پیر، 7 جنوری، 2013

“And the messenger will say, Lord, my people did indeed discard the Quran” (25-30)


قرآن: ایک بھلائی ہوئی کتاب

محمد آصف ریاض
دہلی کی ایک مسجد میں ایک امام نےخطبہ دیا۔ اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے" غوث پیروں کے پیرہیں، وہ دستگیرہیں،علی مشکل کشا ہیں، وہ مولی اورمدد گارہیں۔ اپنی اس بات کے سپورٹ میں انھوں نے کئی طرح کی بے تکی کہانیاں سنائیں۔ خطبہ کے بعدوہ نمازپڑھانے کے لئےکھڑے ہوئے۔ نماز میں انھوں نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی۔
"ربناانت مولانا فنصرناعلی القوم الکافرین" یعنی اے ہمارے رب تو ہمارامولی ہے پس کافروں کےمقابلہ میں توہماری مدد فرما۔ 2-286) (
 میں سوچنے لگا کہ اچانک امام کو یہ کیا ہوگیا کہ ابھی تو وہ علی اورغوث کو مولی اور مدد گار کہہ رہا تھا اورابھی اللہ تعالی کو مولی اورمددگار پکاررہا ہے۔
بہت غوروخوض کے بعد میں اس نتیجہ پرپہنچا کہ درحقیقت وہ قرآن نہیں پڑھ رہا تھابلکہ قرآن کے نام پروہ کچھ رٹےرٹائےالفاظ دہرارہا تھا۔ اس نے ساری توانائی قصہ گوئی میں صرف کردی تھی۔ قرآن فہمی کے لئے اس کے پاس وقت ہی نہیں بچا تھا۔ مجھےاس غریب امام سے زیادہ اس کے اساتذہ پرترس آیا، جنھوں نے اسے کچھ بھی نہیں سکھایا تھا۔
جہالت کا خاتمہ
ہرطرح کی بدعت وخرافات کی جڑجہالت میں ہے۔ جہالت تاریکی ہے اورعلم روشنی۔ مسلمانوں کو گمراہی اورضلالت سے نکالنے کے لئے ضرورہ ہے کہ ان کے درمیان علم کا چرچاعام ہو۔ قرآن میں ہے: انما یخشی اللہ من عباد ہ العلماء؛ یعنی اللہ کے بندوں میں صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
بھلائی ہوئی کتاب
مسلمانوں کےدرمیان خصوصاً نام نہاد علما کے درمیان قرآن ایک بھلائی ہوئی کتاب بن کررہ گیا ہے۔ مسلمان قرآن جلانے کے معاملہ پرتوخوب ہنگامہ کرتے ہیں اورخود اپنی مسجدوں اورمدارس میں قرآن کی جگہ قصہ گوئی کو ترجیح دیتے ہیں۔
لوگوں نے دوطرح سے قرآن کو بھلا دیا ہے۔ ایک گروہ تووہ ہے جوخطیب کہلاتا ہے،یہ طبقہ اپنے خطبوں میں کہانیاں سناتا ہے اوراپنے اکابرین و اولیا اور پیرو مرشد کی داستنیں بیان کرتا ہے۔ دوسراطبقہ نام نہاد مصنفین کا ہے جواپنی تحریروں میں خطیبوں کی باتوں کو گلوری فائی کرتاہے۔
مسلمانوں نے قرآن کو کس حد تک بھلا دیا ہے اس کی ایک بہترین مثال "مقاصد شریعت" نامی کتاب ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب میں 150 سے زیادہ ریفرنسز آئے ہیں لیکن اس میں قرآن سے صرف ایک ہی ریفرنس پیش کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان قرآن فراموشی کا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ خود شریعت کی کتاب میں قرآن کوئی جگہ نہیں پارہا ہے۔
قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن پیغمبرخدا وند سے شکایت کرے گا اورکہے گا کہ "میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو بھلا دیا تھا۔" : وقال الرسول یا ربی ان قومی اتخذوھذ القرآن مہجورا۔
“And the messenger, Lord, my people did indeed discard the Quran” (25-30)
قرآن کیوں بھلا دیا گیا؟
قرآن کا بیان سادہ ہےاوراس کے مطالبات بھی سادہ ہیں۔ قرآن یکسو ہوکرلوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہے۔ قرآن ایک ایسے دین کوپرموٹ کرتا ہے جس میں کوئی آمیزش نہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ کر لوگ قرآن کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
لوگ مبنی برسیاست، مبنی براولیا، مبنی برمنفعت دین چاہتے ہیں۔ لوگ ایسا دین چاہتے ہیں جس میں ان کے اپنے خوابوں کی تعبیرموجود ہو۔ جس میں خود ان کے اپنے امنگوں کی فیڈنگ ہوتی ہو۔ لوگوں کو ایسے دین میں دلچسپی نہیں جس میں سب کچھ اللہ ہواورانسان کی اپنی حیثیت بندہ کی ہوجائے۔ نام نہاد دینداری کا دعوی کر نے والے لوگ بھی خدائی دین کو ایزاٹ از قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، وہ بھی دین کے نام پر بے د ینی کی دھوم مچاتے ہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے انھیں سماج میں اونچا مقام حاصل ہوجا تا ہے۔  
قرآن فراموشی کی اس فضا میں اگرآپ خالص دین کی بات کریں تو کوئی آپ پر توجہ نہیں دےگا۔ ایسے شخص کی بات لوگوں کو دیوانوں کی بات معلوم ہوگی۔ ایسے شخص کی کوئی مدد بھی نہیں کی جاتی کیونکہ وہ ایک ایسے دین کو لے کراٹھتا ہے جس میں خدا کومرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ انسان کی اپنی حیثیت بندے کی ہوجاتی ہے۔اور کوئی بندہ بنناپسند نہیں کرتا۔
ایج آف قرآن
ایک ایسے وقت میں جب حاملین قرآن، قرآن کو مسترد کردیں توخداترس مسلمانوں پرلازم ہے کہ وہ اپنی ذاتی کاوشوں سے صحابہ کو نمونہ بنا کردنیا میں ایج آف قرآن برپا کریں۔ وہ خود قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں، وہ گھروں میں قرآنی نشستیں منعقد کریں، وہ قرآن اوری اینٹڈ مضامین کو پڑھیں اور پڑھائیں، وہ ایسے لوگوں کا سپورٹ کریں جو اپنی باتوں کے لئے خدا کی کتاب سے دلیل لائیں۔
تبلیغ دین کا سادہ انداز  
سعودی عرب کے بارے میں ایک صاحب نے ایک واقعہ سنا یا۔ ایک بچہ ایک دکان پر جاتا ہے اورکچھ سامان خریدتا ہے۔ وہ اپنے مطلوبہ سامان کو لے کر آگے بڑھتا ہے تودکانداراسے دوبارہ آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سنو، پھرآنا، میرے پاس یہ بھی ہے، میرے پاس وہ بھی ہے، وغیرہ۔ بچہ جواب دیتا ہے "ما عندکم ینفد وما عند اللہ باق،یعنی سنو، جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اورجو اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔   

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں