جمعرات، 3 جنوری، 2013

Do not treat the orphan with harshness


میرا بیٹا میری گود

محمد آصف ریاض
میرابیٹامحمد یحی میرے ساتھ ہی سوتا ہے۔ وہ ابھی محض تین سال کا ہے۔ وہ پوری طرح چمٹ کر سوتا ہے۔ ایک دن صبح فجرکے بعد میں بیٹھاپڑھ رہا تھا۔ اس نے آنکھیں کھول کردیکھا اورمچھلی کی طرح اوچھل کر میری گود میں آکر سوگیا۔
بیٹے کےاس عمل نے مجھے یتامی کی یاد دلادی۔ اسلام میں یتیم کو اسپیشل کیئر دینے کے لئے کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس وہ گود نہیں ہوتاجس میں وہ مچھلی کی طرح اوچھل کر بیٹھ جائے۔ اسلام چاہتا ہے کہ یتامی کے لئے سماج کا ہر شخص ماں باپ بن جائے۔
قرآن میں ہے:
" کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرابھراباغ ہو، نہروں سے سیراب کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اس وقت تیز بگولوں کی زد میں آکر تباہ ہوجائے جبکہ وہ خود بوڑھا ہواور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟" (2-266)
آدمی کو اپنے مال کی سب سے زیادہ ضرورت بڑھاپے میں ہوتی ہے۔ اور یہ ضرورت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جبکہ اس کے بچے ابھی چھوٹے ہوں۔ کیوں کہ بڑھا پے کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں سکتا اور بچے چھوٹے ہونے کی وہجہ سے کسی لائق نہیں رہتے۔
اسلام انسان کے سوئے ہو ئے ضمیر کو جگاتا ہے۔ وہ انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ ذراسوچو کہ تمہارے بچے چھوٹے ہوں اور تم پر موت آجائے، ایسی حالت میں تمہیں اپنے بچوں کے بارے میں کس قسم کی فکر لاحق ہو گی؟ سنو، اسی قسم کی فکر ہرمرنے والے کو اپنے بچوں کے تئیں ہوتی ہے۔
اسلام ایک ایسا سماج بنانا چاہتا ہے جس میں سماج کا ہر فرد یتامی کے لئے ماں باپ بن جائے۔ وہ ہریتیم کے اندر اپنے بچوں کی تصویردیکھے۔ وہ ہر یتم کے اندر اس کےماں باپ کاوہ درد محسوس کرے جو اپنے بچوں کو چھوڑتے ہوئے خود اسے ہوتا۔ قران میں ہے: " یتیم پرسختی مت کرو" (93-9)
اسلام میں یتامی کو اسپیل کیئر دینے کے لئے کہا گیا ہے۔ اگرایسا کرنے میں کوئی کمیو نٹی فیل ہوجائے تو خدا آسمان سے خود اترے گا اور دوسروں کے مقابلہ میں یتامی کی مدد فرمائے گا۔ اسلام کے نزدیک یتامی سے معاملہ کرنا ایسا ہے گویا کوئی شخص براہ راست خدا وند سے معاملے کرے؛ اس کا اشارہ ہمیں قرآن میں موسی اور خضر کے اس واقعہ میں ملتا ہے:
" اوراس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے، جو اس شہر میں رہتے ہیں اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لئے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لئے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنےاختیار سے نہیں کردیا۔" (18- 82)

1 تبصرہ:

  1. بہت خوب!
    پڑھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ جزاک اللہ خیراً فی الدارین!۔ اسی طرح کی قیمتی نگارشات آپ پہلت روزنامہ 'پندار میں تحریر کرتے تھے۔ ہمیشہ نگارش پسند آئی اور دل سے دعا ۔ ادھر تو مدت ہوئی کہ آپ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اس طرح کی چھوٹ چھوٹی نگارش بڑی کار آمد ہوتی ہیں اور قاری پڑھ بھی لیتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں