بدھ، 5 ستمبر، 2012

A call that went into oblivion


وہ پکار جو صدا بہ صحرا ہو گئی

محمد آصف ریاض
 
3 ستمبر   2012 کی شام میرے بیٹے کا پائوں جل گیا۔ وہ کچن میں گیا اور وہاں گرگیا ۔ وہ درد سے کراہنے لگا۔ اس کی ماں نے کہا اگر برف مل جائے تو اس کی تکلیف میں کمی آسکتی ہے۔ اب میں سوچنے لگا کہ برف کہاں سے لائوں۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرے بیٹے نے تکلیف سے کراہتے ہوئے کہا : ابو برف لا دیجئے ، بہت لہر رہا ہے ابو!
بیٹے کا یہ جملہ میرے دل کو خون کرگیا۔ میں دوڑا ہوا پڑوسی کے پاس گیا اور وہاں سے برف لے کرآیا۔ برف لگانے کے بعد اس کی تکلیف میں کچھ کمی آئی۔ اب میں سوچنے لگا کہ آج سے تقریباً پندرہ سال قبل میں نے اسی قسم کی ایک پکار سنی تھی ۔ وہ پکار میرے والد کی تھی۔ میرے والد کی دونوں کڈنی خراب ہوگئی تھی ۔ آخری دنوں میں وہ صرف بستر پر پڑے رہتے تھے میں وہیں بیٹھا روتا رہتا تھا۔ کبھی کبھی میرے والد کہا کر تے تھے خدایا تھوڑی زندگی اور دے دیجئے ۔ وہ کہا کرتے تھے بیٹا مجھے کسی اور اچھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو شاید میں بچ جائوں۔ ہم لوگوں نے بہت کوشش کی لیکن ان کی پکار کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان کی پکار صدا بہ صحرا ہو کر رہ گئی۔

کسی پکار کا صدا بہ صحرا ہونا یہ ہے کہ آدمی ریگستان میں پکار لگائے جہاں اس کو سننے والا کوئی نہ ہو۔ آج میں سوچتا ہوں کہ اس دنیا میں ہر آدمی کی پکار صدا بہ صھرا ، یعنی ریگستان کی پکار ہے جسے سننے والا کوئی نہیں ہے۔
کتنا کمزور ہے انسان ۔ کل جب وہ پیدا ہوا تھا تب بھی بہت کمزور تھا اور کل جب وہ مرے گا تب بھی وہ اپنے آپ کو سب سے کمزور پائے گا۔ کوئی بچہ جو اس دنیا میں آتا ہے ،وہ اتنا کمزور ہوتا ہےکہ آپ اسے جلا دیں یا کسی دریا میں غرق کردیں وہ اپنا بچائو نہیں کر سکتا۔ یہی حال کسی انسان کا ہوتا ہے جب موت اس پر آتی ہے تو ساری دنیا سارا کنبہ اور قبیلہ اس کے ارد گرد ہوتا ہے لیکن کوئی اسے بچا نہیں پاتا ۔ وہ دنیا میں بے بسی کا مجسمہ بن کر آیا تھا اور دنیا سے بے بسی کا مجسمہ بن کر جا تا ہے۔

یہی کمزوری انسان کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ انسان اس حقیقت کو بھولا رہتا ہے۔ جیسے ہی اسے طاقت ملتی ہے وہ زمین پر فساد اور تکبر کا راستہ اپنا تا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ زمین کو روند سکتا ہے اور آسمان کو اپنے قابو میں کر سکتا ہے۔ لیکن آخر کار اس پر جو چیز کھلتی ہے وہ اس کی بے بسی ہے۔

قرآن میں اسی حقیقت کی یاد دہانی ان الفاظ میں کرائی گئی ہے۔ " تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ اور تم آنکھون سے دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے۔ اس وقت تمہاری نسبت ہم اس سے زہادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے۔"(56-83-85)

"Then who do you not intervene when the soul of the dying person reaches his throat? And you at the moment are looking on, but We are nearer to him than you, but you see not."
(Quran 56:83-85)
مضمون نگار امکانات کی دنیا کے مصنف ہیں

2 تبصرے:

  1. Aasif Bhai yeh kya hogaya aapko aap jin cheezon ke khilaaf raha karte the ab unhi cheezon ko poojna shuru kardiya jese blogs ya social networking sites yeh change achanak kese aagaya aapke andar aap ki zindagi men is tarah ke kaam theek nahin lagte aap aik seedhe sadhe soofi sant shakhs hen agar aap hi aise kaam karenge to baqi logon ka kya hoga jo naadan he aapki tarah samajhdaar ya deen daar nahin hen...... MF ASHRAF

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. Bhai har chiz ka ek sahi istamal hota hai aur ek ghalat,mai hamesha ghalat estemal ke khelaph raha hun, aur aaj bhi hun.

      May God help us both.

      حذف کریں