جمعرات، 6 ستمبر، 2012

Egypt, Akhwan, Friends and Foes


مصر، اخوان ، دوست اور دشمن


محمد آصف ریاض

معروف عالم دین حسن البنا نے 1928 میں مصر کے شہر اسماعیلیہ میں اخوان المسلمین نامی تنظیم قائم کی۔ یہ ایک فلاحی، سماجی، اصلاحی، سیاسی اور مذہبی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم اپنے قیام کے بعد سے ہی مسلسل آزمائشوں میں گھری رہی۔

1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مصری حکومت نے اس جماعت کو تحلیل کر دیا اور اس کے لیڈران کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔

1952 میں قاہرہ میں آگ زنی کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ میں تقریباً 750ہوٹلس ، کلب اور تھیٹرس کو جلا کر خاک کردیا گایا۔ اس واقعہ میں شک کی سوئی اخوانیوں کی طرف گئی۔ اور ایک بار پھر انھیں قید و بند کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔
 1952 میں مصری انقلاب میں اخوان المسلمون نے اہم رول ادا کیا لیکن صدرکو قتل کرنے کی سازش رچنے کے الزام میں اس جماعت پر ایک بارپھر پابندی عائد کردی گئی۔

حسنی مبارک کے دور حکومت(14 October 1981 – 11 February 2011)  میں اخوان ایک معتوب جماعت بن کر رہی ۔

 لیکن 2011 میں حالات نے پلٹا کھا یا ۔ مصر میں انقلاب آیا اور حسنی مبارک کی حکومت اس انقلاب کے دھارے میں بہہ گئی۔ انتخاب میں اخوان کو کامیابی حاصل ہوئی اور 5 جون 2012 کو اخوان کے لیڈر محمد مرسی مصر کے پہلے اخوانی اور جمہوری صدر منتخب ہوئے ۔ محمد بدیع اس جماعت کے مرشد عام ہیں۔

اخوانیوں کو مصر کی حکومت تک پہنچنے میں 80 سال لگے۔ ہر بار جب اخوانی سر اٹھاتے، مصری حکومت ان کے سروں کو سختی سے کچل دیتی تھی ۔ خود مصری اور عرب عوام بھی اخوانیوں کو قبول کر نے کے لئے تیار نہ تھے۔

 4 ستمبر کو نئی دہلی میں ایک صاحب نے اخوان کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے نہایت پر جوش انداز میں کہا کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اخوان مٹ جائیں گے وہ کبھی حکومت میں نہیں آسکیں گے لیکن آج وہ کہاں ہیں؟

آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ اخوان کے ہاتھوں میں مصر کی حکومت ہے۔ وہ پورے جوش میں تھے اور اخوانیوں کے مخالفین کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔

میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ اخوان کو اخوان بنانے میں جتنا ہاتھ حسن البنا کا ہے اتنا ہی بڑا ہاتھ کرنل ناصر اورشاہ فاروق کا بھی ہے۔ اخوان کو اخوان بنانے میں جتنا کنٹری بیوشن ان کے موجودہ مرشد عام بدیع اور موجودہ صدر محمد مرسی اور سینئر لیڈر خیرت الشاطر کا ہے اتنا ہی بڑا ہاتھ حسنی مبارک،محمد شفیق اور طنطانوی کا بھی ہےجو کہ اخوان کے سخت مخالفین تسلیم کئے جاتے ہیں۔
صبر کی طاقت

میں نے انھیں بتا یا کہ د یکھئے ہر بڑے کام کے لئے صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ صبر دوقسم کا ہوتا ہے۔ ایک صبر وہ ہے جو "سلف امپوزڈ " ہو، یعنی انسان خود اپنے اوپر صبر کو نافذ کر لے، وہ ہر معاملہ میں صبر کی روش اختیار کرے۔ صبراس کی زند گی کا حصہ بن گیا ہو۔ اس کی حکمت عملی میں صبر نے مرکزی مقام پا لیا ہو۔ وہ ان اللہ مع الصابرین کی تفسیر بن گیا ہو۔

دوسرا شخص وہ ہے جو بے صبراہو، خدا اس پر جبراً صبر کو امپوز کرتا ہے۔ انھیں صبر کے دائرے میں رہنے کے لئے مجبور کیا جا تا ہے۔ جیسا کہ اخوانیوں کے ساتھ ہوا۔

اخوانی شروع سے ہی بے صبری کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔ وہ جلد سے جلد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ہر بار حکومت نے ان کا را ستہ روک لیا اور انھیں پیچھے دھکیل کر صبر کےمیدان میں لوٹا دیا۔ انھیں بار بار یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنا محاسبہ کریں اور اپنی انرجی فلاحی میدان میں صرف کریں۔ چنانچہ اخوانیوں نے یہی کیا ۔ وہ فلاحی میدان میں خاموشی سے کام کرتے رہے یہاں تک کہ خدا نے 2011 میں تحریر چوک پر وہ انقلاب برپا کیا جس کے سہارے اخوانی حکومت میں آنے میں کامیاب ہوگئے۔

ذرا تصور کیجئے اگر اخوانی آج سے پچاس سال قبل حکومت میں آجاتے تو کیا ہوتا؟ وہ نا اہلی کا ثبوت دیتے اور ختم ہوجاتے۔ کیوں کہ وہ اس وقت کار حکومت کے لئے پوری طرح تیار نہ تھے اور نہ ہی مصری عوام انھیں برداشت کرتے۔  

ہر چند کہ اخوانی یہ دعوی کرتے ہیں کہ انھِیں تو شروع سے ہی عوام کی حمایت حاصل تھی ۔ صرف مٹھی بھر حکمراں طبقہ ان کا راستہ روکے ہوئے تھا ۔ لیکن بلا شبہ اخوانیوں کا یہ دعوی چھوٹا ہے۔ کوئی حکومت اتنی مضبوط نہیں ہوتی جو اپنے عوام کی امنگوں کے خلاف جا سکے۔ اگر حکومت ان کا راستہ روکے ہوئے تھی تو مبارک حکومت ان کا راستہ کیوں نہ روک سکی؟ وجہ صرف ایک ہے وہ یہ کہ اس وقت اخوانیوں کو عوام کی حمایت حاصل ہوگئی تھی جبکہ کرنل ناصر اور دوسرے حکمراں اخوانیوں کا راستہ روکنے میں کامیاب رہے کیوں کہ اس وقت اخوانیوں کو عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔  

اگرآج سے پچاس سال قبل اخوان کو حکومت ملتی تو یہ ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوتی جو وقت سے پہلے پیدا ہوجا تا۔ ایسے بچے کو پری میچیور کہا جا تا ہے۔ ایسا بچہ اتنا کمزور پیدا ہوتا ہے کہ وہ عام طور پر زندہ نہیں رہ پاتا اور مرجاتا ہے۔ اس طرح کی پیدائش کو پری ٹرم پیدائش بھی کہا جا تا ہے۔ ویکی پیڈیا میں اس طرح کے بچے کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔

Premature infants are at greater risk for short and long term complications, including disabilities and impediments in growth and mental development. Preterm birth is among the top causes of death in infants worldwide.

اگراخوانی آج سے پچاس سال پہلے پیدا ہوتے تو یہی حال اخوانیوں کا ہوتا ۔ وہ پچاس سال پہلے حکومت پاتے تو اسے سنبھال نہیں پاتے اور عوام کا اعتبار کھو دیتے۔ وہ پری ٹرم بچے کی طرح پیدا ہو کر ختم ہوجاتے۔

زمین پر کوئی بھی واقعہ یکطرفہ طور پر پیش نہیں آتا ۔ پورا ماحول ایکٹیو ہوتا ہے تب جا کر کوئی واقعہ انجام پاتا ہے۔

آج اگر مصر میں اخوانی حکومت میں ہیں تو اس میں ان کے حریفوں کا بھی اتنا ہی کنٹری بیوشن ہے جتنا کہ خود ان کے حلیفوں کا۔ ان کی حکومت میں ان کے دشمنوں کا اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا کہ ان کے دو ستوں کا۔ ان کے حریفوں نے انھیں جبراً صبر کے میدان میں رکھا تاکہ ان کے لئے عوام میں ایکسپٹنس کا ماحول تیار ہوسکے۔

 ہر کامیابی میں دوست اور دشمن دونوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ عقلمند آدمی اس راز کو سمجھتا ہے اور نادان اپنی محدودیت اور تعصب پسند ذہنیت کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں پاتا۔
مضمون نگار " امکانات کی دنیا" کے مصنف ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں