگتاہے۔ چنانچہ لوگ اس کی بات پر کان بھی نہیں دھرتے۔
ایسی حالت میں داعی اندر سے ہلادیا جاتا ہے۔ اب اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنا کام ترک کرکے لوگوں کی روش اپنا ئے اوردوسروں کی طرح کوئی دنیوی امپائر کھڑا کرکے آخرت کے امپائر سے ابدی طور پر دستبردار ہوجائے، یا پھر پورے ماحول میں اپنے آپ کو "آئی ایم نو باڈی" بنانے پر راضی کرے۔
اب اگر داعی دوسرے آپشن کولیتاہے۔ یعنی وہ اپنے آپ کو I am nobody} { بنانے کے لئے تیار ہوجا تا ہے تو پھر یہاں سے اس کے لئے خدائی نصرتیں اترنی شروع ہوتی ہیں۔

سخت آزمائش سے گزارنے کےبعد خدا خصوصی طور پراس کی اعانت فرماتا ہے۔ مثلاً اس کو چیزوں کی صحیح سمجھ دے دیتا ہے۔ اسے کتاب اور حکمت کا علم دے دیتا ہے۔ اسی کی زبان ایسی رواں اور سشتہ کردیتا ہے کہ جب وہ بولتا ہے تو اس کی بات لوگوں کا دل چیر کے اس کے اندر سماجاتی ہے۔ اس کی بات لوگوں کے دلوں میں اس طرح سرایت کرنے لگتی ہےجیسے پانی ہر چیز میں سرایت کرجا تا ہے۔
اب کسی کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ کوئی داعی کی بات کا انکار کردے۔ سوائے اس کے کہ کوئی شخص آنکھ رکھتے ہوئے نہ دیکھنے کی قسم کھا لے یا کان رکھتے ہوئے نہ سننے کی قسم کھا لے یا دل اور دماغ رکھتے ہوئے نہ سوچنے اور سمجھنے کی قسم کھالے۔
داعی جب اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تب جاکر اس کے لئے وہ دن آتا ہے جب وہ دنیا میں اپنا ایک امپائر کھڑا کرسکے یعنی دعوہ امپائر۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر وہ کہنے لگتا ہے کہ میرا بھی ایک امپائر ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں