قرابت داری اورصدقہ
محمد آصف ریاض
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب بہت
مالدارخاتون تھیں۔ جب انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسم کا یہ فرمان پہنچا کہ
" اے عورتوں کی جماعت صدقہ اورخیرات کیا کروگرچہ اپنا زیورہی کیوں نہ کہ
فروخت کرنا پڑے۔" وہ اس فرمان کو سن کر اپنے خاوند عبد
اللہ بن مسعود کے پاس
آئیں اوربولیں کہ آپ محتاج ہیں اورہمیں صدقہ اورخیرات کا حکم ہے۔ آپ اللہ کے رسول
سے دریافت کیجئے کہ کیا کوئی بیوی اپنے خا وند کو صدقہ دے سکتی ہے۔؟ عبد اللہ بن
مسعود نے ان سے کہا کہ آپ خودہی یہ مسئلہ دریافت کرلیں۔
حضرت زینب حضورکی خدمت میں حاضرہوئیں اورحضرت بلال کے توسط
سے اپنا مسئلہ پوچھا۔ اللہ کے رسول نے جواب دیا: لھما اجران؛ اجرالقرابہ واجرالصدقہ یعنی "ان
کے لئے دہرااجرہے ایک قرابت داری کا اوردوسراصدقہ کا۔"
آدمی عام طورپراپنا مال اپنے رشتہ داروں پرخرچ نہیں کرتا
کیونکہ رشتہ داروں سےاسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آدمی اپنا مال دوسروں پرخرچ کرتا ہے کیونکہ
اس صورت میں اسے سماج میں عزت وشہرت اوراعلی مقام حاصل ہوجا تا ہے۔ اب آدمی کو
لگتا ہے کہ اس کا صدقہ اورخیرات ضائع نہیں جا رہا ہے۔ لیکن جب کوئی آدمی یہی مال
اپنے رشتہ داروں کو دیتا ہے تواسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ رشتہ داراس کا نام بھی
نہیں لیتے اوربعض اوقات لوگوں میں اس کی شکایت بھی کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان
کوصدقہ دینے کے بعد بہت زیادہ صبرکرناپڑتا ہے۔ اوراس لئے اس کا اجر بھی بہت زیادہ
بڑھ جا تا ہے۔
اگرحدیث رسول سے اسنباط کریں توکہہ سکتے ہیں کہ ایسے لوگوں
کے لئے جوضرورت مند رشتہ داروں پرمال خرچ کرتے ہیں تین اجروثواب ہیں۔ پہلاصدقہ کا
دوسراقرابت داری کا اورتیسرا لینے والے کی ناشکری پرصبرکرنے کا۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ عزت وشہرت کی طلب میں پڑکراپنے صدقہ کوبرباد
نہ کرے۔ وہ اپنے صدقہ کوآخرت کا انوسٹمنٹ سمجھے اوراسے دے کربھول جائے۔
great, asif bhai .....
جواب دیںحذف کریں