اور
جب آپ کا نمبر بھی ڈلیٹ کر دیا جائے گا
محمد
آصف ریاض
27اکتوبر2012 کو ہندوستان میں عید الاضحی کا تہوار منا یا گیا۔ اس سے
قبل والی شام میں نے اپنے گھروالوں کو فون کیا اور انھیں عید کی مبارک باد پیش کی۔
میری پیدائش پٹنہ کے ایک گاﺅں حضرت سائیں میں ہوئی۔ میرے خاندان کے لوگ آج بھی اسی
گاﺅں میں رہتے ہیں۔ میری ماں،میرے بھا ئی، میری بہنیں، میرے چچا اور دوسرے سب لوگ اسی
گاﺅں میں رہتے ہیں۔ میں 2006 میں جاب کی تلاش میں دہلی آگیا اور آج تک دہلی میں ہوں۔
میں نے گھر سے یہاں تک دعوہ مشن کو باقی رکھا۔ دعوہ مشن میری زندگی کا حصہ ہے اگر مجھے
جنگل میں بھی رہنا پڑے تو میں وہاں بھی اپنے دعوہ مشن کو نہیں چھوڑ سکتا۔
گھر
والوں کو فون کرتے ہوئے میں ایک ایسے نمبر پر پہنچا جو" زین العابدین " کے نام سے میرے موبائل
پر محفوظ تھا۔ جب یہ نام میری نگاہوں میں آیا تو میں اچانک رک گیا اس کے بعد پھر میں
نے کسی کو فون نہیں کیا۔
زین
العابدین میرے چچا تھے اور میرے ساتھی بھی۔ میں جب گھر جاتا تھاتو گھنٹوں ان کے پاس
بیٹھا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ جب گھر میں لوگ مجھے ڈھونڈتے تھے تو لوگ کہہ دیتے تھے کہ
وہ اپنے دوست کے پاس بیٹھے ہوں گے۔ انھیں مطالعہ کا بہت شوق تھا ساتھ ہی وہ قومی اور
بین القوامی معاملات پر اچھی گرفت رکھتے تھے۔ وہ تین ملکوں میں رہ چکے تھے،یعنی پاکستان،
بنگلہ دیش اور ہندوستان میں۔
گزشہ
سال عید کے دن میں نے ان سے بہت سی باتیں کی تھیں۔ لیکن اس بار وہ مجھ سے بات کر نے
کے لئے اس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ وہ کینسر کے مریض ہوگئے تھے اور اسی بیماری میں
ان کی موت ہوئی۔ میں ان کی عیادت کے لئے گیا تھا لیکن میں ان کی نماز جنازہ میں شریک
نہیں ہوسکا۔ موبائل پر ان کا نمبر دیکھ کر میں بے اختیار رونے لگا۔ ان کی موت میں میرے
لئے اپنی موت کی یاد دہانی تھی۔
ہر بار
انسان کو کسی نہ کسی کی موت کی خبر ملتی ہے لیکن انسان اسے دوسروں کی موت سمجھ کر فراموش
کر دیتا ہے، وہ دوسروں کی موت میں اپنی موت کی وارننگ کو نہیں پڑھتا۔ اس لئے ایسا ہوتا
ہے کہ دوسروں کی موت ہمیشہ اس کے لئے دوسروں کی موت ثابت ہوتی ہے۔ دوسروں کی موت میں
اسے اپنی موت نظر نہیں آتی۔
چچا کی موت کے ساتھ مجھے اپنے پھوپھازاد بھائی کی یاد آگئی۔ ان کا نام
حمد مشتاق تھا۔ وہ نہایت سادہ انسان تھے، اور نماز کو بہت مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔
وہ محض پچاس سال کی عمر میں اپنے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ گزشتہ
عید میں ان سے بھی میری بات ہوئی تھی ۔ پھر وہ کڈنی کے مریض ہوگئے تھے۔ میں ان کی عیادت
کے لئے پٹنہ گیا تھا لیکن ان کے جنازہ میں شریک نہیں ہوسکا۔
اپنےخاندان
والوں کے ساتھ مجھے اپنے والد کی یاد آگئی۔ تقریباً سترہ اٹھارہ سال قبل جب میں محض
سترہ اٹھا رہ سال کا تھا تو میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔
میں
اپنے خاندان والوں کی موت کو یاد کر کے سوچنے لگاکہ انسان کتنی بڑی حقیقت کو نظر انداز
کرتا ہے۔ وہ واقعہ جسے ہر حال میں ہوکر رہنا ہے،انسان اسے اس طرح بھلائے رہتا ہے گویا
اسے کبھی واقعہ ہی نہیں بننا ہے۔
انسان
موت کو ’نا‘ کہہ کر ٹال دیتا ہے۔ لیکن کیا صرف اس کے "نا" کہہ دینے سے موت
اس سے ٹل جائے گی؟ انسان ہر وقت اپنی موت کو بھلائے رہتا ہے لیکن کیا اس کے بھلا دینے
سے موت بھی اس کو بھلا دے گی؟ نہیں، ہر گز نہیں۔
ہر بار
انسان جب اپنے ماحول میں نگاہ ڈالتا ہے تو اس پر یہ سچائی کھلتی ہے کہ اس کا کوئی عزیز
کھو گیا ہے، لیکن اس کھونے میں ہمیشہ وہ دوسروں کے کھونے کو پا تا ہے وہ یہ نہیں سمجھتا
کہ ایک دن وہ بھی انہی کھوئے ہوئے لوگوں کی فہرست میں شامل ہونے والا ہے۔ایک دن آنے
والا ہے جب لوگ اپنے موبائل سے اس کے نمبر کو بھی اسی طرح ڈلیٹ کریں گے جس طرح وہ دوسروں کے نمبر کو ڈلیٹ کر دیتا ہے۔ اس دن وہ بھی زمین پر
ایک بھلا یا ہوا انسان بن کر رہ جائے گا۔
اطالوی
سائنسداں گلیلیو نے جیو سنٹرکGeocentric}} نظریہ کی جگہ ہیلی یو سنٹرک {Heliocentric} نظریہ پیش کیاتھا۔ اس نے بتا یا کہ سورج زمین کے گرد چکر نہیں کاٹتا بلکہ
زمین سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے۔ گلیلیو کا یہ نظریہ چرچ کے نظریہ سے ٹکرا رہا تھا کیوں
کہ زبور میں لکھا تھا:
He
set the earth on its foundations; it can never be moved.
{Psalm104:5}
"خدا نے زمین کی تخلیق اس کی بنیاد پرکی
اوروہ کبھی حرکت نہیں کرسکتی"
گلیلیو
کے نظریہ کے مطابق زمین سورج کے گرد چکر کاٹ رہی تھی۔ چرچ نے کہا کہ گلیلیو تم اپنے
نظریہ کو واپس لے لو یا مرنے کے لئے تیار ہوجاﺅ۔ گلیلیو نے کہا میں اپنے نظریہ کو واپس
لیتا ہوں میں اعلان کرتا ہوں کہ زمین سورج کے گرد چکر نہیں کاٹ رہی ہے۔ گلیلیو کےاس
اعلان کے بعد اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ تم نے موت کے ڈر سے ایک بڑی حقیقت کا انکار
کردیا۔
گلیلیو
نے جواب دیا میرے دوست، میرے انکار کرنے اور نہ کرنے سے حقیقت نہیں بد لتی۔ حقیقت تو
یہ ہے کہ زمین کل بھی گردش کر رہی تھی اور وہ آج بھی گردش کر رہی ہے، ہر چند کہ میں
اس کا انکار کر رہا ہوں۔ گلیلیو کہ" نا" کہہ دینے سے زمین نے گرش کر نا نہیں
چھوڑ دیا۔
یہی
حال موت کا ہے، چاہے انسان اسے کتنا ہی نظر انداز کر دے لیکن وہ بہر حال انسا پرآکر
رہنے والی ہے۔ اسے کسی صورت بھی ٹا لا نہیں جا سکتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں