بدھ، 2 جنوری، 2013

Throwing Mountain



پہاڑ یا رائی کا دانہ

محمد آصف ریاض

بہار کی راجدھانی پٹنہ سے جنوب کی جانب تقریباً 100 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ایک شہر ہے جس کا نام "گیا"ہے۔ یہ شہر پھلگو ندی کے کنارے بسا ہوا ہے۔ یہ ایک قدیم شہر ہے۔ کہا جا تا ہے کہ اسی شہر میں بودھ مذہب کے پیشوا مہاتما بودھ کو زندگی کی حقیقت کا ادراک ہواتھا۔ یہاں بڑے پیمانے پر ہندو، بودھ اور جین مذہب کے عقید ت مند مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لئے آتے رہتے ہیں۔
اسی شہر کا ایک گاﺅں ہے "گہلور"۔ یہ گاﺅں دسرتھ مانجھی کی وجہ سے چرچے میں آیا،جسے گاﺅں والے "پہاڑی آدمی" کہہ کر بلاتے ہیں۔

دسرتھ مانجھی کے ساتھ 1967میں ایک المناک واقعہ پیش آیا۔ اس کی بیوی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اس کے گاﺅں میں کوئی اسپتال نہیں تھا۔ لہذا اسے اپنی بیوی کو لے کرنزدیک کے ایک قصبہ امیٹھی جانا پڑا ۔ امیٹھی اور گہلور کے درمیان صرف 8 کیلو میٹر کا فاصلہ ہےلیکن دونوں کے درمیان ایک پہاڑ آجا تا ہے جس کی وجہ سے یہ دوری8 کیلومیٹر سے بڑھ کر 28 کیلو میٹرہوجاتی ہے۔28کیلو میٹر کی طویل مسافت طے کر کے جب مانجھی اپنی بیوی کو لے کر اسپتال پہنچا، تو اسے بتا یا گیا کہ اس کی بیوی اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ چکی ہے۔
بیوی کی موت سے مانجھی کوبڑا صدمہ پہنچا۔ اس نے سوچا کہ اگر راستے میں پہاڑ نہیں آتا تو شاید اس کی بیوی نہیں مرتی ۔ اسی دن اس نے اپنے ہاتھوں میں چھینی اور ہتھوڑااٹھا یااور پھر پہاڑ کو کاٹنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ لگاتار 22سال کی کڑی محنت کے بعد 1988 میں اس نے تن تنہا پہاڑ کی 360 فٹ لمبائی، 30 فٹ چوڑا ئی اور 25فٹ اونچا ئی کو کاٹ کرراستہ بنا دیا ۔ پہاڑمیں راستہ بن جانے کے بعد امیٹھی اور گہلور کی دوری 28 کیلو میٹر سے گھٹ کرمحض 8 کیلو میٹر رہ گئی۔ اب گاﺅں والے آرام سے پیدل ہی ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں آتے جاتے رہتے ہیں۔

میں نے جب اس عظیم الشان کارنامے کا ذکر ایک صاحب سے کیا، تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ آصف صاحب !اس نے اپنی زندگی کے 22 سال برباد کردئے۔ وہ کس طرح ؟ میں نے پوچھا!
مانجھی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آج کی دنیا چھینی اور ہتھوڑے کی دنیا سے نکل کر ڈائنامائٹ کی دنیا میں داخل ہوچکی ہے۔اگر وہ شخص چھینی اور ہتھوڑے کی جگہ ڈائنامائٹ کا استعمال کرتا تو شاید اسے اپنی زندگی کاایک اتنابڑا حصہ برباد نہیں کرنا پڑتا۔"
میں نے انھیں بتا یا کہ دیکھئے،آپ نے اس معاملہ کا نہایت کمتر اندازہ کیا۔آپ نے اس معاملہ میں ایک عام آدمی کی طرح سوچا ۔ آپ اس معاملہ میں مانجھی کی طرح نہیں سوچ سکے۔

اس معاملہ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ مانجھی نے "غیر مو جود وسائل"  کے لئے جدو جہد نہیں کی، جیسا کہ عام طور پر لوگ کرتے ہیں بلکہ اس نے "موجود وسائل" کے استعمال کو جانا اور اپنے نشانہ کو پانے میں کامیابی حاصل کی ۔
واقعہ یہ ہے کہ جب بھی آدمی کے سامنے کوئی معاملہ آتا ہے تو اس سے نمٹنے کے لئے اسے وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔اب اس کے سامنے دوآپشن ہوتے ہیں۔اول یہ کہ وہ دستیاب وسائل کو جانے اور اس کا استعمال کر کے حالات کو اپنے حق میں کرلے، جیسا کہ مانجھی نے کیا۔ دوسرا یہ کہ وہ غیر دستیاب وسائل کے حصول کی تگ و دو میں پڑ کر اپنے آپ کو تباہ کرے، جیسا کہ عام طور پر لوگ کرتے ہیں۔
عقلمند آدمی دستیاب وسائل کے استعمال کو جانتا ہےاور بیوقوف غیر دستیاب وسائل کی تگ و دو میں پڑ کر اپنی زندگی تباہ کرتا ہے۔عقلمند آدمی یہ دیکھتا ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے۔ نادان آدمی  یہ سوچتا ہے کہ اس کے پاس یہ ہوتا تو وہ یہ کرتا۔عقلمند آدمی ممکن کی طرف دوڑتا ہے، اور بیوقوف ناممکن کی طرف۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی معاملہ میں عقلمندی کا مظاہرہ کرے،اس لئے کہ وہ آدمی ہے۔
اس واقعہ کا دوسراسبق یہ ہے کہ آدمی اپنے عزم ، حوصلہ اور استقلال کی طاقت کا استعمال کر کے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا سکتا۔ وہ بھی محض چھینی اور ہتھوڑی کے بل پر۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر آدمی عزم وحوصلہ اور استقلال سے بھراہوتوہر پہاڑ اسے رائی کا دانہ نظر آئے گااوراگر آدمی کے اندرعزم و حوصلہ کی کمی ہو تو رائی کا ہر دانہ اسے ہمالیہ پہاڑ نظرآئے گا۔ کوئی چیز دانہ ہے یا پہاڑ وہ انسان کی اپنی سوچ اور اپنے عزم پرمنحصر کرتا ہے۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں