جمعرات، 24 جنوری، 2013

Learn from the fish


تفہیم کی غلطی

محمد آصف ریاض
پچھلے دنوں میری ملا قات چند انجینئرس سے ہوئی۔  وہ آپس میں بات چیت کر رہے تھے ۔ بات چیت کے دوران ان میں ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے !
اس بات پروہ بھڑک اٹھے، کہنے لگے کہ آپ خود تونماز نہیں پڑھتے،اور دوسروں پرحکم لگاتے ہیں۔ اس معاملہ پردونوں کے درمیان تنازعہ کھڑاہوگیا تومیں نے مداخلت کی اورانھیں سمجھا یا کہ آپ کا یہ کہنا غلط ہے کہ جو آدمی نمازنہ پڑھے،وہ دوسروں کونماز پڑھنے کے لئے بھی نہ کہے۔ میں نے انھیں بتا یا کہ کسی کا بے نمازی ہونا، اس سے نماز کی تاکید کرنے کا حق نہیں چھینتا۔
میں نے انھیں بتا یا کہ ایک بے نمازی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں سے کہے کہ لوگو،نمازپڑھو۔اسی طرح ایک شرابی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ لوگو، شراب مت پیو!صرف شراب پینے سے کسی سے شراب کو Prohibit  کرنے کا حق نہیں چھینا جاسکتا۔
میں نے انھیں بتا یا کہ جو لوگ اس طرح کی بات کرتے ہیں وہ اپنی بات کے جواز میں قرآن کی اس آیت کو دلیل بناتے ہیں۔
لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو اورخود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟“۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 44}
میرے خیال میں لوگ اس آیت کے تقاضے کو نہیں سمجھتے۔ لوگ اس معاملہ میں تفہیم کی غلطی میں مبتلا ہیں۔ یہاں جو یہ کہا گیا ہے کہ" دوسروں کو بھلائیوں کا حکم لگاتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو" تو اس میں زور اس بات پر نہیں ہے کہ "دوسروں پر حکم مت لگا" کلام کا زور اس بات پر ہے کہ "تم جو دوسروں سے کہو وہ خود بھی کرو۔"  کلام کا زورخود بھی کرو  پر ہے نہ کہ  تم حکم مت لگاﺅ پر۔
 میں نے انھیں بتا یا کہ اگر ایک شخص شراب پئے، تب بھی اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں سے کہے کہ لو گو، شراب مت پیو۔ کسی سے محض شراب پینے کی وجہ سے شراب کو Prohibitکر نے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔
میں نے انھیں اس معاملہ میں مچھلی کی مثال پیش کی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ زمین کے تمام جاندارآکسیجن پر زندہ ہیں۔ فضاﺅں میں آکسیجن ہے تو زندگی ہے۔ آکسیجن نہیں توزندگی بھی نہیں۔
مچھلی کا سبق
مچھلی بھی آکسیجن لیتی ہے۔ لیکن اس کا آکسیجن پانی میں گھلا ہوتا ہے۔ مچھلی  dissolve آکسیجن لیتی ہے۔ مچھلی کے سر پر ایک کٹی ہوئی جگہ ہوتی ہے، جسے سائنسی زبان میں Gillsکہا جا تا ہے۔ مچھلی اسی Gillسے آکسیجن لیتی ہے۔ جیسے ہی پانی Gillsسے گزرتا ہے، مچھلی اس سے آکسیجن لے لیتی ہے اورپانی کوچھوڑ دیتی ہے۔
یہی کسی انسان کو کرنا ہے۔ جب اس کے سامنے حق آئے تو وہ اسے لے لے اور  یہ نہ دیکھے کہ لانے والا کون ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ہرحال میں حق کی قدر کرے۔ وہ حق قبول کرنے کے معاملہ میں مچھلی بن جائے۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں یہی حکمت کی بات ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے سمجھانے کےلئے اللہ نے کتابیں اتاریں،نبی اور رسول بھیجے۔ اسی کو سمجھانے کے لئے کائنات کو پھیلا یاتا کہ انسان اس پرغور کرے اور اس سے اپنے لئے ربانی غذا حاصل کرے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں