مشینی عبادت ، علما، دین اور روح دین
محمد آصف ریاض
کل میں نظام الدین جا رہا تھا۔ گاڑی میں ایک شخص
پر نظر پڑی۔ وہ ایک مشینی قسم کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا۔ اس کی زبان پر کوئی کلمہ
جاری تھا اور ہر کلمہ پر وہ اس مشینی انگوٹھی کے بٹن کو دبا تا جا تا تھا۔ پوچھنے
پر معلوم ہواکہ وہ آٹو میٹک تسبیح پڑھ رہا ہے۔
میں سوچنے لگا کہ مشین کے اس دور میں عبادت بھی
مشینی ہوگئی ہے۔ لوگ گن گن کر تسبیح پڑھتے ہیں۔ اور گن گن کر قرآن ختم کر تے ہیں۔
وہ اپنی عبادت کا باقاعدہ رجسٹر تیار کرتے ہیں تاکہ وہ خدا کے سامنے اسے فخرسے پیش
کر سکیں۔
لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ خدا کا فرشتہ اس کام کے
لئے پہلے سے لگا ہوا ہے جو ہر آدمی کا رجسٹر نہایت باریک بینی سے تیار کر رہا ہے۔
قرآن میں ہے"ہم یقیناً ایک روز مردوں کو
زندہ کرنے والے ہیں،جو کچھ افعال انھوں نے کئے ہیں ہم سب کچھ لکھتے جارہے ہیں، اور
جو کچھ افعال انھوں نے پیچھے چھوڑے ہیں ہم انھیں بھی ثبت کر رہے ہیں۔ ہر چیز کو ہم
نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔ (36-12)
دوسری جگہ ارشاد ہے "حالانکہ تم پر نگراں
مقرر ہیں، ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔(82-10-12)
میں سوچنے لگا کہ خدا کا فرشتہ ہر آدمی کا رجسٹر
تیار کر رہا ہے لیکن لوگوں کو اس کی خبر نہیں۔ نہ باریش لوگوں کو اس بات سے واقف
ہیں اور نہ بے ریش لوگ۔ نہ مدرسہ کے فارغین اس بات کو جانتے ہیں اورنہ اسکول وکالج
کے فارغین کو اس کی خبر ہے۔
اس قدر واضح قرآنی فرمان سے بے خبری کی وجہ کیا
ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے دین کی روح سے بے خبری۔ اور اس بے خبری کے لئے
ذمہ دار ہیں ہمارے علما۔ یہ علما ہیں جنھوں نے دین کے فارم کوہی عین دین سمجھ لیا
ہے۔ ان کی پوری تبلیغ، دین کے ظاہری فارم کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے ۔ مثلاً وہ اس
بات سے لوگوں کو واقف کراتے ہیں کہ نماز کے لئے ہاتھ باندھو توکہاں رکھو۔ اسی طرح کسی
نے کہا اپنے کپڑوں کو گھٹنوں کے اوپر رکھو پھر اس بات پر بحث جا ری ہے کہ اوپر ہو
تو کہاں تک ہو۔ اسی طرح حجاب کو عین دین سمجھا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لڑکیاں
یہاں تک کہ علما کی لڑکیاں جنس اور بنڈی تو خوب شان سے پہنتی ہیں لیکن حجاب پر
ہنگامہ کر تی ہیں ۔ یہی وہ فروعی باتیں ہیں جن پرکبھی یہود کے علما اصرار کرتے تھے
۔ جس پر تنقید کر تے ہوئے حضرت عیسی علیہ سلسلام نے یہ تاریخی جملہ استعمال کیا
تھا: " مچھر
کو چھانٹتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو"۔
اس بے خبری کی ایک بڑی وجہ مدرسے کا موجودہ
تعلیمی نظام بھی ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام میں فقہی اور فروعی باتوں پر تو خوب زور
دیا جا تا ہے لیکن تدبر قرآن پر کوئی زور نہیں دیا جا تا۔ حالانکہ مومنین سے یہی
چیز مطلوب ہے۔ چنانچہ قرآن میں بار بار یادہانی کرائی گئی ہے کہ کیا تم اس کتاب پر
غور نہیں کر تے۔
"کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے۔" (4-82)
کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا یا دلوں
پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔(47-24)
خطابت کی دھوم
مدرسوں میں تدبر قرآن کی جگہ خطابت کی دھوم مچائی جاتی ہے۔
مثلاً ہر مدرسہ میں ہفتہ میں ایک دن تقریری پروگرام ہوتا ہے۔ اس میں طلبا کو بتا
یا جا تا ہے کہ کس طرح وہ اپنی جوشیلی تقریر سے محفل کو لوٹ سکتے ہیں۔ اب کچھ مدرسوں میں تھوڑی
تبدیلی آئی ہے ۔ پہلے یہ لوگ عربی اور اردو میں محفل کو لوٹتے تھے اب بدلتے ہوئے
حالات میں انھیں انگریزی میں محفل لوٹنے کا سلیقہ بتا یا جا رہا ہے ۔
حد یث شریف میں بتا یا گیا ہے کہ یہ دین اجنبی تھا پھر ایک
وقت آئے گا جب یہ اجنبی بن جائے گا سو اجنبیوں کے لئے خوشخبری ہے ۔
عن أبي هريرة
رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: بدأ الإسلام غريبا وسيعود
غريبا كما بدأ فطوبى للغرباء
اس کا مطلب کیا ہے ۔اس کا مطلب
یہ ہے کہ آخری زمانے میں ظاہری طور پر بہت سے مسلمان زمین پر پھیلے ہوئے ہوں گے
لیکن ان کے اندر دین بہت کم ہوگا۔ یعنی اسپرٹ والا اسلام تقریباًختم ہوچکا ہوگا۔
آج ہر طرف یہی صورت نظر آ رہی ہے۔
تاجر کا سبق
ایک مفسر قرآن نے اپنی تحریر
میں ایک تاجر کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ایک بار ان کی ملاقات ایک تاجر
سے ہوئی ۔ انھوں نے تاجر سے پوچھا کہ آپ اپنی تجارت کو چمکانے کے لئے کیا کیا کرتے
ہیں ۔ تاجر نے بتا یا کہ وہ سفر کرتے ہیں، کلائنٹس سے ملتے ہیں۔ وہ ملازمین رکھے
ہوئے ہیں ۔انھیں وقت پر تنخواہ دیتے ہیں۔ وہ خود اپنی شاپ میں دیر تک بیٹھتے ہیں ۔
بزنس کو بڑھانے کے لئے لوگوں کے ساتھ مٹینیگیں کر تے ہیں۔ رات دیر تک مصروف رہتے
ہیں۔ مفسر قرآن نے اس سے پوچھا یہ ساری جدو جہد آپ کس لئے کرتے ہیں ۔ تاجر نے جواب
دیا زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے ۔ مفسر نے پوچھا کہ اگر تمام جدو جہد کے باوجود
آپ اپنی آمدنی نہ بڑھا سکیں تو؟ تاجر نے کہا کہ پھر میں سمجھوں گا کہ میری تمام
محنت رائیگاں گئی۔
یہی حال دین کا ہے دین میں
روزہ ہے ، دین میں نماز ہے، دین میں حج ہے ، دین میں زکوات ہے ، دین میں نوافل ہیں
، دین میں صدقہ ہے ، دین میں حجاب ہے، دین میں قربانی ہے ، دین میں جہاد ہے، لیکن
سب کا حاصل صرف ایک ہے وہ یہ کہ آدمی کے اندر تقوی کی اسپرٹ پیدا ہوجائے۔ اگر یہ
سب کر کے تقوی کی اسپرٹ پیدا نہیں ہوتی تو
آدمی سمجھ لے کہ اس کی ساری جد و جہد بے کار گئی۔ کیونکہ قرآن میں ہے:
" نہ ان کے گوشت اللہ
کو پہنچتے ہیں نہ خون مگر اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔(22-37)
"اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہےکہ تمہارے جسم کے
قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو۔
اور بہترین لباس تقوی کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے"(7-26)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں