بدھ، 30 جنوری، 2013

Realization of God


خدا کی پہچان


محمد آصف ریاض
میرا ایک بیٹا ہے — یحی {b-7-08-09} اور ایک بیٹی ہے—} مدیحہ {b 25- 0 7-2010 جب بیٹا بولتا ہے تو وہ ایک اور ہی انداز میں بولتا ہے، اور جب بیٹی بولتی ہے تو وہ ایک اور ہی انداز میں بولتی ہے۔ جب بیٹا مسکرا تا ہے تو وہ ایک اور ہی انداز میں مسکرا تا ہے اور جب بیٹی مسکراتی ہے تووہ ایک اور ہی انداز میں مسکراتی ہے۔
یہ دونوں بہت چھوٹے ہیں لیکن جہاں کہیں میری آواز سنتے ہیں وہ مجھے میری آواز سے پہچان لیتے ہیں۔ اگر وہ ریڈیو پر بھی میری آواز سنیں تو بتا دیں گے کہ یہ میراباپ ہے جو بول رہا ہے۔
خدا نے انسان کی آوازمیں وہ میکانزم {Mechanism} رکھا ہے کہ ہر شخص اس میکانزم کے ذریعہ اپنی آل اولاد اورعزیزو اقربا کو پہچان لیتا ہے۔ بولنے والا بولتا نہیں کہ سننے والا بتا دیتا ہے کہ وہ کون ہے جو بول رہا ہے۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ خدا جس نے انسان کی پہچان کے لئے اسپیشل میکانزم تیارکیا ہے، کیا وہ خود اپنی پہچان کے لئے کوئی میکانزم نہیں  تیارکرسکا؟
 جولوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا کی پہچان ممکن نہیں کیونکہ وہ نظر نہیں آتا، وہ جھوٹے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جوخدا کے دئے ہوئے میکا نزم کے ذریعہ خود اپنی آل اولاد کو توخوب پہچانتے ہیں،لیکن اسی میکانزم کے ذریعہ وہ اپنے خدا کو نہیں پہچاننا چاہتے۔ وہ نہیں سوچتے کہ جس خدا نے اس زمین پرایسا میکانزم رکھا کہ جس کے ذریعہ انسان کے لئے یہ ممکن ہوکہ وہ اپنی آل اولاد کو پہچان لے، کیا اس نے خود اپنی پہچان کے لئے کوئی میکانزم نہیں بنایا ہوگا ؟
آدمی اگرباشعورہو اور واقعتا وہ سچا متلاشی حق {True seeker}، ہو تو وہ جس میکا نزم سے اپنی آل اولاد کو پہچان لیتا ہے اسی میکانزم سے اپنے خدا کو بھی پہچان لے گا۔
خدا نے اتنی بڑی زمین بنائی ۔اوریہاں انسان کو بسایا۔ اس کے لئے سامان زندگی کا اہتمام کیا۔ مثلاً ہوائیں چلائیں، پانی اتارا، آکسیجن کا اہتمام کیا، روشنی کا انتظام کیا ، تاریکی پیدا کی، نیند کو راحت کا سبب بنا یا پھر یہ کہ ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ۔
 صرف زمین کی بناوٹ پرغور کیجئے کہ خدا کے سوا وہ کون ہے جو اس کی تخلیق کر سکتا ہے ۔ پوری انسانی تاریخ کو الٹ دیجئے اور دیکھئے کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایسا شخص پیدا ہوا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے زمین کی تخلیق کی۔ پوری انسانی تاریخی میں کوئی ایک شخص آپ کوایسا نہیں ملے گا، جواس قسم کا دعویٰ کرتا ہو۔ زمین تو دور، پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہواجس نے اپنے لئے ایک مٹھی مٹی پیدا کی ہو۔ وہ مٹی جس کے اندر سے خدا زندہ اورسر سبزوشاداب درختوں کونکالتا ہے ،اورہمارے لئے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے۔
یہ زمین کیا ہے؟ یہ زمین وہ عظیم ربانی میکانزم { Devine Mechanism}ہے جو ہمیں خدا کی پہچان بتا تی ہےلیکن کیا ہم نے اس پر کبھی غور کیا ہے؟ یہی وہ بات ہے جس کی طرف قرآن ہمیں تقریباً 15سو سال سے پکار رہا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے :
پھرذراانسان اپنی خوراک پرغور کرے کہ ہم نے خوب پانی برسا یا،پھرزمین کوعجیب طرح سے پھاڑا،پھراس کے اندر اگائے غلے اور انگور اور ترکاریاں ،اور زیتون اور کھجور یں،اورگھنے باغ اورطرح طرح کے پھل اور چارے،تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کے لئے، سامان زیست کے طور پر۔ {80:23-24}
آدمی جب خدا وند کے سامنے حاضر ہوگا اوراس صورت میں حاضر ہوگا کہ وہ خدا پرایمان نہیں رکھتا تھا، تو خدا وند اس سے پوچھے گا کہ تو ایمان کیوں نہیں لایا؟
 انسان کہے گا خدا وند میں تجھے نہیں دیکھ سکا اسلئے میں تجھ پرایمان نہیں لا سکا؟ خدا وند کہے گا تو اپنی آل اولاد کو تو بغیر دیکھے محض ان کی آواز سے پہچان لیتا تھا؟ پھراسی میکانزم سے تو اپنے رب کو کیوں نہیں پہچان سکا؟ کیا کائنات میں میری نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی نہیں تھیں، جو میرے ہونے کا پتہ دے رہی تھیں۔؟
کیا میں نے تیرے سرپرمضبوط آسمان نہیں بنا یا تھا؟ کیا میں نے تیرے لئے زمین کو نہیں پھیلا دیا تھا ؟ کیا میں نے تمہارے لئے مٹی اورپانی سے کھا نا نہیں نکا لا تھا۔ کیا میں نے درخت سے تمہارے لئے آکسیجن کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ کیا میں نے سورج کا چراغ جلا کر تمہارے لئے روشنی پیدانہیں کی تھی؟ کیا اس میں چھپے میکانزم میری پہچان کے لئے کافی نہیں تھے۔
بات یہ ہے کہ تو سر کش ہے۔ اپنی آل اولاد کو پہچاننے میں تجھےدقت نہ ہوئی اوراپنے رب کو پہچاننے میں توبودا بن گیا۔ اب اپنی نادانی کی سزا کاٹ۔ خدا وند انھیں دوزخ کے کوڑے دان ڈال دے گا۔ جہاں بائبل کے مطابق ابد تک کے لئے رونا اوردانت پیسنا ہوگا۔ 

منگل، 29 جنوری، 2013

"Ignorant is he, who doesn't know his ignorance"


کسی کو کمترمت سمجھئے

محمد آصف ریاض

گزشتہ دنوں ایک کہانی نظر سے گزری۔ وہ کہانی ایک پروفیسر کے بارے میں تھی۔ پروفیسر سمندری سفر پر تھا۔ اپنے سفر کے دوران وہ ہر روز جہازمیں لکچر دیا کرتا تھا۔ اس کا لکچرسننے کے لئے دوسرے مسافروں کے ساتھ جہازکا سیلر بھی آجایا کرتا تھا۔

ایک دن پروفیسر نے سیلر سے سوال کیا کہ تم جیولوجی Geology جانتے ہو؟ سیلر نے کہا حضوریہ جیولوجی کیا چیز ہے؟ پروفیسر نے جواب دیا تم Geology نہیں جانتے؟ This is Science of earth یہ علم ارضیات ہے۔ افسوس ہے تم پر کہ تم زمین پر رہ کربھی زمین کے علم سے واقف نہیں۔ تم نے کیا جانا۔ تم نے اپنی زندگی کا ایک حصہ برباد کر لیا۔ سیلرخاموش ہو گیا۔ دوسرے دن پھروہ لکچر سننے کے لئے آیا۔ پروفیسر نے پھراس سے سوال کیا۔ Do you know ocean logy? کیاتم اوشینونولوجی جانتے ہو؟
حضوریہ اوشینولوجی کیا چیزہے، مجھے اس کا قطعی علم نہیں۔ تم ocean logy نہیں جانتے، حیرت ہے۔ تم سمندرمیں رہ کر بھی سمندر کے علم سے واقف نہیں؟ تم نے کیا جانا! تم نے اپنی زندگی کا نصف حصہ برباد کر لیا۔ تیسرے دن پروفیسر نے سیلر سے پھر ایک سوال کر دیا۔ اس بار اس نے پوچھا تم Metro logy جانتے ہو؟ سیلر نے جواب دیا حضور یہ کیا ہوتا ہے؟ ارے یہ علم موسمیات ہے تمہیں ہر لمحہ بدلتے ہوئے موسم کا سامنا ہے اور تم علم موسمیات سے واقف نہیں! تم نے کیا جانا تم نے اپنی زندگی کا تیسرا حصہ بھی برباد کر لیا۔ یہ سن کر سیلر بہت اداس ہوا۔ اس نے سوچا اگر پروفیسر کی طرح پڑھا لکھا انسان یہ بول رہا ہے تو وہ ٹھیک ہی بول رہا ہوگا کہ میں نے اپنی زندگی کا تیسرا حصہ بھی برباد کر لیا۔

 چوتھے روزوہ چلاتا ہوا پروفیسر کے پاس آیا۔ پروفیسر! پروفیسر تم swim logy جانتے ہو؟ سویمومولوجی؟ یہ کیا ہوتا ہے؟ پروفیسر نے حیرت سے پوچھا۔ ارے یہ آرٹ آف سوئمنگ ہے۔  "This is art of swimming" یہ تیراکی کا علم ہے۔ پروفیسر تم سوئمنگ نہیں جانتے! تو تم نے کیا جانا! تم نے کچھ نہیں جانا! تم نے اپنی پوری زندگی برباد کر لی۔ پروفیسر جہاز چٹان سے ٹکرا گیا ہے اور اب یہ ڈوب رہا ہے آج وہی شخص بچے گا جسے تیرنا آتا ہو جسے سوئمنگ آتی ہو۔ پروفیسر تم نے کیا جانا تم نے اپنی پوری زندگی برباد کرلی۔

آدمی کو چاہئے کہ وہ احساس برتری کا شکار نہ ہو۔ وہ علم کے زعم میں دوسروں کو کمتراور حقیر نہ سمجھے۔ وہ یہ نہ جانے کہ وہ کیا جانتا ہے وہ یہ جانے کہ وہ کیا نہیں جانتا ہے کہ اپنے نہیں جاننے کو جاننا ہی اصل جاننا ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے
 "Ignorant is he, who doesn't know his ignorance" جاہل وہ ہے جو خود اپنی جہالت سے واقف نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر چیز کی ایک قیمت ہے اور جاننے کی قیمت یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ کہ جب کوئی شخص اپنے نہیں جاننے کو جان لے گا تو وہ بغیر جانے نہیں رہے گا۔ کسی دانشور نے کہا ہے:
جاننے کاعمل وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آدمی یہ جان لے کہ وہ نہیں جانتا۔

جمعرات، 24 جنوری، 2013

Learn from the fish


تفہیم کی غلطی

محمد آصف ریاض
پچھلے دنوں میری ملا قات چند انجینئرس سے ہوئی۔  وہ آپس میں بات چیت کر رہے تھے ۔ بات چیت کے دوران ان میں ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے !
اس بات پروہ بھڑک اٹھے، کہنے لگے کہ آپ خود تونماز نہیں پڑھتے،اور دوسروں پرحکم لگاتے ہیں۔ اس معاملہ پردونوں کے درمیان تنازعہ کھڑاہوگیا تومیں نے مداخلت کی اورانھیں سمجھا یا کہ آپ کا یہ کہنا غلط ہے کہ جو آدمی نمازنہ پڑھے،وہ دوسروں کونماز پڑھنے کے لئے بھی نہ کہے۔ میں نے انھیں بتا یا کہ کسی کا بے نمازی ہونا، اس سے نماز کی تاکید کرنے کا حق نہیں چھینتا۔
میں نے انھیں بتا یا کہ ایک بے نمازی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں سے کہے کہ لوگو،نمازپڑھو۔اسی طرح ایک شرابی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ لوگو، شراب مت پیو!صرف شراب پینے سے کسی سے شراب کو Prohibit  کرنے کا حق نہیں چھینا جاسکتا۔
میں نے انھیں بتا یا کہ جو لوگ اس طرح کی بات کرتے ہیں وہ اپنی بات کے جواز میں قرآن کی اس آیت کو دلیل بناتے ہیں۔
لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو اورخود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟“۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 44}
میرے خیال میں لوگ اس آیت کے تقاضے کو نہیں سمجھتے۔ لوگ اس معاملہ میں تفہیم کی غلطی میں مبتلا ہیں۔ یہاں جو یہ کہا گیا ہے کہ" دوسروں کو بھلائیوں کا حکم لگاتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو" تو اس میں زور اس بات پر نہیں ہے کہ "دوسروں پر حکم مت لگا" کلام کا زور اس بات پر ہے کہ "تم جو دوسروں سے کہو وہ خود بھی کرو۔"  کلام کا زورخود بھی کرو  پر ہے نہ کہ  تم حکم مت لگاﺅ پر۔
 میں نے انھیں بتا یا کہ اگر ایک شخص شراب پئے، تب بھی اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں سے کہے کہ لو گو، شراب مت پیو۔ کسی سے محض شراب پینے کی وجہ سے شراب کو Prohibitکر نے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔
میں نے انھیں اس معاملہ میں مچھلی کی مثال پیش کی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ زمین کے تمام جاندارآکسیجن پر زندہ ہیں۔ فضاﺅں میں آکسیجن ہے تو زندگی ہے۔ آکسیجن نہیں توزندگی بھی نہیں۔
مچھلی کا سبق
مچھلی بھی آکسیجن لیتی ہے۔ لیکن اس کا آکسیجن پانی میں گھلا ہوتا ہے۔ مچھلی  dissolve آکسیجن لیتی ہے۔ مچھلی کے سر پر ایک کٹی ہوئی جگہ ہوتی ہے، جسے سائنسی زبان میں Gillsکہا جا تا ہے۔ مچھلی اسی Gillسے آکسیجن لیتی ہے۔ جیسے ہی پانی Gillsسے گزرتا ہے، مچھلی اس سے آکسیجن لے لیتی ہے اورپانی کوچھوڑ دیتی ہے۔
یہی کسی انسان کو کرنا ہے۔ جب اس کے سامنے حق آئے تو وہ اسے لے لے اور  یہ نہ دیکھے کہ لانے والا کون ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ہرحال میں حق کی قدر کرے۔ وہ حق قبول کرنے کے معاملہ میں مچھلی بن جائے۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں یہی حکمت کی بات ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے سمجھانے کےلئے اللہ نے کتابیں اتاریں،نبی اور رسول بھیجے۔ اسی کو سمجھانے کے لئے کائنات کو پھیلا یاتا کہ انسان اس پرغور کرے اور اس سے اپنے لئے ربانی غذا حاصل کرے۔

منگل، 22 جنوری، 2013

Give to forget


قرابت داری اورصدقہ

محمد آصف ریاض
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب بہت مالدارخاتون تھیں۔ جب انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسم کا یہ فرمان پہنچا کہ " اے عورتوں کی جماعت صدقہ اورخیرات کیا کروگرچہ اپنا زیورہی کیوں نہ کہ فروخت کرنا پڑے۔" وہ اس فرمان کو سن کر اپنے خاوند عبد اللہ بن مسعود کے پاس آئیں اوربولیں کہ آپ محتاج ہیں اورہمیں صدقہ اورخیرات کا حکم ہے۔ آپ اللہ کے رسول سے دریافت کیجئے کہ کیا کوئی بیوی اپنے خا وند کو صدقہ دے سکتی ہے۔؟ عبد اللہ بن مسعود نے ان سے کہا کہ آپ خودہی یہ مسئلہ دریافت کرلیں۔
حضرت زینب حضورکی خدمت میں حاضرہوئیں اورحضرت بلال کے توسط سے اپنا مسئلہ پوچھا۔ اللہ کے رسول نے جواب دیا: لھما اجران؛ اجرالقرابہ واجرالصدقہ یعنی "ان کے لئے دہرااجرہے ایک قرابت داری کا اوردوسراصدقہ کا۔"
آدمی عام طورپراپنا مال اپنے رشتہ داروں پرخرچ نہیں کرتا کیونکہ رشتہ داروں سےاسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آدمی اپنا مال دوسروں پرخرچ کرتا ہے کیونکہ اس صورت میں اسے سماج میں عزت وشہرت اوراعلی مقام حاصل ہوجا تا ہے۔ اب آدمی کو لگتا ہے کہ اس کا صدقہ اورخیرات ضائع نہیں جا رہا ہے۔ لیکن جب کوئی آدمی یہی مال اپنے رشتہ داروں کو دیتا ہے تواسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ رشتہ داراس کا نام بھی نہیں لیتے اوربعض اوقات لوگوں میں اس کی شکایت بھی کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان کوصدقہ دینے کے بعد بہت زیادہ صبرکرناپڑتا ہے۔ اوراس لئے اس کا اجر بھی بہت زیادہ بڑھ جا تا ہے۔
اگرحدیث رسول سے اسنباط کریں توکہہ سکتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے لئے جوضرورت مند رشتہ داروں پرمال خرچ کرتے ہیں تین اجروثواب ہیں۔ پہلاصدقہ کا دوسراقرابت داری کا اورتیسرا لینے والے کی ناشکری پرصبرکرنے کا۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ عزت وشہرت کی طلب میں پڑکراپنے صدقہ کوبرباد نہ کرے۔ وہ اپنے صدقہ کوآخرت کا انوسٹمنٹ سمجھے اوراسے دے کربھول جائے۔   

پیر، 21 جنوری، 2013

Those who are awaken to die


وہ جو صرف مرنے کے لئے جاگتے ہیں

محمد آصف ریاض
ممبئی کے دھولیہ کے رہنے والے رئیس قاضی کی زندگی2008  میں اس وقت اچانک بدل گئی جب پولیس نے انھیں دھولیہ فساد کی سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ میڈیا نے انھیں سیمی کا ایجنٹ بتا نا شروع کر دیا۔ قاضی جیل میں رہ کر مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لینے لگے۔ انھیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مہاراشٹرمیں مسلمانوں کی تعداد  10.6 فیصد ہے جبکہ جیل میں ان کی تعداد 32.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
مسٹرقاضی نے انڈین اکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتا یا: " میں جانتا تھا کہ میں بہت جلد رہا کردیا جائوں گا کیوںکہ میرے خلاف جھوٹے معاملات درج کئے گئے تھے۔ جیل کے اندر میں اس بات کو لے کر متفکر تھا کہ پولیس میں مسلمانوں کے خلاف اس قدرنفرت کیوں پائی جاتی ہے۔"

55 دنوں تک جیل میں رکھنے کے بعد قاضی کو رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد قاضی نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی کے خلاف نفرت میں جینے کے بجائے اس معاملہ سے نمٹنے کے لئے کوئی مثبت قدم اٹھا ئے گا۔ اس نے مسلم نوجوانوں کو پولیس میں بحال کرنے کے لئے دھولیہ میں ایک کوچنگ سینٹر کھول دیا۔ اس کا ریزلٹ یہ نکلا کہ صرف تین سالوں کے اندر اس نے 750 مسلم نوجوانوں کو تربیت دی جن میں 25 نوجوان مہارشٹر پولیس میں کانسٹیبل کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
مسٹر قاضی نے انڈین اکسپریس کے نمائندہ کو بتا یا: " میں نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پڑھی تھی جس میں بتا یا گیا تھا کہ مہاراشٹر پولیس میں مسلمانوں کی تعدادمحض  1.5 فیصد ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر مہاراشٹر پولیس میں مسلم نوجوانوں کی تعداد کچھ بڑھا دی جائے تو مسلمانوں کے تئیں پولیس کے اندر پائی جانے والی نفرت میں کچھ کمی آسکتی ہے"
 “I had read the Sachar Committee report which stated that there were only 1.5 per cent Muslim cops in Maharashtra. I thought increasing the number of Muslims in the police force could at least help rein in the hostility a little,” Kazi said.
 Dhule, Sat Jan 12 2013, 
اس دنیا میں دو قسم کے لوگ جاگتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو اپنا سخت محاسبہ کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ ان کا محاسبہ انھیں ہمیشہ بیدار رکھتا ہے۔ دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں جو عام حالات میں نہیں جاگتے وہ اس وقت جاگتے ہیں جب انھیں کوئی بڑا جھٹکا لگے جبکہ انھیں صدماتی تجربات کا سامنا ہو۔
لیکن ایک اور قسم کے لوگ ہیں جو کبھی نہیں جاگتے۔ نہ ان کا محاسبہ انھیں جگاتا ہے، نہ کوئی صدماتی تجربہ {  {Shocking experience انھیں بیدار کرتا ہے۔ وہ صرف اس وقت جاگتے ہیں جب کہ ان کے سر پر کوئی بہت بڑاچٹان گرا دیا جائے لیکن اس وقت جاگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس وقت وہ صرف مرنے کے لئے جاگتے ہیں۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ جاگے تو کچھ کرنے کے لئے جاگے وہ صرف مرنے کے لئے نہ جاگے۔
قیامت کے دن ہر شخص جاگے گا لیکن اس دن لوگوں کا جاگنا انھیں کام نہیں دے گا کیوں کہ اس دن وہ کسی عمل کے لئےنہیں جاگیں گے بلکہ وہ اپنے عمل کی جزااور سزا پانے کے لئے جگا ئے جائیں گے۔

ہفتہ، 19 جنوری، 2013

Are they paying price of their ignorance?

کیا ہندوستانی مسلمان اپنی نا اہلی کی قیمت چکا رہے ہیں؟

محمد آصف ریاض

مرکزی وزارت سیاحت اس ماہ گواہاٹی میں ایک سہ روزہ عالمی سیاحتی میلہ منعقد کررہی ہے۔ یہ میلہ 18 جنوری سے 20 جنوری تک چلے گا۔ اس سیاحتی میلہ میں آسٹریلیا، بنگلہ دیش، بھوٹان، کمبوڈیا، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، کوریا، ملیشیا، میانمار، فلپنس، سنگا پور، سیوڈن، سیوٹزر لینڈ ، تھائی لینڈ، برطانیہ، امریکہ اور ویتنام، جیسے ممالک شرکت کر رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میلہ میں چین کومدعو نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ اعداو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 25 ملین چینی ہرسال سیاحت کے لئے نکلتے ہیں۔ چین سیاحت پرسالانہ 40 بلین دالر خرچ کرتا ہے۔ چینی سیاحوں میں ہندوستان آنے والوں کی تعداد حیرت انگیز طور ہرایک لاکھ سے بھی کم ہے۔

ٹائمزآف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بات یہ نہیں ہے کہ چینی ہندوستان میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چینی سیاحوں کے لئے ہندوستان میں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ مثلاً انھیں چینی زبان میں گائیڈ نہیں ملتا۔ ہندوستان جینی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے ہرسال کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا رہا ہے۔ 



China is one of the largest tourism markets in the world but India barely receives a fraction of the tourists. Recent data shows that of the around 50 million Chinese who travel overseas every year spending some $40 billion, less than a lakh travel to India on business and tourism. The low numbers is attributed to lack of infrastructure and facilities like Chinese language guides rather than lack of interest


Jan 11, 2013
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک موقع

ہندوستان کے مسلم لیڈران ہمیشہ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ حکومت ان کے بچوں کوجاب کہ مواقع فراہم نہیں کراتی۔ انھیں زندگی کے ہر شعبہ میں حاشیہ پررکھا جا تا ہے۔ ان کے ساتھ تعصب برتاجا تا ہے۔ وہ کرسکتے ہیں لیکن انھیں کرنے کا موقع نہیں دیا جا تا، وغیرہ۔

تاہم اگرآپ چیزوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں تو پائیں گے کہ ہندوستانی مسلمان خود اپنی نا اہلی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے بازارمیں چوہادانی کی دکان سجائے ہوئے ہیں جہاں ہردوسرا شخص چوہا دانی بیچ رہاہے۔ وہ کچھ یونک نہیں کرتے۔ وہ نئے مواقع سے واقف نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ سیاحتی شعبہ میں ان کے لئےلامحدود مواقع موجود ہیں۔ وہ چینی زبان سکھا کر اپنے لاکھوں نوجوانوں کوباوقارجاب دلا سکتے ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ جہاں چینی زبان کی طلب ہے وہاں وہ اردوشاعری کی دھوم مچا رہے ہیں۔  

منگل، 15 جنوری، 2013

When the Going Gets Tough, the Tough Gets Going


ہر ناکامی صرف یہ بتاتی ہے کہ کامیابی قریب آگئی ہے

میزائیل مین اے پی جےعبد الکلام جب اگنی میزائیل پرکام کررہے تھے توانھیں اس عمل میں کئی بارناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ قومی میڈیا میں آپ کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ حالانکہ راکٹ سائنس میں اس قسم کی ناکامی ایک عام بات ہوتی ہے۔ لیکن لوگ اسے سمجھنے کے لئے تیارنہیں تھے۔

لوگوں کو یہ تشویش لاحق ہوگئی تھی کہ اگنی کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ ہرشخص اگنی کی ناکامی پراپنے ردعمل کا اظہار کررہا تھا۔ جتنے منھ اتنی باتیں۔ امول نے ایک کارٹون شائع کیا۔ اس پرلکھا تھا: " اگنی کوامول کا بٹراستعمال کرنا چاہئے"
{Agni should use their butter as fuel}
اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے کلام نےاپنے دوہزارانجینروں کی میٹنگ طلب کی اورانھیں بتا یا ہے: "ہمیں عظیم مواقع دئے گئے ہیں۔ تمام بڑے مواقع کےاپنے ساتھ بڑے چیلنجزلےکرآتے ہیں۔ ہمیں اپنی جدوجہد سے بازنہیں آنا چاہئے۔ ہمارا ملک ہم سے اگنی سے کم کچھ بھی نہیں چاہتا۔"
A great opportunity has been given to us. All major opportunities are accompanied by equally major challenges’ we cannot give up. Our country does not deserve anything less from us.
اس موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا " اگنی کا اگلا تجربہ ضرورکامیاب ہوگا۔" آخر کار 22 مئی19 89 کو اگنی کاکامیاب تجربہ کیا گیا۔
کلام نے ناکامی کوچیلنج کے طورپرلیا۔ ناکامی ان کے حوصلہ کو توڑ نہ سکی۔ انھوں نے اپنے انجینروں کو پہلے سے زیادہ جدود جہدپرابھارا یہاں تک کہ وہ ناکامی کو کامیابی میں بدلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگنی کےاس کامیاب تجربہ نے کلام کو "میزائل مین" بنا دیا۔
بات یہ ہے کہ خدا کی اس دنیا میں بے پناہ امکانات پائے جاتے ہیں۔ یہاں کوئی ناکامی مجرد نہیں ہوتی۔ یہاں ہرناکامی کے ساتھ کامیابی لگی رہتی ہے۔ یہاں کی ہر ناکامی کامیابی کی طرف بڑھا یا گیا ایک قدم ہے۔ یہاں کی ہر ناکامی صرف یہ بتاتی ہے کہ کامیابی قریب آگئی ہے۔
انگریزی کا ایک قول ہے:
  When the Going Gets Tough, the Tough Gets Going
عام طورپر لوگ اس کا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ جب صورت حال مشکل ہوجاتی ہے تواس وقت چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے شدید جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن میرے نزدیک اس کا ایک اور معنی ہے۔ وہ یہ کہ " جب جد جہد سخت ہوجاتی ہے توسختی خود بخود ختم ہونے لگتی ہے۔ یعنی؛
"When going gets tough the tough gets fading

ہفتہ، 12 جنوری، 2013

Success Mechanism


"آپ کا شیشہ"


محمد آصف ریاض

عرفی شیرازی سولہویں صدی کا معروف فارسی شاعر ہے۔ پچھلے دنوں میں اسے پڑھ رہا تھا تو دوران مطالعہ مجھے اس کا یہ شعر پسند آیا۔
 ”در دل ما،غم دنیا غم معشوق شود - بادہ گر خام بود پختہ کند شیشہ ما
یعنی جب مجھے  "غم دنیا "  ملتا ہے، تو میرا دل اسے "غم معشوق" بنا دیتا ہے۔ اور جب مجھے " خام شراب"  ملتی ہے تو میرا " شیشہ " اسے پختہ بنا دیتا ہے۔
عرفی کےاس شعرمیں کامیابی کا راز چھپا ہے۔ کامیابی کیا ہے؟ کامیابی یہ ہے کہ انسان کم کوزیادہ بنانے کا ہنرجان لے۔ وہ ناپختہ کو پختہ بنانا سیکھ لے۔ وہ اس "میکانزم" کو جان لے جس کے ذریعہ ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کیا جا تا ہے، اور مائنس کو پلس بنا یا جا تا ہے۔

کامیابی یہ ہے کہ ایک شخص کے حصہ میں بیابان آئے اور وہ اسے لہلہا تا ہوا باغ بنا دے۔ اسے نامکمل ٹکنالوجی دی جائے اور وہ اسے" اپ گریڈ "  کرکے اپنے دشمن کو چونکا دے۔ اسے ناکامی ملے اور وہ اس کے اندر سے کامیابی کونکال لے۔ وہ شعور کی سطح پراتنا بلند ہوجائے کہ نامکمل بات میں مکمل بات کو پڑھ لے۔

جب بھی کسی آدمی کومیابی ملتی ہے، تو وہ نا مکمل ہوتی ہے، آدمی خود اپنے شعور کا استعمال کر کے اسے آگے بڑھا تا ہے۔
 وہ رفتہ رفتہ چھوٹی کامیابی (smaller success ) سے بڑی کامیابی (Greater success)کی طرف بڑھتا ہے۔

اگرآدمی کے پاس وہ "شیشہ" نہ ہو جس میں ناپختہ شراب پختہ بنا ئی جا تی ہے،تووہ اس دنیا میں کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔ کسی بھی قابل ذکر کار نامہ کو انجام دینے کے لئے لازم ہے کہ آدمی کے پاس وہ شعورہوجس کے ذریعہ وہ نامکمل کومکمل اورنا پختہ کو پختہ بنا سکے۔ بادہ گر خام بود پختہ کند شیشہ ما

گائے کو دیکھئے،وہ کیا کھاتی ہے؟ گھانس بھوس لیکن دیتی کیا ہے؟ دودھ ! گائے کو گھاس بھوس ملتا ہے لیکن اس کا "شیشہ" {میکانزم} اسے دودھ بنا دیتا ہے۔ اگر گائے کے پاس گھاس بھوس کو دودھ بنانے والا "شیشہ" نہ ہو تو گائے زمین پراپنی اہمیت کھودے گی۔

اب زمین کو دیکھئے، زمین کے اوپر کتنی غلاظت ڈالی جاتی ہے لیکن زمین ہے کہ وہ انھیں اپنے اندرجذب کر لیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو توجانتے ہیں کیا ہوگا؟زمین پرلاشوں کا پہاڑنظر آئے گا اور فضاوں میں ہر طرف آلودگی پھیلی ہوئی نظر آئے گی۔ زمین اپنے دامن میں تمام غلاظت کوسمیٹتی ہے اور پھرزمین پر پھول کھلاتی ہے اور فضاﺅں میں خوشبواڑا تی ہے۔ زمین کا شیشہ (میکانزم) بدبو کوخوشبو میں بدل دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی بڑے کام کوانجام دینے کے لئےایک شیشہ درکارہوتا ہے،جہاں ناکامیاں کامیابیوں میں ڈھل جا تی ہیں، جہاں مائنس کو پلس بنا دیا جاتاہے۔ جب تک کسی انسان کے پاس وہ شیشہ (شعور) نہیں ہوگا، جس کے ذریعہ وہ اپنے کم کو زیادہ بنا سکے، تب تک وہ دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔
.....................
مضمون نگار "امکانات کی دنیا"کے مصنف ہیں
Asif343@gmail.com

پیر، 7 جنوری، 2013

“And the messenger will say, Lord, my people did indeed discard the Quran” (25-30)


قرآن: ایک بھلائی ہوئی کتاب

محمد آصف ریاض
دہلی کی ایک مسجد میں ایک امام نےخطبہ دیا۔ اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے" غوث پیروں کے پیرہیں، وہ دستگیرہیں،علی مشکل کشا ہیں، وہ مولی اورمدد گارہیں۔ اپنی اس بات کے سپورٹ میں انھوں نے کئی طرح کی بے تکی کہانیاں سنائیں۔ خطبہ کے بعدوہ نمازپڑھانے کے لئےکھڑے ہوئے۔ نماز میں انھوں نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی۔
"ربناانت مولانا فنصرناعلی القوم الکافرین" یعنی اے ہمارے رب تو ہمارامولی ہے پس کافروں کےمقابلہ میں توہماری مدد فرما۔ 2-286) (
 میں سوچنے لگا کہ اچانک امام کو یہ کیا ہوگیا کہ ابھی تو وہ علی اورغوث کو مولی اور مدد گار کہہ رہا تھا اورابھی اللہ تعالی کو مولی اورمددگار پکاررہا ہے۔
بہت غوروخوض کے بعد میں اس نتیجہ پرپہنچا کہ درحقیقت وہ قرآن نہیں پڑھ رہا تھابلکہ قرآن کے نام پروہ کچھ رٹےرٹائےالفاظ دہرارہا تھا۔ اس نے ساری توانائی قصہ گوئی میں صرف کردی تھی۔ قرآن فہمی کے لئے اس کے پاس وقت ہی نہیں بچا تھا۔ مجھےاس غریب امام سے زیادہ اس کے اساتذہ پرترس آیا، جنھوں نے اسے کچھ بھی نہیں سکھایا تھا۔
جہالت کا خاتمہ
ہرطرح کی بدعت وخرافات کی جڑجہالت میں ہے۔ جہالت تاریکی ہے اورعلم روشنی۔ مسلمانوں کو گمراہی اورضلالت سے نکالنے کے لئے ضرورہ ہے کہ ان کے درمیان علم کا چرچاعام ہو۔ قرآن میں ہے: انما یخشی اللہ من عباد ہ العلماء؛ یعنی اللہ کے بندوں میں صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
بھلائی ہوئی کتاب
مسلمانوں کےدرمیان خصوصاً نام نہاد علما کے درمیان قرآن ایک بھلائی ہوئی کتاب بن کررہ گیا ہے۔ مسلمان قرآن جلانے کے معاملہ پرتوخوب ہنگامہ کرتے ہیں اورخود اپنی مسجدوں اورمدارس میں قرآن کی جگہ قصہ گوئی کو ترجیح دیتے ہیں۔
لوگوں نے دوطرح سے قرآن کو بھلا دیا ہے۔ ایک گروہ تووہ ہے جوخطیب کہلاتا ہے،یہ طبقہ اپنے خطبوں میں کہانیاں سناتا ہے اوراپنے اکابرین و اولیا اور پیرو مرشد کی داستنیں بیان کرتا ہے۔ دوسراطبقہ نام نہاد مصنفین کا ہے جواپنی تحریروں میں خطیبوں کی باتوں کو گلوری فائی کرتاہے۔
مسلمانوں نے قرآن کو کس حد تک بھلا دیا ہے اس کی ایک بہترین مثال "مقاصد شریعت" نامی کتاب ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب میں 150 سے زیادہ ریفرنسز آئے ہیں لیکن اس میں قرآن سے صرف ایک ہی ریفرنس پیش کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان قرآن فراموشی کا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ خود شریعت کی کتاب میں قرآن کوئی جگہ نہیں پارہا ہے۔
قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن پیغمبرخدا وند سے شکایت کرے گا اورکہے گا کہ "میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو بھلا دیا تھا۔" : وقال الرسول یا ربی ان قومی اتخذوھذ القرآن مہجورا۔
“And the messenger, Lord, my people did indeed discard the Quran” (25-30)
قرآن کیوں بھلا دیا گیا؟
قرآن کا بیان سادہ ہےاوراس کے مطالبات بھی سادہ ہیں۔ قرآن یکسو ہوکرلوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہے۔ قرآن ایک ایسے دین کوپرموٹ کرتا ہے جس میں کوئی آمیزش نہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ کر لوگ قرآن کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
لوگ مبنی برسیاست، مبنی براولیا، مبنی برمنفعت دین چاہتے ہیں۔ لوگ ایسا دین چاہتے ہیں جس میں ان کے اپنے خوابوں کی تعبیرموجود ہو۔ جس میں خود ان کے اپنے امنگوں کی فیڈنگ ہوتی ہو۔ لوگوں کو ایسے دین میں دلچسپی نہیں جس میں سب کچھ اللہ ہواورانسان کی اپنی حیثیت بندہ کی ہوجائے۔ نام نہاد دینداری کا دعوی کر نے والے لوگ بھی خدائی دین کو ایزاٹ از قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، وہ بھی دین کے نام پر بے د ینی کی دھوم مچاتے ہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے انھیں سماج میں اونچا مقام حاصل ہوجا تا ہے۔  
قرآن فراموشی کی اس فضا میں اگرآپ خالص دین کی بات کریں تو کوئی آپ پر توجہ نہیں دےگا۔ ایسے شخص کی بات لوگوں کو دیوانوں کی بات معلوم ہوگی۔ ایسے شخص کی کوئی مدد بھی نہیں کی جاتی کیونکہ وہ ایک ایسے دین کو لے کراٹھتا ہے جس میں خدا کومرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ انسان کی اپنی حیثیت بندے کی ہوجاتی ہے۔اور کوئی بندہ بنناپسند نہیں کرتا۔
ایج آف قرآن
ایک ایسے وقت میں جب حاملین قرآن، قرآن کو مسترد کردیں توخداترس مسلمانوں پرلازم ہے کہ وہ اپنی ذاتی کاوشوں سے صحابہ کو نمونہ بنا کردنیا میں ایج آف قرآن برپا کریں۔ وہ خود قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں، وہ گھروں میں قرآنی نشستیں منعقد کریں، وہ قرآن اوری اینٹڈ مضامین کو پڑھیں اور پڑھائیں، وہ ایسے لوگوں کا سپورٹ کریں جو اپنی باتوں کے لئے خدا کی کتاب سے دلیل لائیں۔
تبلیغ دین کا سادہ انداز  
سعودی عرب کے بارے میں ایک صاحب نے ایک واقعہ سنا یا۔ ایک بچہ ایک دکان پر جاتا ہے اورکچھ سامان خریدتا ہے۔ وہ اپنے مطلوبہ سامان کو لے کر آگے بڑھتا ہے تودکانداراسے دوبارہ آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سنو، پھرآنا، میرے پاس یہ بھی ہے، میرے پاس وہ بھی ہے، وغیرہ۔ بچہ جواب دیتا ہے "ما عندکم ینفد وما عند اللہ باق،یعنی سنو، جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اورجو اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔   

جمعرات، 3 جنوری، 2013

Do not treat the orphan with harshness


میرا بیٹا میری گود

محمد آصف ریاض
میرابیٹامحمد یحی میرے ساتھ ہی سوتا ہے۔ وہ ابھی محض تین سال کا ہے۔ وہ پوری طرح چمٹ کر سوتا ہے۔ ایک دن صبح فجرکے بعد میں بیٹھاپڑھ رہا تھا۔ اس نے آنکھیں کھول کردیکھا اورمچھلی کی طرح اوچھل کر میری گود میں آکر سوگیا۔
بیٹے کےاس عمل نے مجھے یتامی کی یاد دلادی۔ اسلام میں یتیم کو اسپیشل کیئر دینے کے لئے کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس وہ گود نہیں ہوتاجس میں وہ مچھلی کی طرح اوچھل کر بیٹھ جائے۔ اسلام چاہتا ہے کہ یتامی کے لئے سماج کا ہر شخص ماں باپ بن جائے۔
قرآن میں ہے:
" کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرابھراباغ ہو، نہروں سے سیراب کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اس وقت تیز بگولوں کی زد میں آکر تباہ ہوجائے جبکہ وہ خود بوڑھا ہواور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟" (2-266)
آدمی کو اپنے مال کی سب سے زیادہ ضرورت بڑھاپے میں ہوتی ہے۔ اور یہ ضرورت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جبکہ اس کے بچے ابھی چھوٹے ہوں۔ کیوں کہ بڑھا پے کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں سکتا اور بچے چھوٹے ہونے کی وہجہ سے کسی لائق نہیں رہتے۔
اسلام انسان کے سوئے ہو ئے ضمیر کو جگاتا ہے۔ وہ انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ ذراسوچو کہ تمہارے بچے چھوٹے ہوں اور تم پر موت آجائے، ایسی حالت میں تمہیں اپنے بچوں کے بارے میں کس قسم کی فکر لاحق ہو گی؟ سنو، اسی قسم کی فکر ہرمرنے والے کو اپنے بچوں کے تئیں ہوتی ہے۔
اسلام ایک ایسا سماج بنانا چاہتا ہے جس میں سماج کا ہر فرد یتامی کے لئے ماں باپ بن جائے۔ وہ ہریتیم کے اندر اپنے بچوں کی تصویردیکھے۔ وہ ہر یتم کے اندر اس کےماں باپ کاوہ درد محسوس کرے جو اپنے بچوں کو چھوڑتے ہوئے خود اسے ہوتا۔ قران میں ہے: " یتیم پرسختی مت کرو" (93-9)
اسلام میں یتامی کو اسپیل کیئر دینے کے لئے کہا گیا ہے۔ اگرایسا کرنے میں کوئی کمیو نٹی فیل ہوجائے تو خدا آسمان سے خود اترے گا اور دوسروں کے مقابلہ میں یتامی کی مدد فرمائے گا۔ اسلام کے نزدیک یتامی سے معاملہ کرنا ایسا ہے گویا کوئی شخص براہ راست خدا وند سے معاملے کرے؛ اس کا اشارہ ہمیں قرآن میں موسی اور خضر کے اس واقعہ میں ملتا ہے:
" اوراس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے، جو اس شہر میں رہتے ہیں اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لئے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لئے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنےاختیار سے نہیں کردیا۔" (18- 82)