مقدس کیفیات کی نگرانی کیجئے
محمد آصف ریاض
آدمی
کا حال یہ ہے کہ وہ مستقل طور پر کسی ایک کیفیت کے ساتھ نہیں جیتا۔ اس کے اندرہر لمحہ
مختلف قسم کی کیفیات پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ وہ کبھی ایک چیز کا طلب گار بنتا ہے تو کبھی
دوسری چیزکا۔ وہ کبھی ایک دوڑ لگاتا ہے تو کبھی دوسری دوڑ۔ اس کے دل کی حالت کبھی یکساں
نہیں رہتی۔
ایک
آدمی مقدس راستے کا طلب گار بنتا ہے۔ وہ اس راستے پر چل پڑتا ہے لیکن بہت جلد اس کی
زندگی میں وہ وقت آتا ہے جب کہ اس کے اندر وہ مقدس کیفیت باقی نہیں رہتیں اور وہ اس
راہ کو چھوڑ کر ایک دوسری راہ کا مسافر بن جاتا ہے۔
یہ وقت
کسی بندہ خدا کے لئے سخت آزمائش کا وقت ہوتاہے۔ ایسے وقت میں ایک ہی چیز کسی انسان
کو گمراہی کے سمندر میں غرق ہونے سے بچا سکتی ہے، اور وہ چیز ہے دعا۔
18جولائی کی شام جب میں مغرب کی نماز کے لئے
نوئیڈا کے ایک پارک میں کھڑا ہوا، تو میرا دل گناہوں کے بوجھ سے بھاری ہورہا تھا ۔
میں نے اپنے دل کی پرانی کیفیت کو یاد کرتے ہوئے خدا سے دعا کی کہ اے میرے رب، میرے
دل اور میری جان کے مالک، میرے دل سے ان مقدس خیالات کو مت نکال جو تونے محض اپنے فضل
سے مجھے عطا کیا ہے۔ اے خداوند تو اپنے بندے کو غیر مقدس چیزوں کا طلبگار مت بنا۔ میں
نے اپنے رب کو پکارکر کہا،اے میرے رب، کوئی شریف آدمی جب کسی انسان کو کوئی چیز دیدیتا
ہے تو پھر وہ اس سے واپس نہیں مانگتا۔ وہ اسے دے کر بھول جا تا ہے۔ اور تو تمام مقدس
ہستیوں میں سب سے زیادہ مقدس ہے۔ تو پاکی اور بڑائی میں زمین وآسمان پر چھایا ہوا ہے،
اے میرے رب تو اپنی ایک نعمت دے کر پھرمجھ سے واپس مت لے۔
یہ دعا
کرتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو و کا سیلاب ابل پڑا۔ پھر ایسا لگا کہ میرے دل میں جو
غیر مقدس کیفیات نے زور پکڑا تھا دعاﺅں کے سیلاب نے انھیں بہا دیا۔ خدا نے میرے قلب
کی تطہیر کردی۔ میں نے خدا وند سے دعا کرتے ہوئے،اس آیت کریمہ کو پوائنٹ آف ریفرنس
بنایا:
”اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی
کرنا ہی چاہو، اور ان میں سے کسی کو تم نے خزانہ کا خزانہ دے رکھا ہو، توبھی اس میں
سے کچھ واپس نہ لو"{4:20{
میں
نے اپنے رب کو پکار کر کہا،اے خدا وند ، تو اپنے بندوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے
معاملات میں اعلیٰ اخلاقیات کا ثبوت دیں،کیونکہ تو نے انھیں احسن تقویم پر پیدا کیا ہے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ تو اپنے بندے کو
ایک مقدس کیفیت سے سرشار کرے اور پھر اس سے وہ عظیم دولت چھین لے؟ حالانکہ تو سب سے
زیادہ مقدس، سب سے زیادہ عظیم اور سب سے زیادہ علو و شان والا ہے۔ تیری بزرگی چھائی ہوئی ہے زمین و آسمان
پر۔
قرآن میں تیری عظمت کا بیان ان الفاظ میں ہوا ہے:
جو بھی زمین پر ہے وہ فنا ہونے والا ہے۔ اور تیرے رب کی ذات
باقی رہے گی عزت والی اور عظمت والی۔ پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو
جھٹلائوگے۔ اسی سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ہر روز وہ ایک شان میں
ہے۔ پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔{ 55:26-30}
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں