ہفتہ، 29 ستمبر، 2012

Blessed are the pure in heart


مبارک ہیں وہ لوگ جن کے دل پاکیزہ ہیں

محمد آصف ریاض
Asif343@gmail.com
جب میں شہروں میں نکلتا ہوں تو مجھے ہر شخص خوش پوشاک نظر آتا ہے۔ ہر شخص اچھے اچھے  خوبصورت کپڑوں میں ملبوس نظر آتا ہے۔ انھیں دیکھ کر ایسا لگتا کہ انسان کا فوکس بدل گیا ہے۔ انسان اب اپنے جسم  کو خوبصورت بنانے میں اس طرح مصروف ہوگیا ہے کہ اس کی روح اس سے کھو گئی ہے۔ انسان کی ساری بھاگ دوڑ صرف جسم کے لئے ہوگئی ہے۔ وہ فیڈنگ آف باڈی کے لئے جی رہا ہے، فیڈنگ آف مائنڈ اور فیڈنگ آف اسپرٹ اب اس کا کنسرن نہیں رہا۔
عجیب بات ہے کہ ہر شخص کا فوکس اس کا وہ جسم ہوگیا ہے جسے بہر حال ایک دن ختم ہوجا نا ہے۔ انسان کا جسم کیا ہے؟ انسان کا جسم خلیوں کا مجموعہ ہے۔ اور انسانی خلیے ہر لمحہ مرتے رہتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہرانسان چھہ ماہ کے بعد جسم کے اعتبار سے ایک نیا انسان بن جا تا ہے کیوں کہ اس کے سارے سلس اس اثنا میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جو چیز انسان کے پاس باقی رہتی ہے وہ اس کی روح ہے۔ کسی مفکر نے کہا ہے :
 "انسان کا کیس چینج ان چینچلیس  {Change in changeless} کا کیس ہے۔"
انسان اپنے جسم کو بہتر بنانے کے لئے جیم میں جا تا ہے۔ وہ روزانہ اکثر سائز کرتا ہے۔ وہ اپنی غذا وں کا خوب اہتمام کرتا ہے۔ وہ بیلنس فوڈ لیتا ہے۔ لیکن اس سے انسان کو کیا ملتا ہے؟ محرومی، مایوسی اور احساس فرسٹریشن۔ انسان آخر کار دیکھتا ہے کہ جس جسم کو بچانے کے لئے وہ سب کچھ کر رہا تھا وہ جسم ختم ہو کر مٹی میں مل رہا ہے۔
کبیر کو اسی احساس نے یہ شعر کہنے پر مجبور کیا تھا:
پانی بیچ بتا شا سنتو _ تن کا یہی تماشا ہے
انسان اپنے جسم کی فکر میں پڑ کر اپنی روح کو بھولا رہتا ہے۔ حالانکہ اگر انسان کو عقل ہوتی تو جانتا کہ وہ جس روح کو نظر انداز کر رہا ہے وہی روح اس کے ساتھ رہنے والی ہے۔
انسان جب موت کے بعد اٹھا یا جائے گا تو اس وقت اس کا جسم اس کے کام نہیں آئے گا۔ اس وقت اس کی روح کام آئے گی۔ اگر کسی انسان نے اپنی روح کی غذا کا اہتمام کیا ہوگا تو وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر پوزیشن میں پائے گا۔ اس کے بر عکس اس دنیا میں جن کا کنسرن صرف جسم رہا ہو گا انھیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس میں ابد تک کے لئے روتے اور دانت پیستے رہیں گے۔
انسان سے اس دنیا میں روح کی پاکیزگی مطلوب ہے۔ انسان پر فرض ہے کہ وہ اپنے لئے کچھ وقت نکالے اور کا ئنات پر غورو فکرکرے۔ وہ یہ سوچے کہ خدا نے کس طرح اس کائنات کو وجود میں لایا ؟ وہ خود اپنی زندگی کے بارے میں سوچے کہ کس طرح ماں کے پیٹ سے اسے نکالا گیا اور کس طرح خدا ئی مشین اس کے جسم کے اندر کام کر رہی ہے؟ مثلاً کس طرح اس کے سینے کے اندر اس کا دل بلڈ سر کولیشن کا کام انجام دے رہاہے۔ اگر دل اپنا کام روک دے تو وہ ایک پل بھی نہ جی سکے۔ اسی طرح وہ اپنی آنکھ، اپنے کان دل اور دماغ کے بارے میں سوچے۔ پھر غور کرے کہ خدا نے اس کی تخلیق کیوں کی اور وہ اس سے کیا چاہتا ہے؟ جب انسان اس طرح کنٹمپلیشن کرے گا تو وہ پائے گا کہ وہ جو کچھ ہے وہ خدا کی طرف سے ہے۔ خدا کے سامنے اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ خدا کے سامنے اپنے آپ کو نو باڈی   { Nobody} پائے گا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر کوئی انسان خدا والا ہوجا تا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کومرنے کے بعد خدا کا دیدار نصیب ہوگا۔
بائبل میں ہے: "مبارک ہیں وہ لوگ جن کے دل پاکیزہ ہیں کیوںکہ وہ خدا کا دیدار کریں گے۔"
Blessed are the pure in heart, for they will see God
.Mathew 5:8
قرآن میں ہے:
 جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد ۔ بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لے کر اللہ کے حضور حاضر ہوا ہو۔" {26:88-89}
آدمی پر لازم ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے دل کی صفائی کرتا رہے۔ وہ اسے ہر لمحہ پاکیزہ بنا تا رہے۔ دل کی پاکیزگی کیا ہے؟ دل کی پاکیزگی یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو نیگیٹو چیزوں سے بچائے۔ وہ تکبر ، انا اور خودی جیسی چیزوں سے بچتا رہے۔ جب سچائی اس کے سامنے آئے تو وہ تمام تعصبات و تحفظات  سے اوپر اٹھ کر اسے قبول کرے۔ وہ حق کو ماننے کی راہ میں کسی ایکسکیوز کو حائل نہ ہونے دے۔
مضمون نگار"امکانات کی دنیا" کے مصنف ہیں

جمعہ، 28 ستمبر، 2012

The earth will tell its story

Mohammad Asif Reyaz

One has to cross the Yamuna bridge while going to Noida from Delhi. As soon as you cross the bridge you will see a big balloon floating in the air. I saw it just the other day. The Balloon was fasten to a hook and the earth was holding the hook as a man holds 'dhaga' in his hands while flying a kite.

The earth has a very balanced gravitational force because of which all things on earth are in order. If it had not been so, then the whole system would have collapsed. For instance if you step on Jupiter, you will find it hard to walk there. Why? Because, Jupiter has more gravitational pull than the earth. Similarly you would find it hard to walk on Moon as it has less gravitational pull than the earth.

Have you ever thought who is holding the pillars of your magnificent house, where you are sitting and reading my article? No one, but God alone. 

By the command of God almighty, the earth is holding the pillar of your house, so that it does not shake or fall down upon you or your family. God has bestowed everything on earth to mankind. Quran says
“Do you not see, how God has subjected everything on the earth to you, how the ships sail on the see by his command. He holds back the sky from falling down on the earth, except with his permission. God is most compassionate and most merciful to mankind” Al-haj. (the pilgrimage- 65)

But this mercy of God must not be taken for granted, for the earth may deny to support us, if it is commanded so by Him.
Quran reminds us:  “When the earth is shaken with its violent shaking, and the earth will throw up all her burdens and man will cry out. On that day it will narrate all her news, for your Lord will have commanded her to do so.” (The Quake 12345)

Paradise built on divine plan


جنت کا خدائی نقشہ


محمد آصف ریاض
آدمی زمین پر بھاگ دوڑ کر کے اپنی تمناﺅں کا ایک گھر بناتا ہے۔ اور جب وہ اپنے اس گھر میں داخل ہوتا ہے، تو اسے ایک صدماتی تجربہ ‘ (Shocking experience) ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے لئے جس گھر کی تعمیر کی ہے، وہ اپنے کامل ڈیزائن پر نہیں ہے۔ یعنی جس نقشہ پر اس نے اپنا گھر بنا یا ہے، وہ نقشہ نا مکمل ہے۔ اب وہ اپنے گھر کو دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے مایوس ہوجاتا ہے۔
 وہ اپنے گھر کو نئے نقشہ پر تعمیر کرنا چاہتا ہے، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پا تا۔ اب وہ وقت کے ساتھ سمجھوتہ کرتا ہے اور مطلوبہ وسائل کے انتظار میں رہتا ہے، تاکہ وہ اپنے لئے از سر نو ایک نئے گھر کی تعمیر کر سکے۔
مطلوبہ وسائل کے حصول کے ساتھ ہی وہ اپنے پہلے گھر کو منہدم کرنا شروع کر دیتا ہے تاکہ وہ ایک نئے ڈیزائن پرا پنی تمناﺅں کا نیا گھرتعمیر کرسکے۔
 یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ہر آنے والا وقت پچھلے ڈیزائن کو مسترد کردیتا ہے۔ چنانچہ کنسٹرکشن اور ڈسٹرکشن کا کام اس زمین پر مسلسل جا ری ہے۔ آدمی ہر بار یہ سوچ کر گھر بنا تا ہے کہ اس میں داخل ہوکر وہ اپنی مطلوبہ خوشی کو پالے گا۔ لیکن ہر بار اسے ایک صدماتی تجربہ ہوتا ہے۔ ہر بار اسے جو چیز ملتی ہے وہ اس کے احساس محرومی میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ ہر بار اسے پانے کی جگہ کھونے کا احساس ہوتا ہے۔
اب ذرا سوچئے کہ اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ انسانوں کے لئے جنت کا فیصلہ کرے، اور انسانوں تعمیراتی وسائل دے کر یہ کہے کہ جاﺅ تم اپنے لئے خود سے جنت کی تعمیر لو، تو کیا ہوگا؟
انسان اپنے لئے خوبصورت جنت بنا ئے گا لیکن جیسے ہی وہ اپنی بنائی ہوئی جنت میں داخل ہوگا، اسے یہ احساس ستانے لگے گا کہ اس نے اپنے لئے جس جنت کی تعمیر کی ہے وہ اپنے کامل ڈیزائن پر نہیں ہے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اسے منہدم کرنا شروع کر دیگا۔ وہ ایک نئے ڈیزائن پر اپنی جنت تعمیر کرے گا، لیکن پھر اسے احساس ہوگا کہ وہ ڈیزائن بھی نامکمل ہے پھر وہ اسے بھی منہدم کرے گا،اوراب زمین پراس کا ایک ہی کام رہ جائے گا یعنی اپنی بنائی ہوئی جنت کومنہدم کرنا، اور اسے از سر نو تعمیر کرنا۔ جنت میں اسے وہ چیز نہیں ملے گی جس کے لئے جنت بنائی گئی ہے، یعنی ابدی مسرت { Eternal bliss }
انسان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ انسان خود سے اپنے لئے جنت بنا تا تو خدا نے جنت کا نقشہ خود سے تیار کیا اور اپنی نگرانی میں اسے تعمیر کرایا تاکہ انسان کو اس میں ابدی خوشی مل سکے۔ اگر جنت میں انسان کو کامل خوشی نہیں ملتی تو جنت کی تعمیر کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ انسان اگر خود سے اپنی جنت کی تعمیر کرتا تو اسے وہ چیز نہیں مل پاتی جس کے لئے جنت بنائی گئی ہے۔ یعنی کامل مسرت اوراٹرنل بلیس۔ خدا نے کامل ڈیزائن پر جنت کی تعمیر کی تاکہ انسان کو وہاں کامل خوشی مل سکے۔
خدا نے اپنے کامل ڈیزائن کا نمونہ اس کائنات میں پھیلا دیا تاکہ بندوں کو اس بات کا ادراک ہوجائے کہ اس کی جنت بھی اسی قسم کے کامل نقشے پر بنی ہوگی۔
 مثلاً خدا نے زمین پر درخت کو اگایا۔ درخت کو اس نے کامل ڈیزائن پر تیار کیا۔ درخت کو دیکھ کر کوئی نہیں کہتا کہ اسے ہٹاﺅ اس سے بہتر ڈیزائن کا درخت تیار کیا جا سکتا ہے۔ خدا نے پہاڑ کو بنا یا۔ پہاڑ اپنے کامل ڈیزائن پرکھڑا ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پہاڑ کو ہٹا ﺅ اس سے کامل ڈیزائن کا پہاڑ بنا یا جا سکتا ہے۔ خدا نے کامل ڈیزائن پر زمین کو پھاڑ کر دریا بہا یا، کوئی نہیں کہتا کہ اسے بھر دو کیوں کہ اس سے بہتر ڈیزائن کا دوسرا دریا بہا یا جا سکتا ہے۔ خدا نے آسمان کو بلند کیا کوئی نہیں کہتا کہ اس آسمان کو ہٹاﺅ، اس سے بہتر آسمان کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ خدا نے گھاس کو بچھا یا کوئی نہیں کہتا کہ اس گھاس کو ہٹاو اس سے بہتر ڈیزائن پر گھاس کو بچھا یا کا سکتا ہے۔ خدا نے کائنات میں ہر چیز کو اس کے کامل ڈیزائن پر تیار کیا ۔ کوئی اس سے بہتر ڈیزائن نہیں دے سکتا۔ یہ ایک نمونہ ہے جو بتا رہا ہے کہ اسی طرح کے کامل ڈیزائن پر خدا اپنے نیک بندوں کے لئے جنت کی تعمیر کرے گا۔
اب انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ خدا کے کامل نقشہ پر تیار کی گئی جنت میں خوش نہیں رہ سکے گا کیوں کہ وہاں اس کے لئے یہ موقع نہیں ہوگا کہ وہ اپنی جنت کی تعمیر ایک نقشہ کے بعد دوسرے نقشہ پر کر سکے۔ وہ وہاں اوب جائے گا۔
بلاشبہ اس طرح کی باتیں نادانی اور بے خبری کی باتیں ہیں۔ انسان سے پوچھا جائے گا کہ خدا نے کامل ڈیزائن پر درختوں کو بنا یا تو کیا کوئی درختوں کو دیکھ کر اوب گیا؟ خدا نے کامل ڈیزائن پر سمندر کو بنا یا تو کیا کوئی دریا اور سمندر کو دیکھ کر اوب جا تا ہے۔ خدا نے کامل ڈیزائن پر پہاڑ وں کو بنا یا تو کیا کوئی انھیں دیکھ کر اوب گیا ؟ خدا نے کامل ڈیزائن پر پھولوں کو کھلا یا تو کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ پھولوں کو دیکھ کر اس کا دل اوب گیا ہے۔ نہیں ہر گز نہیں، تو پھر انسان کامل جنت میں کس طرح اوب جائے گا؟
بات یہ ہے انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی جنت کی تعمیر خود سے کر سکے۔ نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت کی دنیا میں۔ یہ صرف خدا ہے جو انسان کو جنت دے سکتا ہے۔ جنت وہی ہے جسے خدا بنائے،انسان کی بنائی ہوئی ہر جنت اسے عقوبت خانہ معلوم ہوگی۔ وہ اس سے بہت جلد اوب جائے گا، وہ اس سے نکلنے کے لئے بے چین ہوجائے گا۔ وہ اسے بہت جلد منہدم کرنا شروع کر دے گا۔ خدا نے کامل نقشہ پر جنت کی تعمیر کی تاکہ انسان کو وہاں کامل خوشی مل سکے۔
رگ وید میں ہے ۔”مجھے اس لوک میں دوام عطا کرجہاں مود ،مدہ اور پرمود تین قسم کی لذات حاصل ہوتی ہیں اور دیرینہ تمنائیں پوری ہوتی ہیں“۔ — رگ وید منتر 11
قرآن میں ہے ”ان کے لئے جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے“{الفرقان}
دوسری جگہ ارشاد ہے ”کوئی نہیں جانتا کہ نیک بندوں کے لئے جنت میں کیا کیا سامان چھپا کر رکھے گئے ہیں“{السجدہ}

بدھ، 26 ستمبر، 2012

POWER OF MIND


Mohammad Asif  Reyaz

 It was a heart rending scene, which I came across recently in front of Botanical Garden Metro station, Noida. A big size bull was groaning in pain and was trying to crawl with the help of three legs as his forth leg was injured. It aggrieved me immensely from within, but as helpless I was and could do nothing to this helpless creature, I moved on with heavy heart.
I had hardly moved away a few steps from the scene; to my surprise what I noticed was a very amazing experience for me. It was a very different scene to what I had noticed earlier.  A man with both his legs imputed was riding a motorcycle with a great speed. There was no sign of frustration on his face as was noticed on the face of bull. He was cheerful rather. He was holding no legs even if running on the road with high speed.   
Noticing this opposing incident I came to know the real difference between the man and the animal. Man can move with high speed without having any leg. Despite having no leg man can run on the roads and having no wing he can fly on the sky. But the animal cannot do the same.
Why? Because when God created man He gave him an extra component and that is faculty of Mind. A man is blessed with mind so he is man. Now by using this faculty of mind man is enforcing machines to do work for him. Now man is not running instead the roads are running for him. He is not working instead the machines are working for him.  And this is all miracle of Mind.
Renowned French philosopher Rene Descartes had once said (I think therefore I exist)

منگل، 25 ستمبر، 2012

POWER OF MIND


شعور کی طاقت

محمد آصف ریاض
22 ستمبر 2012 کو میں گھر سے آ فس کے لئے نکلا۔ مجھے نوئیڈا سیکٹر 15 جانا تھا۔ راستے میں میں نے ایک بہت بڑاسانڈ دیکھا۔ وہ بہت بھاری بھر کم تھا۔ وہ ایک پائوں سے زخمی تھا اور چل نہیں پا رہا تھا۔ وہ چلنے کی کوشش کرتا تھا، اٹھ کر اپنے تین پائوں سے ایک دو چھلانگ لگاتا تھا اور گر جا تا تھا۔ میں اس کی بے بسی دیکھ کر اندر سے تڑپ گیا۔
میں اس کے لئے کچھ کر نہیں سکتا تھا چنا نچہ بوجھے ہوئے دل کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ آگے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص موٹر سائکل پر سوار ہے۔ وہ دونوں پائوں سے معذورتھا۔ لیکن اس کے چہرے پر کوئی خوف یا کوئی مایوسی نہیں تھی۔ وہ اپنی سائکل کو ہوائوں کی رفتار سے دوڑا رہا تھا۔
میں سوچنے لگا کہ خدا نے جانور کو عقل نہ دی تو وہ بھاری بھر کم جسم اور تین محفوظ پائوں رکھنے کے باوجود اپاہج بنا ہوا تھا اس کے بر عکس خدا نے انسان کو عقل دی تو وہ سرے سے کوئی پائوں نہ رکھنے کے با وجود سڑک پر ہوا کی رفتار میں دوڑ رہا تھا۔

آج میں نے انسان اور حیوان کے فرق کو عملاً جانا۔ انسان کو جب خدا نے پیدا کیا تو اسے ایک اضافی چیز بھی دی، وہ ہے اس کا دماغ۔ اس دماغ کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ اگر کوئی انسان اس دماغ کا استعمال نہ کرے تو وہ انسان پیدا ہوکر بھی عملاً جانور بن کر رہ جائے گا۔ انسان نے اپنے دماغ کا استعمال کرکے چیزوں کو اپنے حق میں مسخر کرلیا ہے۔ اس نے ہوائی جہاز بنایا اور ہوائوں میں اڑنے لگا۔ اس نے موٹر سائکل تیار کیا اور زمین پر دوڑنے لگا۔ اب وہ خود نہیں چلتا راستے اس کے لئے چلتے ہیں۔ وہ خود نہیں کام کرتا مشینیں اس کے لئے کام کرتی ہیں۔ اس نے لوہا پتھر اور بجلی کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔
معروف فرنچ فلاسفر رین د یکارت نے کہا ہے" میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں" {I think therefore I exist}
انسان چونکہ دماغ سے سوچتا ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ "میرے پاس دماغ ہے اس لئے میں ہوں۔"

پیر، 24 ستمبر، 2012

Iran Rushdi and Muslims


ایران رشدی اور مسلمان


محمد آصف ریاض

پوری مسلم دنیا میں ان دنوں امریکہ میں بنی فلم انو سنس آف مسلمس پر زبردست ہنگامہ ہورہا ہے۔ اس ہنگامہ میں لیبیا میں امریکی سفیر سمیت دنیا بھرمیں سینکڑوں لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا تے ہوئے ایران نے رشدی کے قتل کا انعام 2.8 ملین ڈالر سے بڑھا کر 3.3 ملین ڈالر کردیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں پیداہونے والے برطانوی ناول نگار کا اس فلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللی روح اللہ خمنئی نے رشدی کے ناول The Satanic Verses, پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 14 فروری 1989 کو رشدی پر موت کا فتوی جاری کیا تھا۔ یہ فتوی آج تک اپنی جگہ قائم ہے، محض اس تبدیلی کے ساتھ کہ اب انعام کی رقم میں مزید 500,000 ڈالر کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس اضافی انعام کا اعلان ایک ایرانی کلیرک حسن سینا ئی نے یہ کہتے ہوئے کیا: "اگررشدی مارا جا تا تو انو سنس آف مسلمس نامی فلم بنانے کی جرئت کسی کو نہیں ہوتی۔"

" Iranian media quoted Hassan Sane'i, a cleric heading the 15 of Khordad Foundation, as saying if Rushdie had been killed the anti-Muslim film Innocence of Muslims would never have been made

ایران کے سپریم لیڈر نے فروری1989 میں رشدی کو قتل کرنے کا فتوی جاری کیا تھا۔ یہ ایک سرکاری فتوی تھا جس کی وجہ سے مسلم دنیا میں جذ با تی نوجوانوں کے درمیان خمنی کا قد بڑھ گیا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس سرکاری فتوی کو جاری ہوئے اب تقریباً 24 سال ہوچکے ہیں اس دوران دریائے خزر سے بہت سا پا نی گزر چکا ہے پھر بھی ایرانی لیڈران کو یہ کہنے کی ضرورت پڑ رہی ہے کہ اگر رشدی مارا جا تا تو کسی کو انو سنس آف مسلمس بنانے کی جرئت نہیں ہوتی۔ بات یہ ہے کہ ایران کو اپنے لیڈر کے فتوی پر عمل کرنے سے کس نے روکا ہے۔

یہ تو معاملہ کا ایک پہلو ہے اور اب معاملہ کے دوسرے پہلو کو دیکھئے۔ ایران تقریبآ ہر روز یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کو چند گھنٹوں کے اندر دنیا کے نقشہ سے مٹا دے گا۔ ایرانی میڈیا پریس ٹی وی پر ایران کے بریگیڈ ئر جنرل حسین سلامی کا 23 ستمبر 2012 کو ایک اعلان شائع ہوا ہےکہ اگرایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہوئی تو ایران اسرائیل کو 24 گھنٹے کے اندر ختم کردے گا۔ کمانڈر کے لفظوں میں:

“A regime [with a frontier] that in some spots is only 24 kilometers wide could have its back broken by one of our infantry battalions in 24 hours,” Brigadier General Hossein Salami told an Iranian television station on Sunday

سوال یہ ہے کہ جو فوج ایک شخص کو تقریباً 24 سال میں ختم نہ کر سکی وہ پوری قوم کو 24 گھنٹے میں کس طرح ختم کر دے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران نے صرف انعامی رقم جاری کر کے یہ فرض کرلیا کہ دنیا میں کوئی سرپھرا اٹھے اور وہ کام کر جائے جس کا سہرا وہ اپنے سر باندھ سکیں ۔ یعنی خون کا الزام دوسروں کے سر جائے اورخون کا فائدہ وہ اٹھا ئیں۔

یہود کی نفسیات

یہ وہی نفسیات ہے جسے بائبل میں یہود کی نفسیات بتا یا گیا ہے۔ یہود حضرت مسیح کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن الزام رومن حکمرا ں کے سرڈالنا چاہتے تھے۔ جب انھوں نے حضرت مسیح کو رومن گورنر کے ہاتھوں قتل کرانا چاہا توجیسا کہ بائبل میں آیا ہے گورنر نے اپنی بیوی کو بلا یا اور کہا کہ پانی لائو اور میرا ہاتھ دھولائو۔ بائبل کے مطابق وہ اپنا ہاتھ دھوتا جا تا تھا اور کہتا تھا"میں اس پاکباز اور بے گناہ شخص کےخون سے بری ہوں۔ اس کے خون کا الزام تیرے سر ہے۔"

New Living Translation (©2007)

Pilate saw that he wasn't getting anywhere and that a riot was developing. So he sent for a bowl of water and washed his hands before the crowd, saying, "I am innocent of this man's blood. The responsibility is yours!"


آدمی کو اگر کتاب کا علم نہ ہو تو وہ گمراہ ہوجائے گا۔ وہ ہردوسرے آدمی کے سیاسی بیان کو سچا اور مذہبی بیان سمجھ لے گا۔ وہ جھوٹ اور سچ میں فرق نہیں کر پائے گا۔ وہ قاتل کو مسیحا سمجھ لے گا۔ وہ فساد کے ایک رخ کو دیکھے گا اور فساد کے دوسرے رخ کو نہیں دیکھ پائے گا۔ بلا شبہ شتم رسول فساد ہے لیکن اس کا سیاسی فائدہ اٹھا نا بھی اتنا ہی بڑا فساد ہے۔

ہفتہ، 22 ستمبر، 2012

In this world you cannot build your own world


اس دنیا میں دنیا کی تعمیر ممکن نہیں ہے

محمد آصف ریاض

مسٹر روچیر شرما (RUCHIR SHARMA) ایک نامور مصنف، ماہر معاشیات اور بڑے بزنس مین ہیں۔ وہ ایمرجنگ مارکٹ ایکوٹیز اینڈ گلوبل میکرو ایٹ مارگن اسٹینلی انوسٹمنٹ مینجمنٹ کے ہیڈ ہیں۔

RUCHIR SHARMA is head of Emerging Market Equities and Global Macro at Morgan Stanley Investment Management.

مسٹر شرما عام طور پر ہر مہینے ایک ہفتہ کسی باہری ملک میں گزارتے ہیں اور وہاں کی معیشت کا قریب سے جائزہ لیتے ہیں۔ وہ نیوز ویک کے سابق معاون ایڈ یٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور وال اسٹریٹ جرنل اور اکونامک ٹائمز کے لئے مستقل کالم لکھتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ان کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا نام بریک آئوٹ نیشن ہے(Breakout Nations)  ۔ اس کتاب میں مصنف نے دنیا بھر کے دودرجن ترقی پذیر معیشت کا جائزہ لیا ہے۔

اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے دی پوسٹ امریکن  ورلڈ(The Post-American World )  کے مصنف  فرید ذکریا نے لکھا ہے :
 Breakout Nations is the most interesting book on the new economic landscape that I have read in years.”

مسٹر شرما نے اپنی اس کتاب میں دنیا کی دو درجن معیشت کا جائزہ لیا ہے اور بتا یا ہے کہ کس طرح ایک معیشت کے بعد دوسری معیشت دنیا کے سامنے آتی رہتی ہے۔

مسٹر شرما نے کتاب کے پیش لفظ {{Prologue میں لکھا ہےکہ_ "تاریخ بتاتی ہے کہ معاشی ترقی سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔ کامیابی کی چوٹی پر پہنچنے کے لئے کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ بہت کم سیڑھیا ہیں اور بہت زیادہ سانپ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کھیل میں اوپر چڑھنے کے بجائے گرنے کا امکان زیادہ ہے۔ کوئی ملک سیڑھی پر ایک دہائی دو دہائی اور تین دہائی تک چڑھتا ہے اور پھر وہاں اسے سانپ ڈس لیتا ہے اور پھر دوبارہ منھ کے بل زمین پر گرجا تا ہے۔" مسٹر شرما کے لفظوں میں:
Yet history suggests economic development is like a game of snakes and ladders. There is no straight path to the top, and there are few ladders than snakes, which mean that it is easier to fall than to climb.
A nation can climb the ladders for a decade, two decades three decades, only to hit a snake and fall back to the bottom.

مسٹرشرما نے یہ تو بتا یا ہے کہ تاریخ بتا تی ہےکہ اس زمین پر کسی معیشت کو ثبات حاصل نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟ اس کا جواب ہمیں قرآن میں ملتا ہے۔ قرآن میں ہے:
"اور دائود نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چا ہا اسے علم دیا اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ ہٹا تا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن د نیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے{ کہ اس طرح وہ دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے۔"(2:251)

اصل بات یہ ہے کہ خدا کا نظام تقسیم ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی ایک کو سب کچھ دے دے۔ اگر وہ ایسا کرے تو زمین کرپشن سے بھرجائے۔ اور ہر طرف لاقانونیت کا راج ہو۔ خدا دائریکٹ اس دنیا کی نگہ بانی کر رہا ہے، وہ ایک کو دوسرے سے ہٹا تا رہتا ہے تاکہ زمین کا بیلنس{توازن} باقی رہے۔ خدا اگر زمین پر کسی ایک کو سب کچھ  دے دے تو زمین کا پورا توازن بگڑ جائےگا۔ چنانچہ خداکے منصوبہ کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ ہر ایک دہائی دو دہائی اور تین دہائی پرایک دوسری طاقت ابھرتی ہے جو اپنے سے پہلی طاقت کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

اب اسی بات میں ان لوگوں کے سوالوں کا جواب بھی  ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عربوں کے پاس اتنا پیسہ ہے لیکن وہ ٹکنا لوجی کی دنیا میں مہارت کیوں نہیں رکھتے؟  وہ کوئی فائٹر جیٹ کیوں نہیں تیار کرتے؟ وہ کوئی جہاز کیوں نہیں بناتے ؟ وہ میٹرو کیوں نہیں تیار کرتے؟ وہ اسپیس ورلڈ میں میں اپنی  اہلیت کیوں نہیں ثابت کرتے؟ وہ توانائی کے میدان میں دنیا کی رہنمائی کیوں نہیں کرتے؟ وہ انو ویشن کیوں نہیں کرتے ؟ وغیرہ۔

خدا صرف عربوں کا خدا نہیں ہے

بات یہ ہے کہ جس وقت عرب کی زمین توانائی اگل رہی تھی، جب عرب کی زمین سے تیل پٹرول اور گیس کا دریا بہہ رہا تھا ٹھیک اسی وقت یوروپ نشاط ثانیہ کے دور سے گزر رہاتھا اور نئی نئی ٹکنالوجی کے ساتھ دنیا کو مرعوب کر رہا تھا۔ خدا نے دنیا کو ایوی ایشن کے ایج میں داخل کیا تو عربوں کو ایندھن کی دولت سے مالا مال کردیا تاکہ زمین پر توازن باقی رہے ۔

ذراغور کیجئے کہ اگر ایسا ہوتا کہ خدا عربوں کو توانائی تیل پڑول اور گیس کے ساتھ ٹکنالوجی بھی دے دیتا یعنی وہ جہاز بناتے ٹریںیں بناتے جیٹ فائٹر تیار کرتے اور اسپیس میں دوڑتے تو کیا ہوتا؟ لوگ کہتے خدا عالم کا خدا نہیں ہے۔ خدا صرف عربوں کا خدا ہے۔
 پھر ایسی صورت میں خدا کا وہ منصوبہ بھی ناکام ہوجا تا جس کے تحت خدا کسی کو دیکر اور کسی سے لے کر آزماتا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ زمین پر کوئی بھی قوم ہمیشہ حکومت نہیں کر سکتی ۔ اگر کسی قوم کا ہر فرد مل کر اپنی معیشت کو سنبھالے تب بھی اس معیشت پر ایک وقت آئے گا جب وہ منھ کے بل زمین پر گر جائے گی۔ کیونکہ اس دنیا میں ثبات خدا کے کریشن پلان کے خلاف ہے اور یہاں کوئی شخص ایسا نہیں اور نہ کوئی قوم جو خدا کے کریشن پلان کے خلاف جاکر کامیاب ہوجائے۔ یہاں انسان اپنی معیشت کا محل تیار کرے گا د س سال بیس سال تیس سال اور پھر وہ دیکھے گا کہ اس کا بنا یا ہوا محل ایک روز تاش کے پتوں کی طرح زمین پر آگیا۔

اس دنیا میں صرف آخرت کی تعمیرہی ممکن ہے

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس دنیا میں کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ  اپنی دنیا کی تعمیر کر سکے۔ دوسرے لفظوں میں اس دنیا میں دنیا کی تعمیر سرے سے ممکن  ہی نہیں ہے۔ اس دنیا میں صرف آخرت کی ہی تعمیر ممکن ہے۔ یعنی کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ آخرت کو مائنس کر کے اس دنیا کی تعبیر و تشریح کر سکے۔ انسان مجبور ہے کہ وہ آخرت پر ایمان لائے۔ کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

پس جولوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ اس دنیا کی تخلیق کی توضیح بھی نہیں کر سکتے ۔ یعنی وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ دنیا آخر کیوں بنائی گئی ہے اور یہاں انھیں کس لئے بسایا  گیا ہے۔ اور اگر صرف کھانے کمانے اور اپنی دنیا چمکانے کے لئے انھیں یہاں بسا یا  گیا ہے تو وہ اس میں بار بار ناکام کیوں ہوجا تے ہیں؟ ایسے لوگوں کے سامنے یہ دنیا ایک بند گلی کی طرح ہے۔ جہاں تاریکی ہے ، مایوسی ہے ، اور رنج و غم  کا عذاب ہے ۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی ڈائریکشن لیس زندگی گزاریں گے اور آخرت میں بھی۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی مایوسی اور تاریکی  میں رہیں گے اور آخرت میں بھی ۔ بائبل میں ایسے لوگوں کی تصوریر کشی ان الفاظ میں کی گئی ہے" ابد تک کے لئے رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔"

مضمون نگار " امکانات کی دنیا" کے مصنف ہیں۔
 آپ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں:asif343@gmail.com
  

جمعہ، 21 ستمبر، 2012

Lord! Why have you raised me blind?


آپ نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟


محمد آصف ریاض

”اورجو میری نصیحت سے منھ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی، اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا پروردگار دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھا یا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں اسی طرح تو ہماری نشانیوں کو جبکہ وہ تمہاری طرف آئی تھیں تو نے بھلا دیا تھا اس لئے آج تمہیں بھلا دیا جا رہا ہے۔“(سورہ طہ--- 26 - 124)

آدمی ایک ایسی زمین سے گزرتا ہے جو دھول اڑا رہی ہوتی ہے۔ وہ ایک طرح سے مردہ زمین ہوتی ہے۔ آدمی اس زمین سے سرسری گزرجا تا ہے۔ وہ اس پر ٹھہر کر نہیں سوچتا۔ وہ اس زمین کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔ وہ اسے (For granted)لے لیتا ہے۔

وہ ایک عرصہ کے بعد پھراسی مردہ زمین سے گزرتا ہے۔ اب وہ دیکھتا ہے کہ وہ مردہ زمین جس پر وہ کبھی گزرا تھا یکا یک زندہ ہوچکی ہے۔ اب اسی مردہ زمین پر اسے زندگی اگتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ سبزے اور شادابیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ نہریں بھری ہوئی ہیں، مچھلیاں دوڑ بھاگ کر رہی ہیں۔ درختوں پر پرندے جھولے جھول رہے ہیں۔ تتلیاں پھولوں پر بیٹھی مسکرا رہی ہیں۔ بھنورے گنگنا رہے ہیں۔ لیکن وہ اس پر ٹھہر کر غور نہیں کرتا کہ یکایک یہ کیوںکر ممکن ہوگیا کہ مردہ زمین جاگ اٹھی اور زندگی رقص کر نے لگی۔ وہ اس زمین سے ایک بار پھر سرسری گزرجاتا ہے۔ اب بھی وہ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتا ۔ حالانکہ اس کے پاس آنکھیں تھیں جو اسے دعوت فکر دے رہی تھیں لیکن آدمی آنکھوں کے تقاضے کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتا تو پاتا کہ جس طرح خدا نے مردہ زمین کو زندہ کردیا ہے اسی طرح مرنے کے بعد انسان کا زندہ کیا جا نا ہوگا۔

خدا اس زمین پر کسی کمیونٹی کو بہت اونچا اٹھا تا ہے۔ اس پر اپنی نوازشیں اتارتا ہے، اسے مال اور اولاد میں بڑھا دیتا ہے، اسے عروج اور کمال کے مقام پر فائز کرتا ہے لیکن جب وہ کمیو نٹی اپنے(giver)  کو نہیں پہچانتی تو خدا اسے زوال کی طرف لے جا تا ہے، یہاں تک کہ ایک دن اسے مردہ سماج (Dead community) بنا دیتا ۔ پھر ہزاروں سالوں کے بعد خدا اس کمیونٹی کی تطہیر کرتا ہے اور اس میں سے کچھ  پاکیزہ لوگوں کواٹھا تا ہے اور ایک بار پھر انھیں عروج و کمال کے مقام پر فائز کر کے انھیں مردہ سماج سے زندہ سماج بنا دیتا ہے۔ وہ انھیں Dead community سے Living community بنا دیتا ہے ۔

 لیکن آدمی اس پر غور نہیں کرتا ۔ مردہ سماج کا ایک بار پھر زندہ ہوجا نا آدمی کے لئے غور و فکر (Contemplation)  کا سبب نہیں بنتا ۔ وہ اس واقعہ کو For granted لیتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتا تو پا تا کہ خدا اسی طرح انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا۔

اسی طرح ایک شخص علم حیاتیات کو پڑھتا ہوا جسم کے اندر خلیات(Cells)  کے محکم نظام سے واقف ہوتا ہے ۔ اسے یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اس کا جسم خلیات کا مجموعہ ہے۔ ہر سکنڈ پر اس کے جسم سے لاکھوں خلیات گر جاتے ہیں اور ان کی جگہ پر لاکھوں خلیات زندہ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سے وہ جسم کی کتاب (ڈی این اے) سے گزرتا ہے لیکن وہ اس کے محکم نظام پر غور نہیں کرتا ۔ وہ اس سے سرسری گزر جا تا ہے۔ وہ اسے ایک اتفاقی واقعہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتا تو وہ خدا کے محکم نظام تک پہنچ جا تا ۔ وہ تخلیق سے گزر کر خالق کو پالیتا ۔ اسے کریشن میں کریٹر کا ادراک ہوجا تا ۔ لیکن انسان خدا کی ان نشانیوں پر اندھا بہرا بن کر گرتا ۔ وہ انھیں قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔ 
اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو قیامت کے دن اندھا اٹھائے گا اور جب وہ پوچھیں گے کہ اے میرے رب! آپ نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟حالانکہ زمین پر میں آنکھوں والا تھا، تو رب تعالیٰ فرمائے گا میں نے تمہیں زمین پر اپنی نشانیاں دکھائی تھیں لیکن تم نے ان کا خیال نہیں رکھا، تو آج تمہارا بھی خیال نہیں رکھا جائے گا۔

”اورجو میرے( ذکر) نصیحت سے منھ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی، اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔

وہ کہے گا پروردگار دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ،یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھا یا۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں اسی طرح تو ہماری نشانیوں کو جبکہ وہ تمہاری طرف آئی تھیں تو نے بھلا دیا تھا اس لئے آج تمہیں بھلا دیا جا رہا ہے“۔
(سورہ طہ--- 26 - 124)

 مضمون نگار ’امکانات کی دنیا ‘ کے مصنف ہیں

بدھ، 19 ستمبر، 2012

If water stands motionless…


اگر پانی ٹھہر جائے

محمد آصف ریاض
محمد اسد (1900-1992) آسڑیا کے ایک شہر لیوو- }ان دنوں یوکرین کا شہر{ میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
1926 میں برلن کی ایک مسجد میں انھوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کا اصل نام لیوپولڈ ویس (Lepold Weiss  ) تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے اپنا نام اسد رکھا۔ وہ ایک معروف صحافی، مصنف اور سیاح کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
 وہ جرمن، عربی انگلش سمیت کئی دوسری زبانیں بھی جانتے تھے۔ انھوں نے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا تھا۔ سعودی عرب میں رہ کر انھوں نے عربی سیکھی تھی۔
محمد اسد مارمدوک پکھتل (7 April 1875 – 19 May 1936) کے بعد قرآن کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر لکھنے والے  دوسرے شخص ہیں۔ بقول اسد پکھتل پر انھیں اس لئے فوقیت حاصل ہے کہ کیوںکہ پکھتل کو عربی زبان سے گہری واقفیت نہیں تھی جبکہ انھوں نے سعودی عرب میں رہ کر عربی زبان سیکھی ہے۔
اسد کی کئی کتابیں بہت مشہور ہیں ۔ مثلاً روڈ ٹو مکہ  اور اسلام ایٹ دی کراس روڈ ۔ ابرو امن اندرابی نے محمد اسد پر ایک کتاب تیار کی ہے۔ اس کتاب کا نام ہے:
 Muhammad Asad – His contribution to Islamic clearing
اس کتاب میں انھوں نے محمد اسد کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ یہ کہ محمد اسد عرب بدوں کی زندگی سے بہت متاثر تھے۔ ایک بار انھوں نے ایک بوڑھے بدو سے دریافت کیا کہ وہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ کیوں ہجرت کرتے رہتے ہیں؟ بدو نے جواب دیا :
" جب پانی ٹھہر جاتا ہے تو وہ گدلا ہوجاتا ہے لیکن جب وہ رواں رہتا ہے تو صاف شفاف رہتا ہے۔ اور یہی حالت انسان کی ہے اگر وہ کہیں ٹھہر جائے تو اس کی زندگی ٹھہر جائے گی۔"
مجھے نہیں معلوم کہ مسلسل ہجرت کرنے سے اس بدو کی زندگی میں کتنی تبدیلی واقع ہوئی۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ بہت درست ہے کہ ہجرت میں برکت ہے۔
 جب میں چھوٹا تھا تو میرے والد اکثر کسی کا یہ شعر سنا یا کرتے تھے:
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
اصل بات یہ ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں ہوتا ہے تو اس کو سپورٹ کر نے کے لئے اس کے ارد گرد بہت سارے لوگ ہوتے ہیں۔ گھرمیں اس کے سامنے کوئی چیلنج نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے اسے یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کا استعمال کرسکے۔ ایسی صورت میں انسان کی اپنی صلاحیتیں خوابیدہ رہتی ہیں۔ اسے یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگا ئے اور اسے کام میں لائے ۔ انسان اپنے گھر میں رہ کر اپنے امکانات کو استعمال نہیں کرپاتا۔
لیکن جب یہی انسان اپنے وطن سے نکل جا تا ہے تو یہاں اسے ہر قدم پرا یک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی شخص اس کی مدد کے لئے نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں ایک دم سے جاگ جاتی اٹھتی ہیں۔
اب وہ دوسروں سے زیادہ ایکٹیو ہوجا تا ہے۔ وہ دوسروں سے زیادہ سوچنے لگتا ہے، وہ دوسروں سے زیادہ کام کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنے کام میں دوسروں سے زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مین سے سوپر مین بن جاتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے سادہ لفظوں میں ہجرت میں برکت کا نام دیا جا تا ہے۔