آپ نے مجھے اندھا
کیوں اٹھایا؟
محمد آصف ریاض
”اورجو
میری نصیحت سے منھ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی، اور قیامت کے روز ہم
اسے اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا پروردگار دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا
کیوں اٹھا یا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں اسی طرح تو ہماری نشانیوں کو جبکہ وہ تمہاری
طرف آئی تھیں تو نے بھلا دیا تھا اس لئے آج تمہیں بھلا دیا جا رہا ہے۔“(سورہ طہ---
26 - 124)
آدمی ایک ایسی زمین سے گزرتا ہے جو دھول اڑا رہی ہوتی ہے۔ وہ ایک طرح
سے مردہ زمین ہوتی ہے۔ آدمی اس زمین سے سرسری گزرجا تا ہے۔ وہ اس پر ٹھہر کر
نہیں سوچتا۔ وہ اس زمین کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔ وہ اسے (For granted)لے لیتا
ہے۔
وہ ایک عرصہ کے بعد
پھراسی مردہ زمین سے گزرتا ہے۔ اب وہ دیکھتا ہے کہ وہ مردہ زمین جس پر وہ کبھی گزرا
تھا یکا یک زندہ ہوچکی ہے۔ اب اسی مردہ زمین پر اسے زندگی اگتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔
سبزے اور شادابیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ نہریں بھری ہوئی ہیں، مچھلیاں
دوڑ بھاگ کر رہی ہیں۔ درختوں پر پرندے جھولے جھول رہے ہیں۔ تتلیاں پھولوں پر بیٹھی
مسکرا رہی ہیں۔ بھنورے گنگنا رہے ہیں۔ لیکن وہ اس پر ٹھہر کر غور نہیں کرتا کہ یکایک
یہ کیوںکر ممکن ہوگیا کہ مردہ زمین جاگ اٹھی اور زندگی رقص کر نے لگی۔ وہ اس زمین سے
ایک بار پھر سرسری گزرجاتا ہے۔ اب بھی وہ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتا ۔ حالانکہ اس
کے پاس آنکھیں تھیں جو اسے دعوت فکر دے رہی تھیں لیکن آدمی آنکھوں کے تقاضے کو نظر
انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتا تو پاتا کہ جس طرح خدا نے
مردہ زمین کو زندہ کردیا ہے اسی طرح مرنے کے بعد انسان کا زندہ کیا جا نا ہوگا۔
خدا اس زمین پر کسی
کمیونٹی کو بہت اونچا اٹھا تا ہے۔ اس پر اپنی نوازشیں اتارتا ہے، اسے مال اور اولاد
میں بڑھا دیتا ہے، اسے عروج اور کمال کے مقام پر فائز کرتا ہے لیکن جب وہ کمیو نٹی
اپنے(giver) کو نہیں پہچانتی تو خدا اسے زوال کی طرف
لے جا تا ہے، یہاں تک کہ ایک دن اسے مردہ سماج (Dead community) بنا دیتا ۔ پھر ہزاروں سالوں کے بعد خدا
اس کمیونٹی کی تطہیر کرتا ہے اور اس میں سے کچھ پاکیزہ لوگوں کواٹھا تا ہے اور ایک بار
پھر انھیں عروج و کمال کے مقام پر فائز کر کے انھیں مردہ سماج سے زندہ سماج بنا دیتا
ہے۔ وہ انھیں Dead community
سے Living community بنا دیتا ہے ۔
لیکن آدمی اس پر غور نہیں کرتا ۔ مردہ سماج کا ایک
بار پھر زندہ ہوجا نا آدمی کے لئے غور و فکر (Contemplation) کا سبب نہیں بنتا ۔ وہ اس واقعہ کو For granted لیتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتا تو پا تا کہ خدا
اسی طرح انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا۔
اسی طرح ایک شخص
علم حیاتیات کو پڑھتا ہوا جسم کے اندر خلیات(Cells) کے محکم نظام سے واقف ہوتا ہے ۔ اسے یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اس کا
جسم خلیات کا مجموعہ ہے۔ ہر سکنڈ پر اس کے جسم سے لاکھوں خلیات گر جاتے ہیں اور ان
کی جگہ پر لاکھوں خلیات زندہ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سے وہ جسم کی کتاب (ڈی این اے)
سے گزرتا ہے لیکن وہ اس کے محکم نظام پر غور نہیں کرتا ۔ وہ اس سے سرسری گزر جا تا
ہے۔ وہ اسے ایک اتفاقی واقعہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتا تو وہ
خدا کے محکم نظام تک پہنچ جا تا ۔ وہ تخلیق سے گزر کر خالق کو پالیتا ۔ اسے کریشن میں
کریٹر کا ادراک ہوجا تا ۔ لیکن انسان خدا کی ان نشانیوں پر اندھا بہرا بن کر گرتا
۔ وہ انھیں قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔
اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو قیامت کے دن اندھا اٹھائے گا اور جب وہ
پوچھیں گے کہ اے میرے رب! آپ نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟حالانکہ زمین پر میں آنکھوں
والا تھا، تو رب تعالیٰ فرمائے گا میں نے تمہیں زمین پر اپنی نشانیاں دکھائی تھیں لیکن
تم نے ان کا خیال نہیں رکھا، تو آج تمہارا بھی خیال نہیں رکھا جائے گا۔
”اورجو
میرے( ذکر) نصیحت سے منھ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی، اور قیامت کے
روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔
وہ کہے گا پروردگار
دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ،یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھا یا۔اللہ تعالیٰ فرمائے
گا ہاں اسی طرح تو ہماری نشانیوں کو جبکہ وہ تمہاری طرف آئی تھیں تو نے بھلا دیا تھا
اس لئے آج تمہیں بھلا دیا جا رہا ہے“۔
(سورہ طہ--- 26 - 124)
(سورہ طہ--- 26 - 124)
مضمون نگار ’امکانات
کی دنیا ‘ کے مصنف ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں