خدا کی پہچان
محمد آصف ریاض
میرا ایک بیٹا
ہے — یحی {b-7-08-09} اور ایک بیٹی ہے—} مدیحہ {b 25- 0 7-2010 جب بیٹا بولتا ہے تو وہ ایک اور ہی انداز میں
بولتا ہے، اور جب بیٹی بولتی ہے تو وہ ایک اور ہی انداز میں بولتی ہے۔ جب بیٹا مسکرا
تا ہے تو وہ ایک اور ہی انداز میں مسکرا تا ہے اور جب بیٹی مسکراتی ہے تووہ ایک
اور ہی انداز میں مسکراتی ہے۔
یہ دونوں بہت
چھوٹے ہیں لیکن جہاں کہیں میری آواز سنتے ہیں وہ مجھے میری آواز سے پہچان لیتے ہیں۔
اگر وہ ریڈیو پر بھی میری آواز سنیں تو بتا دیں گے کہ یہ میراباپ ہے جو بول رہا ہے۔
خدا نے انسان
کی آوازمیں وہ میکانزم {Mechanism} رکھا ہے کہ ہر شخص اس میکانزم کے ذریعہ اپنی
آل اولاد اورعزیزو اقربا کو پہچان لیتا ہے۔ بولنے والا بولتا نہیں کہ سننے والا بتا دیتا
ہے کہ وہ کون ہے جو بول رہا ہے۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ
خدا جس نے انسان کی
پہچان کے لئے اسپیشل میکانزم تیارکیا ہے، کیا وہ خود اپنی پہچان کے لئے کوئی
میکانزم نہیں تیارکرسکا؟
جولوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا کی پہچان ممکن نہیں کیونکہ وہ نظر نہیں آتا،
وہ جھوٹے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جوخدا کے دئے ہوئے میکا نزم کے ذریعہ خود اپنی آل اولاد
کو توخوب پہچانتے ہیں،لیکن اسی میکانزم کے ذریعہ وہ اپنے خدا کو نہیں پہچاننا
چاہتے۔ وہ نہیں سوچتے کہ جس خدا نے اس زمین پرایسا میکانزم رکھا کہ جس کے ذریعہ انسان
کے لئے یہ ممکن ہوکہ وہ اپنی آل اولاد کو پہچان لے، کیا اس نے خود اپنی پہچان کے لئے
کوئی میکانزم نہیں بنایا ہوگا ؟
آدمی اگرباشعورہو
اور واقعتا وہ سچا متلاشی حق {True seeker}، ہو تو وہ جس میکا نزم سے اپنی آل اولاد کو پہچان لیتا ہے اسی میکانزم
سے اپنے خدا کو بھی پہچان لے گا۔
خدا نے اتنی
بڑی زمین بنائی ۔اوریہاں انسان کو بسایا۔ اس کے لئے سامان زندگی کا اہتمام کیا۔ مثلاً
ہوائیں چلائیں، پانی اتارا، آکسیجن کا اہتمام کیا، روشنی کا انتظام کیا ، تاریکی پیدا
کی، نیند کو راحت کا سبب بنا یا پھر یہ کہ ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ۔
صرف زمین کی بناوٹ پرغور کیجئے کہ خدا کے سوا وہ کون ہے جو اس کی تخلیق
کر سکتا ہے ۔ پوری انسانی تاریخ کو الٹ دیجئے اور دیکھئے کہ پوری انسانی تاریخ میں
کوئی ایسا شخص پیدا ہوا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے زمین کی تخلیق کی۔ پوری انسانی
تاریخی میں کوئی ایک شخص آپ کوایسا نہیں ملے گا، جواس قسم کا دعویٰ کرتا ہو۔ زمین تو
دور، پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہواجس نے اپنے لئے ایک مٹھی مٹی
پیدا کی ہو۔ وہ مٹی جس کے اندر سے خدا زندہ اورسر سبزوشاداب درختوں کونکالتا ہے ،اورہمارے
لئے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے۔
یہ زمین کیا
ہے؟ یہ زمین وہ عظیم ربانی میکانزم { Devine Mechanism}ہے جو ہمیں خدا کی پہچان بتا تی ہےلیکن کیا
ہم نے اس پر کبھی غور کیا ہے؟ یہی وہ بات ہے جس کی طرف قرآن ہمیں تقریباً 15سو سال
سے پکار رہا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے :
پھرذراانسان
اپنی خوراک پرغور کرے کہ ہم نے خوب پانی برسا یا،پھرزمین کوعجیب طرح سے پھاڑا،پھراس
کے اندر اگائے غلے اور انگور اور ترکاریاں ،اور زیتون اور کھجور یں،اورگھنے باغ اورطرح
طرح کے پھل اور چارے،تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کے لئے، سامان زیست کے طور پر۔
{80:23-24}
آدمی جب
خدا وند کے سامنے حاضر ہوگا اوراس صورت میں حاضر ہوگا کہ وہ خدا پرایمان نہیں
رکھتا تھا، تو خدا وند اس سے پوچھے گا کہ تو ایمان کیوں نہیں لایا؟
انسان کہے گا خدا وند میں تجھے نہیں دیکھ سکا
اسلئے میں تجھ پرایمان نہیں لا سکا؟ خدا وند کہے گا تو اپنی آل اولاد کو تو بغیر
دیکھے محض ان کی آواز سے پہچان لیتا تھا؟ پھراسی میکانزم سے تو اپنے رب کو کیوں
نہیں پہچان سکا؟ کیا کائنات میں میری نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی نہیں تھیں، جو
میرے ہونے کا پتہ دے رہی تھیں۔؟
کیا میں
نے تیرے سرپرمضبوط آسمان نہیں بنا یا تھا؟ کیا میں نے تیرے لئے زمین کو نہیں پھیلا
دیا تھا ؟ کیا میں نے تمہارے لئے مٹی اورپانی سے کھا نا نہیں نکا لا تھا۔ کیا میں
نے درخت سے تمہارے لئے آکسیجن کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ کیا میں نے سورج کا چراغ
جلا کر تمہارے لئے روشنی پیدانہیں کی تھی؟ کیا اس میں چھپے میکانزم میری پہچان کے
لئے کافی نہیں تھے۔
بات یہ ہے
کہ تو سر کش ہے۔ اپنی آل اولاد کو پہچاننے میں تجھےدقت نہ ہوئی اوراپنے رب کو
پہچاننے میں توبودا بن گیا۔ اب اپنی نادانی کی سزا کاٹ۔ خدا وند انھیں دوزخ کے کوڑے دان
ڈال دے گا۔ جہاں بائبل کے مطابق ابد تک کے لئے رونا اوردانت پیسنا ہوگا۔