جمعرات، 12 دسمبر، 2013

Maulana and Gandhi ji


مولانا آزاد اور گاندھی جی


محمد آصف ریاض
1942 میں جب کرپس مشن ناکام ہوگیا اور ملک پرجاپانی حملے کاخطرہ منڈلا نےلگا تو برٹش حکومت کو ہندوستانیوں کی طرف سے تشویش لاحق ہوئی۔ برٹش حکومت چاہتی تھی کہ ہندوستانی جاپان کے خلاف لڑیں۔
جاپان کے خلاف لڑائی میں برٹش حکومت ہندوستانیوں کی کھلی اورغیر مشروط حمایت چاہتی تھی۔ لیکن مولانا ابولکلام آزاد نے جواس وقت انڈین نیشنل کانگریس کے صدرتھے ہندوستان کی حمایت کوسوراج سے جوڑدیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جب تک ہندوستان کو پوری آزادی نہیں مل جاتی تب تک ہندوستان اس جنگ میں برٹش حکومت کا ساتھ نہیں دے گا۔
اس معاملہ میں گاندھی جی کا نظریہ مولانا اورجواہرلال کے برخلاف تھا۔ گاندھی جی سرے سے جنگ کے مخالف تھے۔ گاندھی جی کے برعکس مولانا اورجواہر لال کا ماننا تھا کہ آزادی اورجمہوریت کے لئے کوئی بھی قیمت چکائی جا سکتی ہے یہاں تک کہ جنگ کی قیمت بھی۔
تاہم کرپس مشن کی ناکامی کے بعد جب برٹش حکومت اورکانگریس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا تو مولانا ابولکلام آزاد کو یہ اندازہ ہوگیا کہ جنگ ناگزیر ہوچکی ہے اورجاپان کسی بھی وقت ہندوستان پرحملہ کرسکتا ہے، چنانچہ ہندوستان کو ایسی حالت میں ہاتھ پرہاتھ  دھر کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ ان کا ماننا تھا کہ جاپان چاہے گا کہ بنگال پر قبضہ کر لے اور اگر جاپان یہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر صورت حال یہ ہوگی کہ ایک مالک کی رخصتی کے بعد ہندوستان کے سر پر دوسرا مالک مسلط ہوجائے گا جو پہلے سے زیادہ جریح طاقتور اور نقصاندہ ہوگا۔
"میں سمجھتا تھا کہ یہ بات ناقابل برداشت ہوگی کہ پرانے مالکوں کو نئے مالکوں سے بدل لیا جائے۔ در اصل یہ ہمارے مفادات کے لئے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوگا اگر ایک نئے اور تازہ دم فاتح نے اس پرانی حکومت کی جگہ لے لی، جو وقت کے ساتھ ساتھ مضمحل ہوچکی تھی اور جس کی گرفت بتدریج کمزور پڑ رہی تھی ۔ مجھے یقین تھا کہ جاپانیوں کی جیسی ایک نئی شہنشایت (امپریلزم) کو نکال کر باکرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگا۔" (آزادی ہند ، مولانا ابوالکلام، 97)
مولانا نےاس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک  منصوبہ بنا یا تھا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اگر جاپانی فوج حملہ آور ہوتی ہے اور برٹش فوج پیچھے ہٹتی ہے تو کانگریس آگے بڑھ کر ملک کے کنٹرول پر قبضہ جمالے گی۔ مولانا کے لفظوں میں:
"میرے ذہن میں یہ اسکیم تھی کہ جیسے ہی جاپانی فوج بنگال پہنچے اور برطانوی فوج بہار کی طرف پیچھے ہٹے کانگریس کو آگے بڑھ کر ملک کے کنٹرول پر قبضہ جمالینا چاہئے۔ اپنے رضاکاروں کی مدد سے، اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے قدم جما سکیں بیچ کے وقفے میں ہمیں اقتدار پر قابض ہوجانا چاہئے۔"
مولانا کے اس خیال سے گاندھی جی متفق نہیں ہوئے۔ گاندھی جی اس معاملہ کو ایک دوسرے ہی نظریہ سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ "اگر جاپانی فوج ہندوستان آہی گئی تو وہ ہمارے دشمن کے طور پر نہیں انگریزوں کے دشمن کے طور پر آئے گی۔"  مزید جاننے کے لئے پڑھئے India wins freedom
اس معاملہ پر گاندھی جی اور مولانا کے درمیان اختلاف اتنا گہرا ہوگیا کہ 7 جولائی کو گاندھی جی نے مولانا کے پاس ایک خط بھیجا۔ اس خط میں گاندھی جی نے واضح کردیا کہ "ہمارا موقف اس قدر مختلف ہے کہ ہم ساتھ کام کر ہی نہیں سکتے۔ اگرکانگریس چاہتی ہے کہ گاندھی جی تحریک کی قیادت کریں تو مجھے صدارت سے مستعفی ہونا پڑے گا اور ورکنگ کمیٹی کے عہدے سے بھی مستعفی ہونا ہوگا اور جواہر لال کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔"
ابولکلام نے اس خط کو جواہر لال نہرو کو دکھا یا اسی دوران سردار پٹیل بھی پہنچ گئے، انھیں بھی خط دکھا یا گیا۔ پٹیل کو یہ خط پڑھ کر کافی صدمہ ہوا اور وہ فورا بھاگ کر گاندھی جی کے پاس پہنچے اور بتا یا کہ اگر مولانا ورکنگ کمیٹی اور کانگریس کی صدارت سے مستعفی  ہوگئے اور جواہر لال نے بھی یہی کیا تو "اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ نہ صرف یہ کہ عوام میں ابتری پیدا ہوگی بلکہ کانگریس کی بنیادیں کانپ اٹھیں گی۔"
گاندھی جی نے اسی دن مولانا کو بلوایا اور ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی ۔ اس موقع پر گاندھی جی نے ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے واضح کیا کہ  یہ خط انھوں نے جلد بازی میں لکھا تھا اور اب وہ اسے واپس لیتے ہیں۔ میٹنگ میں پہلی بات جو گاندھی جی نے کہی وہ یہ تھی " گناہ گارنادم ہوکر مولانا کے پاس آیا ہے۔"( آزادی ہند ، مولانا ابوالکلا، صفحہ 70(
یہ ایک  واقعہ  ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی اگر دانا اور ہوشیار ہو، وہ چیزوں کی پوری سمجھ رکھتا ہو اور صاحب بصیرت بھی ہو، نیز تمام تعصبات سے اوپراٹھ کراقدام کرتا ہو، تو دنیا میں کوئی بھی شخص اتنا مضبوط نہیں جو اسے اس کے عہدے سے ہٹا دے، یہاں تک کہ گاندھی بھی نہیں۔

پیر، 9 دسمبر، 2013

Will without wisdom


علمی استعداد کی کمی نا کہ عزم کی کمی

محمد آصف ریاض
اسرارعالم اردو کے مصنف ہیں ۔ 2013 میں ان کی ایک کتاب مسلم  یونیورسٹی ـ علی گڑھ تحریک  سے متعلق شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا نام " سرسید کی بصیرت " ہے۔ اپنی اس کتاب میں مصنف نے علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی کے موجودہ نظام کوچیلنج کرتے ہوئے وہاں ریڈیکل چینج لانے کی تجویز پیش کی ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے بہت سی ایسی باتیں لکھیں ہیں جن سے آپ اتفاق کر بھی سکتے ہیں اورنہیں بھی کر سکتے۔ یہاں میں ان کے اس خیال سے بحث کروں گا:
" ہندوستان میں عام  طور پر مسلمانوں کے مابین یہ شور سنائی دیتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس علمی استعداد کی کمی ہے اس لئے انھیں مواقع Opportunities) ) میسر نہیں۔ اس کے برعکس تاریخ بالکل ہی مختلف بات کہتی ہے۔ مسلمان بے عزم ہیں اس لئے ان کے یہاں علمی استعداد پائی نہیں جاتی۔" (سر سید کی بصیرت؛ مصنف اسرار عالم؛ صفحہ 25)
مصنف نے بے عزمی کو علمی استعداد کے فقدان کا سبب بتا یا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اپنے اس ریمارک کے سپورٹ میں انھوں نے کوئی تاریخی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ اگر تاریخ یہ بات کہتی ہے جیسا کہ اوپرکے اقتباس سے واضح ہے تو مصنف کو تاریخ سے شواہد پیش کرنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے مصنف نے جو بات کہی ہے اس کا ذکر تاریخ میں کہیں موجود نہیں البتہ ایک برعکس صورت نظر آتی ہے۔ یعنی یہ کہ "مسلمان علمی استعداد نہیں رکھتے اس لئے انھیں مواقع میسرنہیں۔"
صحیح بات یہ نہیں ہے کہ علمی استعداد عزم کا مرہون منت ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ عزم علمی استعداد کا مرہون منت ہے۔ آدمی کے اندر عزم اسی وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر علمی استعداد پیدا ہو۔ علمی استعداد سے خالی شخص عزم اور قوت ارادی سے خالی ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں عزم علمی استعداد کا محتاج ہے نا کہ علمی استعداد عزم کا محتاج ۔ علمی استعداد کے ذریعہ آدمی اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لے کرصحیح فیصلہ تک پہنچتا ہے۔ عزم کے ذریعہ آدمی بندروں کی طرح چھلانگ تو لگا سکتا ہے لیکن وہ کوئی بامعنی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ عزم کے ذریعہ صرف طوفان اٹھا یا جا سکتا ہے لیکن اس طوفان کو اپنے حق میں نہیں کیا جا سکتا۔ طوفان کو اپنے حق میں کرنے کے لئے علمی استعداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسلمان بے عزم ہیں اسی لئے ان کے اندرعلمی استعداد پائی نہیں جاتی۔
اگرآپ تاریخ کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ جوش و ولولہ اور عزائم سے بھری رہی ہے۔ پلاسی کی جنگ ((15 57   سے لے کر 57 18 کی بغاوت اور پھر 1947  تک کا زمانہ مسلمانوں کے عزم وہ حوصلہ کا واضح ثبوت ہے۔ مزید جاننے کے لئے پڑھئے تاریخ تحریک آزادی ہند، ڈاکٹرتارا چند۔
تاریخ کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان کبھی بھی عزم سے خالی نہیں رہے، البتہ ان کے یہاں ہر دور میں علمی استعداد کی کمی پائی گئی ہے اور ہر دور میں مسلمان اس کمی کی قیمت چکا تے رہے ہیں۔

جمعرات، 5 دسمبر، 2013

They are even more misguided

یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں

محمد آصف ریاض
تین دسمبر 2013 کو رات گیارہ بجے میں اپنے بسترپر گیا۔ بسترپرجاتے ہی میں نے لائٹ آف کردی۔ پھردیکھتے ہی دیکھتے میرے جسم کےاعضا سلیپنگ موڈ میں چلے گئے اورکب میں نیند میں چلا گیا مجھے یاد نہیں۔ ساڑھے چار بجے صبح جب میری نیند ٹوٹی تودیکھا کہ صبح کی سفیدی آسمان پر نمودار ہورہی ہے۔
نیند پرآدمی کو قابو نہیں۔ نیند آتی ہے توجسم کے تمام اعضا سلیپنگ موڈ میں چلے جاتے ہیں۔ پھر جب آد می نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اپنے آپ کو توانا اور پہلے سے زیادہ پر سکون اور قوی محسوس کرتا ہے۔
قرآن میں اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا "اورہم نے تمہارے لئے نیند کو باعث سکون بنایا۔"
صبح اٹھ کر میں سوچ رہا تھا کہ رات کی تاریکی سے نکل کرمیں دن کی روشنی میں کس طرح آگیا؟ کون تھا جو مجھے نہایت سبک رفتاری کے ساتھ رات کی تاریکی سے اٹھا کردن کی روشنی میں لے آیا ؟ کیا میں خود بخود یہاں پہنچ گیا؟ یا حالات نے مجھے یہاں پہنچا دیا؟
نہیں؛ میں یہاں از خود نہیں پہنچا تھا بلکہ ایک مستحکم نظام کے تحت مجھے یہاں پہنچا یا گیا تھا۔ رات کی تاریکی سے دن کے اجالے تک پہنچنے میں زمین و آسمان نے اپنا کردارادا کیا تھا۔
جب میں رات میں نیند کی آغوش میں گیا تواس وقت زمین تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی پھراس نے سورج کی روشنی کی جانب سفر کیا اور یہ سفر مسلسل کئی گھنٹوں تک جاری رہا یہاں تک کہ زمین نامی گاڑی نے مجھے اندھیرے اسے اٹھا کر روشنی میں پہنچا دیا۔ اسی بات کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: توہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں (تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ
آدمی سونے کو اور جاگ اٹھنے کو فار گرانٹیڈ لیتا ہے۔ نیند اور بیداری ، دن اور رات کی شکل میں انسان کے سامنے ہر روز ایک ہیبتناک قسم کا معجزہ ہوتا رہتا ہے تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرے لیکن انسان ہے کہ وہ اس پرغور نہیں کرتا وہ اسے فار گرانٹیڈ لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسی طرح ہمیشہ سوتا اور جاگتا رہے گا۔ حلانکہ انسان پرایک دن آنے والا ہے جبکہ وہ سوئے گا توپھرجاگ نہ سکے گا اور یہ وقت اس کے باپ دادائوں پر پہلے ہی آچکا ہے۔ تو کیا وہ انھیں اپنے ارد گرد پاتے ہیں؟ اسی طرح ایک دن وہ بھی اس دنیا میں نہیں پائے جائیں گے۔
خدا وند انسان کو ہرروزنیند کی حالت میں لے جاتا ہے تاکہ نیند کا تجربہ کر کے انسان کو اپنی موت پر یقین آجائے۔ اسی طرح خدا وند ہر روز انسان کو نیند سے جگا رہا ہے تاکہ انسان کو معلوم ہوجائے کہ اسی طرح موت کے بعد وہ زندہ کیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ نہ تو انسان نیند سے کچھ سیکھ رہا ہے اور نہ نیند سے جاگ اٹھنے سے وہ  کوئی سبق حاصل کر رہا ہے۔
انسان کو دل اور دماغ دیا گیا ہے تاکہ خدائی واقعات کے رسپانس میں وہ ان کا استعمال کرے لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدائی نشانیوں کے معاملہ میں اندھا اور بہرہ بنا ہوا ہے۔ اور بلا شبہ انسان کو ایک دن اپنے اندھے اور بہرے پن کی سزا کاٹنی ہوگی۔ قرآن کا ارشاد ہے:
"ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں،ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔" 7:179))

جمعہ، 29 نومبر، 2013

Stone walls do not a prison make, No iron bars a cage,


اگر میری محبت اور میرا دل آزاد ہے، تو سمجھو کہ میں آزاد ہوں!


محمد آصف ریاض

ریچرڈ لوئس (1657-1618) سترہویں صدی کا معروف انگریزی شاعرتھا۔ اسے آج سے تقریباً ڈھائی سوسال قبل جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا تھا۔ وہاں اس نے وہ شاہکار نظم تحریر کی جو پوری انگریزی دنیا میں دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگئی۔ اس نظم کا ایک بند یہ ہے:

پتھر کی دیواریں جیل خانے تعمیر نہیں کرتیں،
اور نہ ہی لوہے سے قفس تیار ہوتےہیں،
نیکوکار اور پاکیزہ صفت انسان اسے راہبوں کی کٹیا سمجھتے ہیں،
اگرمیری محبت اور میرا دل آزاد ہے تو سمجھو میں آزاد ہوں،
لیکن اس طرح کی آزادی سے صرف آسمان کے فرشتے ہی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

Stone walls do not a prison make,
No iron bars a cage,
The spotless mind, and innocent,
Calls that a hermitage,
If i have freedom in my love,
And in my soul am free,
Angels alone that are above,
Enjoy such liberty.

میں لوئس کی اس بات کو درست سمجھتا ہوں۔ خدا وند نے جب اس دنیا کی تخلیق کی تو کہیں کوئی دیوارتعمیر نہیں کی اور نہ ہی کوئی قید خانہ تعمیر کیا۔ اس نے آنسان کو آزاد پیدا کیا اور پوردی دنیا کواس کے لئے پھیلا دیا۔ تاہم انسان نے پتھر کے بڑے بڑے جیل خانے تعمیر کئے اور انسانی جانوں کو اس میں مقید کردیا۔ انسان نے لوہے کی زنجیریں بنائیں اور انسانیت کو اس میں جکڑ دیا، اس حقیقت کے با وجود کہ خدا وند نے انسان کو آزاد پیدا کیا تھا۔

خلیفہ دوم حضرت عمر نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ تاریخی جملہ کہا تھا جو تاریخ کی کتابوں میں آج بھی ان الفاظ میں محفوظ ہے: " تم نے کب سے انسانوں کوغلام بنا لیا حالانکہ ان کی مائوں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔"
حضرت عمر کے اس قول کی بازگشت جین جیکس روسو(1778-1712) کے اس قول میں ہزار سالوں کے بعد سنی گئی:

"انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن ہر طرف وہ زنجیروں ميں جکڑا ہوا ہے۔"


Man is born free; and everywhere he is in chains
حقیقت یہ کہ خدا وند نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ لیکن انسان ہے کہ وہ زمین پر ایک دوسرے کو زنجیروں میں جکڑ رہا ہے اور بعض کو پس زنداں کر دیتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا میں کوئی زنجیر ایسی نہیں جو حقیقی انسان کو جکڑ لے، اور کوئی دیوارایسی نہیں جو کسی زندہ دل انسان سے اس کی آزادی کو چھین لے۔

آزادی اور غلامی در حقیقت دل کی آزادی اورغلامی کا نام ہے۔ دل آزاد ہے تو انسان آزاد ہے اور دل غلام ہے تو انسان غلام۔ دل کی طاقت کا نام آزادی ہے اور دل کی کمزوری کا نام غلامی۔ یہی وہ بات ہے جسے لوئس نے ان الفاظ میں سمجھا نے کی کوشش کی ہے۔:
" اگرمیری محبت اور میرا دل آزاد ہے تو سمجھو میں آزاد ہوں،"

منگل، 26 نومبر، 2013

Faith is not about total surrender of mind, it is about total use of mind

شکر کے آئٹم کی دریافت

محمد آصف ریاض
قرآن کی سورہ یوسف میں حضرت یوسف کا قصہ بیان ہواہے۔ قرآن میں اس قصہ کواحسن القصص یعنی بہترین اسٹوریThe best story) ) کہا گیا ہے۔ یہ بہترین اسٹوری کیا ہے؟
یہ بہترین اسٹوری کمزوری سے طاقت، گمنامی سے شہرت اورنفرت کے جواب میں محبت اورکامل خیرخواہی کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری اپنے مربی کے ساتھ وفا شعاری اور انتہائی حسن سلوک کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری رنج وغم کے پہاڑکے سامنےامید وں کا ایک طوفان اٹھا نے کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری حکمت اوروزڈم کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری صبرکے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھنے کی اسٹوری ہے ۔ یہ اسٹوری ناکامی سے کامیابی نچوڑنے کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری بتاتی ہے کہ آدمی کہیں بھی ہو، کسی بھی حال میں ہو، اسے خدا وند پر ہرحال میں بھروسہ رکھنا چاہئے اسے کسی  بھی حال میں امید کا دامن نہیں چھوڑنا ہے۔
یوسف کا قصہ
کنعان کا یہ ننھا سا لڑکا یوسف اپنے باپ یعقوب کے دل کی دھڑکن ہے، اوراسی لئے اس کے بھائی اس سے حسد کرتے ہیں۔ یوسف ایک خواب دیکھتا ہے، یہ خواب اسے اپنے باپ کی نظروں میں اورمحبوب بنا دیتا ہے۔ یوسف کے بھائی جارحیت پراترآتے ہیں اوروہ اسےجنگل کےاندھیرے کوئیں میں مرنے کے لئے دھکیل دیتے ہیں۔ یوسف مدین سے مصر جانے والے قافلہ کے ہاتھ لگ جاتاہے، پھرمصر کے بازارمیں غلام کی حیثیت سے فروخت کیا جا تا ہے۔ یہاں یوسف کوعزیرکے گھرمیں بیٹا بنا کررکھا جا تا ہے، اسی گھرمیں وہ عزیز کی بیوی زلیخا کے مکرکا شکارہوتا ہے جبکہ وہ یوسف کواندھیرے کمرے میں بند کرلیتی ہے اورکہتی ہے کہ آجا۔ یوسف معاذ اللہ کہتے ہوئے بھاگ کھڑاہوتا ہے۔ اب زلیخہ اور مصر کے اونچے گھرانے کی عورتیں اپنی چال چلتی ہیں اور یوسف کو جیل میں بندکراد یتی ہیں ۔ جیل میں دوقید یوں کے خواب کا واقعہ پیش آتا ہے اوریوسف ان کے خواب کی سچی تعبیربتا دیتے ہیں۔ اب مصرکے بادشاہ کے خواب دیکھنےکا واقعہ پیش آتا ہے۔ بادشاہ کو یوسف کے بارے میں علم ہوتا ہے اوروہ یوسف سےاپنا خواب بیان کرتا ہے۔ یوسف خواب کی تعبیربیان کرکے بادشاہ کو مشکل حالات سے بچائو کی ترکیب بتا تا ہے۔ بادشاہ یوسف کےعلم سے بہت زیادہ متاثرہوتا ہے اور انھیں اپنے خزانے کا مالک بنا دیتا ہے۔
یوسف کی بردباری
کنعان کے یعقوب کا ننھا سا لڑکا نشیب و فرازکی مختلف راہوں سے گزرتاہوا،ایک طویل سفرکے بعد مصرکاعملاً بادشاہ بن جا تا ہے اوراپنے بھائیوں کی جارحیت کو یکطرفہ طورپرمعاف کردیتا ہے، یوسف کی خیر خواہی سے متاثر ہوکراس کے سارے برادران اس کے آگے جھک جاتے ہیں۔ اس طرح یوسف کا وہ خواب پورا ہوتا ہے جسے انھوں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورہ یوسف۔
اسٹوری کا خاتمہ
اس بہترین اسٹوری کا خاتمہ قرآن کے بیان کےمطابق ان الفاظ پرہوتاہے۔
" اے میرے پروردگارتونے مجھے ملک عطا فرمایا، اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلا ئی ، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی اورکارساز ہے، تو میرا خا تمہ اسلام  پر کر اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔" (12:101)
یوسف کی زبان پرشکراور دعا کے یہ الفاظ کس طرح جاری ہوئے؟ یوسف نے اپنے دماغ کو بہت زیادہ متحرک  کیا۔ انھوں نے سوچا کہ وہ کس طرح بچپن میں عام بچوں کی طرح کنعان میں اپنے گھرمیں اپنے گیارہ بھائیوں اوروالدین کے ساتھ رہا کرتے تھے ، پھرخواب دیکھنے کا واقعہ پیش آیا، باپ نے یہ خواب بھائیوں کوبتانے سے منع کردیا۔ پھر بھائی غضبناک ہوگئے اورانھوں نے جنگل کے ایک کوئیں میں مرنے کے لئے دھکیل دیا۔ وہ تین دن تک اسی تاریک کوئیں میں پڑے رہے، پھر قافلہ والوں نے انھیں مصر کے بازارمیں فروخت کردیا پھرزلیخہ کا سامنا ہوا اورجیل جا نا پڑا، پھرقیدیوں نے خواب دیکھا اورپھر بادشاہ کے خواب کا واقعہ پیش آیا۔ بادشاہ اپنے خواب کی تعبیرسن کرخوش ہوااوراس نے انھیں مصرکاعملاً بادشاہ بنا دیا۔ یہ سب سوچ کر یوسف کے دل و دماغ میں ایک ابال پیدا ہوگیا اور یہی ابال مذ کورہ دعا اورشکرکی شکل میں آپ کی زبان سے جاری ہوگیا۔
یوسف کوکنعان سے مصرتک پہنچنےمیں ایک زمانہ لگا تھا لیکن یوسف نے ایک ایک واقعہ کوچن چن کر یاد کیا۔ یوسف نے کنعان سے مصرتک کے سفرکی تمام مصائب  کو سوچا۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے شکر کے ایک ایک آئٹم کو دریافت کیا اورجب مائنڈ بہت زیادہ ایکٹیو ہو گیا تو آپ کی زبان پردعا اورشکرکے وہ الفاظ جاری ہوگئے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔" انت ولی فی الدنیا والآخرۃ " یعنی ' تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا والی اور مددگار ہے، تونے مجھے ملک عطا فرمایا اور مجھے خواب کی تعبیر سکھائی'۔
خدا وند کا مطلوب انسان
یہ واقعہ بتا رہا ہےکہ خدا وند زمین پرکیسا انسان چاہتا ہے۔ وہ زمین پرتفکیری انسان دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ ایسا انسان دیکھنا چاہتا ہے جواپنے دماغ کو ہمیشہ متحرک رکھے۔ خدا وند چاہتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے دماغ کو ایکٹیویٹ کرتا رہے اورکائنات میں پھیلے شکر کے ایک ایک آئٹم کو دریافت کرے تاکہ اس کا سارا وجود ربانی شکرکے احساس میں نہاجائے۔
شکرکے آئٹم کی دریافت
یوسف کے قصہ کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جسے ہم نے  "شکرکے آئٹم کی دریافت"  کا نام دیا ہے۔
معروف نغمہ نگاراورسماجی  کارکن جاوید اخترنےاپنے ایک حالیہ ٹیوٹ میں یہ الفاظ لکھے تھے:
I am against "faith" because it needs total surrender of mind”
یعنی میں ایمان  کے خلاف ہوں کیوں کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ پورے دماغ کو سرینڈر کردیا جائے۔
میں نےاس کے جواب میں انھیں لکھا:
Faith is not about total surrender of mind, it is about total use of mind
یعنی ایمان کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے پورے دماغ کوسرینڈرکردیں۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے"دماغ کا بھرپور استعمال" کریں۔ ایمان آپ کے دماغ کا پورا استعمال چاہتا ہےناکہ پورا سرینڈر۔ میرا جواب دیکھ کرانھوں نے اپنے ٹیوٹ کو ڈلیٹ کردیا۔
خدا کا دین انسان سے 'ٹوٹل یوزآف مائنڈ' چاہتا ہے، لیکن انسان ہے کہ وہ اس کی قیمت چکانےکےلئےتیارنہیں۔ وہ کسی بھی حال میں سوچنا نہیں چاہتا اوراسی لئے اسے شکرکا کوئی آئٹم بھی دریافت نہیں ہوپاتا۔
ہرانسان کی زندگی میں شکرکے بے پناہ آئٹم ہوتے ہیں۔ ہرانسان کنعان سے مصر کا سفرکرتا ہے، لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اس میں یوسف بہت کم بن پاتے ہیں زیادہ تر لوگ فرعون اور شداد بنے رہتے ہیں۔
انسانی زندگی میں شکر کے آئٹم

انسانی زندگی میں شکرکےبے پناہ آئٹم موجود ہوتے ہیں۔ یہ آئٹم انسان پراس وقت کھلتے ہیں جب کہ انسان دماغ کوکام میں لاکراس پر بہت زیادہ غوروخوض کرے۔ مثلاً انسان معجزاتی ڈھنگ سے پیدا ہواہے وہ سوچے کہ ماں کے پیٹ میں کس طرح اس کی صورت گری ہوئی ۔ انسان معجزاتی اندازمیں بولتا ہے، وہ سوچے کہ کس طرح زمین پراس کا بولنا ممکن ہورہاہے، وہ سوچے کہ جب وہ پیدا ہوا تھا توکتنا کمزورتھا پھررفتہ رفتہ کس طرح وہ طاقت والا بن گیا۔ وہ سوچے کہ درختوں سے اسے پھل، خوشبو، پھول اورآکسیجن حاصل ہوتے ہیں، حالانکہ  سارے درخت ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں اورسب پرمختلف رنگ کے پھول اور پھل آتے ہیں۔ زمین پر یہ حیران کن واقعہ کس طرح پیش آرہا  ہے۔ وہ سوچے کہ خدا وند زمین وآسمان کو سرگرم عمل کرکےاس کے لئے کس طرح آب و ہوا  اورآکسیجن کا انتظام کررہا ہے۔ جب انسان اپنے مائنڈ کو بہت زیادہ ایکٹیویٹ کرے گا تووہ اپنی زبان پربھی شکراوردعا کے وہی الفاظ پائے گا جو یوسف کی زبان پرعالم  بے تابی  میں جاری ہو گئے تھے۔

پیر، 25 نومبر، 2013

Too much politics is harming Indian Muslims


ہندوستانی مسلمان حد سے زیادہ سیاسی انہماک کی قیمت چکا رہے ہیں

محمد آصف ریاض
بدرالدین طیب جی (1906-1844) کانگریس کے پہلے مسلم صدرتھے۔ آپ کا تعلق ممبئی کے ایک با اثرمسلم گھرانے سے تھا۔ آپ 1887 میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدرمنتخب ہوئے۔ 1895 میں طیب جی نے کانگریس اوردیگرتمام سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیارکر لی کیونکہ اس سال وہ ممبئی ہائی کورٹ کے جج بنا دئے گئے تھے۔ طیب جی مسلمانوں کی تعلیمی اورسماجی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔  ممبئی میں انجمن اسلام کا قیام ان کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھاجاتاہے۔
زندگی کے آخری ایام میں انھیں یہ دیکھ کر وحشت ہونے لگی تھی کہ پورا ہندوستان تعلیمی، معاشی اور سماجی میدان کو چھوڑکرسیاسی میدان میں اترآیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
"مجھے یہ دیکھ کر وحشت سی محسوس ہونے لگتی ہے کہ ہندوستان کے نوجوانوں نے اپنی توجہات کو خالصتاً سیاست پر مرکوز کردیا ہے اور انھیں تعلیم اور سماجی اصلاح کی زیادہ  پرواہ  نہیں ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری بہتری اور ترقی اس امر میں پو شیدہ نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہات کو ایک ہی سمت میں مرکوز کردیں ۔ ہمیں تو چاہئے کہ آج ہم جتنی محنت اپنی سیاسی حالت کو سدھارنے کے لئے کر رہے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ اتنی ہی محنت اپنی تعلیمی اورسماجی حالت کوسدھارنے کے لئے بھی کریں۔ اگر ہمارے ہم وطنوں کی بہت بڑی تعداد جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی رہے تو خواہ ہم مل جل کر ایک نمائندہ  قسم کی حکومت کے لئے کتنی ہی جد جہد کیوں نہ کرلیں اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔"
) ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج ، ڈاکٹر رفیق زکریا، صفحہ 464 (
بدرالدین طیب جی ایک دانا اوردور اندیش لیڈرتھے۔ انھوں نے اپنی دور اندیشی سے سمجھ لیا تھا کہ ہندوستانی قوم سیاست میں حد سے زیادہ انہماک کی وجہ سے زندگی کے دوسرے میدان میں بری طرح پچھڑ جائے گی اور واقعتاً وہی ہوا۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ آزادی کے ساٹھ سال بعد بھی ہم یہ اعلان کررہے کہ 26 روپے کمانے والا غریب نہیں ہے اور حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ ہمیں اپنی ساٹھ فیصد آبادی کو رائٹ ٹو فوڈ دینا پڑرہا ہے۔
اب تاریخ سے ایک مثال لیجئے۔ ہندوستان کی آزاد ی کے بہت بعد جاپان امریکہ کی غلامی سے آزاد ہوا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جاپان دنیا کے بازار پر چھا گیا اورامریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کرابھرا۔ یہاں تک کہ امریکہ میں اس طرح کی کتابیں نظرآنے لگیں کہ کیا امریکہ جاپان کے پاکٹ میں ہے؟
Is America in Japan's pocket?
جاپان ہندوستان سے آگے کیوں نکل گیا ؟ کیونکہ جاپانی سیاست میں اس طرح منہمک نہیں ہوئے جس طرح ہندوستانی منہمک نظر آتے ہیں۔ جاپانیوں نے اپنی توانائی کو سیاست کے بجائے معیشت اورتعلیم کے فروغ پرصرف کیااورنتیجہ کار کامیاب ہوئے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ
ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اورتعلیمی حالت پر سروے کرنے والی سچرکمیٹی ،اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کرتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان تعلیمی، معاشی، سماجی اورحفظان صحت کے میدان میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں۔ یہ کیوں ہوا؟ کیا یہ حکومت نے کرادیا؟ نہیں، ہرگزنہیں۔
کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں کہ وہ اپنے ہی ملک کو پیچھے لے جائے۔ یہ اس لئے ہوا کیوں کہ ہندوستانی مسلمانوں نے بحیثیت قوم اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا۔ نیز یہ کہ وہ حد سے زیادہ سیاست میں منہمک ہوگئے۔ ان کا حال یہ ہے کہ ان کا پڑھا لکھا بھی سیاست میں سرگرم ہے اور جاہل بھی۔ ان کے سیکولرلوگ بھی سیاسی دھوم مچا رہے ہیں اورمذہبی لوگ بھی۔ ان کے مالدار لوگ بھی سیاست کے میدان میں اتر آئے ہیں اورفقرا بھی ۔ مسلمانوں میں جسے بھی دیکھئے ہر ایک کسی نہ کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہے اور یہی ان کی بربادی کا سبب ہے۔
اب میں آپ کو آج کی دنیا سے ایک مثال دوں گا جس سے پتہ چل جائے گا کہ سیاست میں حد سے زیادہ انہماک کس قدر خطرناک ہوتاہے۔

سید شہاب الدین (پیدائش 1935 ) ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان ایک بڑا سیاسی نام ہے۔ وہ کئی بڑے عہدے پر فائز رہے اور رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے۔ وہ شاہ بانو کیس اور بابری مسجد شہادت کے معاملہ میں ہندوستانی مسلمانوں کے ہیرو بن گئے اور پھر پوری طرح سیاست میں غرق ہوگئے۔ سیاست میں حد سے زیادہ انہماک کی وجہ سے وہ کوئی سماجی، معاشی یا تعلیمی کام انجام نہیں دے سکے۔ ان کی پوری توانائی محض سیاسی شورشرابے میں صرف ہو گئی۔ وہ قوم کو کوئی ایسی چیز نہ دے سکے جو قوم کے لئے کار آمد ہو۔ وہ خود بھی مایوس ہوئے اور قوم بھی ان سے مایوس ہوئی۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ سیاست میں حد سے زیادہ منہمک ہوگئے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے پچھڑنے کا سبب بھی یہی ہے یعنی  سیاست میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔

بدھ، 13 نومبر، 2013

Loin culture and Cow culture


شیر کلچر اور گائے کلچر

محمد آصف ریاض
اس دنیا میں ایک کلچروہ ہے، جسے ہم لاین  Loins)) کلچرکہتے ہیں۔ لاین کلچردرحقیقت دہشت اوردرندگی کا کلچرہے۔ شیرجب تک جنگل میں ہے تب تک ٹھیک ہے۔ جنگل سے نکلتے ہی وہ لوگوں کے لئے درد سر بن جاتا ہے۔ شیرکا جنگل سے نکل کرآبادی کی طرف آنا کسی کے لئے بھی پسند یدہ نہیں۔ اگرکوئی شیرآبادی کی طرف غلطی سے بھی آجا ئے تو لوگ اسے گھیرکرمار دیتے ہیں۔
اس کے برعکس خدا وند کی اس دنیا میں ایک اورکلچر رائج ہے۔ اسے کائو cow)) کلچرکہتے ہیں۔ گائے زندگی کی علامت ہے۔ گائےانسان کے لئے زندگی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ وہ انسانیت کی پرورش کرتی ہے۔ گائے گھاس بھوس کو حیرت انگیزطورپر دودھ میں بدل کرانسانیت کوفائدہ پہنچاتی ہے۔ وہ ہرجگہ ویلکم کی جاتی ہے۔ وہ اگرجنگل میں رہے تب بھی پسندیدہ اوراگرجنگل سے آبادی میں آجائے تب بھی پسندیدہ ۔ وہ شیرکی درندگی کے برعکس سراپا امن اور خوشحالی کی علامت ہے۔
شیراورگائے کے درمیان اس واضح فرق کے باوجود لوگوں کا حال یہ ہے کہ لوگ اعلانیہ یا غیراعلانیہ طور پرشیر کلچرکواپنا ئے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انھیں لگتا ہے کہ گائے بن کرانھیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
انسان کے سامنے دو راستے
قرآن میں بتا یا گیا ہے" اور ہم نے دکھا د ئے اس کو دونوں راستے۔" 90-10)) خدا وند نے جنت اورجہنم کی شکل میں ایک ابدی دنیا بنائی ہے۔ اس ابدی دنیا میں بسانے کے لئے خدا وند کو منتخب افراد درکار ہیں۔ انھیں مطلوبہ افراد کے انتخاب کے لئے خدا وند نے اس موجودہ  دنیا کی تخلیق کی اور انسان کو اس بات کی کامل آزادی دی کہ وہ چاہے تو برائی کا راستہ اپنا ئے اور چاہے تو بھلائی کا۔ وہ چاہے تو جنت میں اپنے لئے جگہ بنائے اور چاہے تو جہنم میں۔
خدا وند نے ان دونوں راستوں کو گائے اور شیر کے ذریعہ عملی طور پر ثابت کردیا تاکہ انسان کے پاس اس معاملہ میں کوئی عذر باقی نہ رہے۔ اس نے شیرپیدا کیا اور گائے کی تخلیق کی۔ شیرشرکی علامت ہے اورگائے سراپا خیر خواہی اور امن کی علامت۔ خدا وند چاہتا ہے کہ انسان گائے سے اپنے لئے سبق لے اورگائے کلچرکو اپنائے۔ وہ لوگوں کے لئے سراپا رحمت بن جائے۔ وہ برائی کے جواب میں بھلائی کرے۔ جس طرح گائے گھاس بھوس کو دودھ میں کنورٹ کر دیتی ہےاسی طرح وہ ہرنگیٹی ویٹی کو پوزیٹی ویٹی میں تبدیل کردے۔ قرآن میں خدا وند نے لکھ دیا ہے:
"نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو بھلائی سے دفع کروپھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہوجائے گا جیسا دلی دوست"41: 34) )
گائے کی خوبصورت تخلیق کے ذریعہ خدا وند براہ راست طورپرانسان کوامن اورخیرخواہی کی تعلیم دے رہا ہے۔ گائے کے ذریعہ خدا وند اپنے بندوں کو بتا رہا ہے کہ اسے اپنی جنت میں بسانے کے لئے وہ لوگ درکار ہیں جو گائے کلچر کو اپنانے والے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ کوئی بھی اس کلچر کو اپنانے کے لئے تیار نہیں۔
ہندووں کا حا ل یہ ہے کہ وہ گائے کو محض پوجا کی چیز سمجھتے ہیں، اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ گائے کو محض کھانے کی چیز سمجھتے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی گائے سے وہ روحانی سبق حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں جس کے لئے خدا وند نے گائے کی تخلیق کی ہے۔

جمعہ، 8 نومبر، 2013

Power of human resources

انسانی وسائل کی طاقت
محمد آصف ریاض
انسانی آبادی کا انفجارکسی قوم کے لئے طاقت کی علامت ہے۔ لیکن کچھ لوگ اسے" بھیڑ" کا نام دیتے ہیں۔ آبادی کوبھیڑکا نام دینا ایک قسم کی دیوانگی ہے۔ آبادی کوصرف وہی لوگ بھیڑ کا نام دیتے ہیں جو آبادی کی طاقت سے واقف نہیں یا جوآبادی کے استعمال کو نہیں جانتے۔
اگربارش ہو اور بہت زیادہ ہو، تو وہ شخص جو پانی کے استعمال کو نہیں جانتا، وہ گھبرا جائے گا ۔ وہ اسے اپنے لئے ایک مسئلہ سمجھ لےگا۔ اس کے برعکس وہ شخص جو پانی کے استعمال کوجانتا ہو وہ خوش ہوگا، وہ اسے اچھی طرح استعمال کرکے اپنے لئے خوشحالی کے سامان پیدا کر لے گا۔ ایک ہی چیز ایک قوم کے لئے عذاب ہے تو دوسری قوم کے لئے عین رحمت۔
زیادہ آبادی کا ہونا کوئی سادہ بات نہیں ہے۔ زیادہ آبادی کا مطلب ہے۔ زیادہ دل ، زیادہ دماغ ، زیادہ طاقت، زیادہ جوش ، زیادہ عزم ، زیادہ حوصلہ ، زیادہ مسائل اور زیادہ حل۔
یوروپ کا سبق
'ایجنگ پاپولیشن' نے یوروپ کومعاشی لحاظ سے بوڑھا کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ تجارت کے میدان میں مسلسل پچھڑتے جا رہے ہیں۔ افرادی قوت کی کمی  کی وجہ سے وہاں اب تجارت کی جگہ نوکری کا چلن زور پکڑ رہا ہے، حالانکہ کوئی قوم محض نوکری کے بل پردنیا میں کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں کرسکتی۔
اس صورت حال پراپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک یوروپی اخبار لکھتا ہے:
"یوروپ دنیا میں ایک مشکل مقام پر کھڑا ہے۔ ترقی پذیرمعیشتیں نوجوان نسل رکھتی ہیں اور وہاں آبادی میں  مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کی بدولت انھیں مستقبل کی درکار صلاحیتیں حاصل ہورہی ہیں۔ آگے چل کراس کا خمیازہ یوروپ کو بھگتنا پڑے گا۔ یوروپ کے مقابلے کی صلاحیت اس سے متاثر ہو گی اورایک ایسی دنیا پراس کا اثر صاف دکھائی دے گا جس کا جھکائو ایشیا کی طرف ہے۔"
Europe in a difficult position in a world where other emerging economies still have relatively younger and growing populations, which means a growing pool of future talents. In the long run, this could affect Europe's competitiveness and relevance in a world whose centre of gravity is shifting towards Asia.
European Voice. Com
اب ایک تاریخی مثال لیجئے۔ پرتگال کا شہری واسکو ڈیگا ما یوروپ کا پہلا شخص تھا جس نے ہندوستان کا راستہ دریافت کیا۔ جب وہ چودھویں صدی میں ہندوستان کے راستے کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوا تو اس نے پرتگال کو اس بات پرآمادہ کیا کہ وہ اس بحری راستے پر قبضہ کر لے۔ پرتگال کی حکومت نے واسکو ڈیگاما کی رائے پرعمل کرتے ہوئے ہندوستان آنے والے بحری گزرگاہ پرقبضہ جما لیا اور وہاں سے ترک، ایرانی اور ہندوستانی بحری بیڑوں کو بھگا دیا۔ لیکن اس کے با وجود پرتگال ہندوستان پرقبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا بلکہ برطانیہ اور فرانس اس پر بازی لے گئے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ تمام حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے پرتگال کے پاس انسانی قوت نہیں تھی۔ اس وقت پرتگال کی آبادی محض 20 لاکھ  تھی اوراسی لئے پرتگال پچھڑ گیا اوراس کے رقیب برطانیہ فرانس اوردوسرے یوروپی ممالک آگےنکل گئے۔ مزید جاننے کے لئے پڑھئے۔ (تاریخ تحریک آزادی ہند، جلد اول؛ مصنف ؛ ڈاکٹر تارا چند)
اب ایک مثال اپنے ملک سے لیجئے؛ ہندوستان کی خود ساختہ ہندو تنظیم آر ایس ایس نے آبادی کے معاملہ کو بڑی زور شور سے اٹھا تے ہوئے ہندوئوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی آبادی کو بڑھائیں۔ ہندوستان اکسپریس میں شائع اس رپورٹ کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں۔
RSS joint general secretary Dattatreya Hosabale said on Saturday that Hindu families should adopt a three-child norm to prevent "demographic imbalance" in society.  Sat, 9 Nov 2013
"آرایس ایس جنرل سکریٹری دتیریا ہوسیبل نے سنیچر کے روزکہا کہ جغرافیائی عدم توازن کو روکنے کے لئے ہندو خاندان کو تین بچوں کی پالیسی پرعمل کرنا چاہئے۔"
اب رہی بات ہندوستانی مسلمانوں کی توہندوستانی مسلمان زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی اپنے پچھڑے پن کا ثبوت دے رہے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان جیسے عظیم الشان جمہوری ملک میں یہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

To realise God use your common sense


کا ئنات کا پیچیدہ اور منظم نظام بتا رہا ہے کہ خدا ہے؟

محمد آصف ریاض
درختوں  کواگرسورج کی روشنی نہ ملے تووہ  ضیائی تالیف نہیں کرسکتے اورمرجائیں گے۔ درخت اپنا کھانا سورج کی انرجی سے تیارکرتے ہیں۔ اس پورے عمل کو سائنس کی زبان میں ضیائی تالیف کہاجاتا ہے۔ درخت کے پتے سورج کی روشنی سے کھانا تیارکرتے ہیں، وہ فضائوں سے کاربن ڈائی ایکسائیڈ اٹھاتے ہیں درخت کی جڑیں زمین کے اندرسے پانی کھینچ کرلاتی ہیں، اوراس طرح ضیائی تالیف کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ یعنی زمین وآسمان کا پورا نظام ہم آہنگ ہوکرکام کرتا ہے تب جاکرزمین پروہ چیز پیدا ہوتی ہے جسے ہم درخت کہتے ہیں۔
اسی درخت سے انسان کھانے پینے کی اشیا حاصل کرتا ہے۔ اسی سے درخت سے پھل ، پھول، رنگ اور خوشبو حاصل کئے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ درخت فضائوں سے زہریلی گیس جیسے کاربن ڈائی ایکاسائیڈ کو اپنے اندر جذب کرکے ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں اوراسی آکسیجن پر ہماری زندگی کا انحصار ہے۔
اگردرخت نہ ہوں، توزمین  بنجر ہوجائے گی۔  فضا ئوں سے پرندے معدوم ہوجائیں گے۔ جنگل حیوانات سے خالی ہوجائیں گے۔ درخت نہ ہوں تو سمندر میں مچھلیاں اوردوسری مخلوقات مرجائیں گی۔ درخت کی عدم موجودگی میں زمین پرانسان کا وجود ختم ہوجائے گا۔ درخت نہیں تو زمین پر زندہ مخلوق کا تصور نہیں۔
درخت زندہ مخلوق کے لئے گویا لائف لائن ہیں۔ اس لائف لائن کے ختم ہوتے ہی زمین اپنی تمام رنگینیوں اورسرگرمیوں کے ساتھ ویران ہوجائے گی۔
خدا وند نے درخت کودرخت بنانے کے لئے زمین و آسمان پرایک محکم نظام تیارکر رکھا ہے۔ یہ نظام نہایت محکم انداز میں ہم آہنگ ہوکرکام کرتا ہے، تب جاکر ہمیں وہ چیز حاصل ہوتی ہے جسے ہم درخت  کہتے ہیں اورجس سے زمین پرزندگی قائم ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کائنات میں یہ نظام خود بخود کام کررہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگراتنا زیادہ پیچیدہ اوربا معنی نظام خود سے کام کرسکتا ہے تو پھر زمین و آسمان پر کون سا کام ہے جو خود بخود  نہیں ہوسکتا؟ اگرزمین و آسمان خود کار نظام کے تحت کام کر رہے ہیں تو پھر زمین پراتنا ہنگا مہ کیوں ہے؟ اتنی مشینیں کیوں ہیں؟ اتنے دماغ ہر وقت کیوں مصروف کار رہتے ہیں؟
انسان کی بھاگ دوڑ اوراس کی سرگرمیاں بتا رہی ہیں کہ یہاں چیزیں خود بخود وجود میں نہیں آرہی ہیں  بلکہ انہیں ظہورمیں لایا جا رہا ہے۔ آسمان پر کوئی جہازاڑتا ہے تو کوئی اس کو اڑانے والا ہوتا ہے۔ زمین پرریلیں دوڑ تی ہیں تو کوئی اس کو دوڑانے والا ہوتا ہے۔ ٹیوی پرانسان بولتا ہے تو کوئی اس کو مینیج کرنے والا ہوتا ہے۔ اسکرین  پر کوئی چیز دکھتی ہے تو کوئی اسے دکھانے والا ہوتا ہے ۔ مشینیں چلتی ہیں تو کوئی انھیں چلانے والا ہوتا ہے۔ یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ کائنات کا نظام خود بخود کام نہیں کر رہا ہے بلکہ کوئی ہے جو اسے چلا رہا ہے۔
اسی بات کو قرآن میں اس طرح سمجھا یا گیا ہے: بلا شبہ آسمان و زمین کی تخلیق میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔
خدا وند کی معرفت کے حصول کے لئے جو چیز انسان کو درکار ہے وہ اس کا کامن سنس ہے۔ اگر انسان اپنے کامن سنس کو کام میں لائے تو اسے اس حقیقت کے اعتراف میں کچھ دیر نہیں لگے گی کہ بلا شبہ کائنات کا نظام خوبخود نہیں چل رہا ہے بلکہ اسے چلایا جا رہا ہے اور وہ چلانے والا خدا ہے۔ 

ہفتہ، 26 اکتوبر، 2013

Muslims awaiting a turning point




مسلمان خواب سے جاگ کر کھائی میں چھلانگ لگارہے ہیں

محمد آصف ریاض
وسعت اللہ خان ایک پاکستانی صحافی اورادیب ہیں۔ العربیہ نے 22 اکتوبر 2013 کو ان کا ایک مضمون روزنامہ ایکسپریس سے لے کرشائع کیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے: یہ ترک اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس مضمون میں مصنف نے ایک بوڑھے ترک کے حوالے سے لکھا ہے کہ "غلاموں کو بات بات پرغصہ آتا ہے کیوں کہ یہی ان کی واحد ملکیت ہوتی ہے۔" مضمون نگار کے لفظوں میں:
"یہ بات فروری دو ہزارتین کی ہے۔ میں پرانے استنبول میں گھومتے گھومتے نیلی مسجد کے سائے میں ایک چھوٹے سے باغ کی بنچ پر تھک ہار کے بیٹھ گیا۔ میرے برابر میں ایک ترک بزرگ بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ کچھ دیربعد انھوں نے رسمی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ کیسے ہو؟ میں نے کہا تھک گیا ہوں مگر مزہ آرہا ہے۔ پھر گفتگو شروع ہوگئی۔ یہ بزرگ کسی مقامی کالج میں تاریخ پڑھاتے پڑھاتے حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے۔ پوچھنے لگے ہمارا شہر کیسا لگا ؟ میں نے کہا کہ پچھلے تین روز سے گھوم رہا ہوں لیکن اب تک سڑک پر کوئی ایسا راہگیر نہیں دیکھا جس کا منہ لٹکا ہوا ہو یا کوئی کسی سے دست و گریباں ہوگیا ہو یا کم ازکم گالم گلوچ پر ہی اتر آیا ہو۔ کیا آپ کے ہاں لوگوں کو غصہ نہیں آتا حالانکہ اس شہر میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں۔
بڑے میاں نے عینک کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھا اور پھر مسکرا دئیے۔ کہنے لگے تم کہاں کے ہو ؟ میں نے کہا پاکستان سے۔ پھر پوچھا پاکستان میں پیدا ہوئے یا انڈیا میں ؟ میں نے کہا والدین انڈیا میں پیدا ہوئے اور میں پاکستان میں۔ بڑے میاں نے کہا کہ تمہارا سوال بہت مزے کا ہے کہ ترکوں کو بات بے بات غصہ کیوں نہیں آتا ؟ ایسا نہیں کہ ہمیں غصہ نہیں آتا لیکن ہر وقت نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ شائد یہ ہو کہ ہم کبھی من حیث القوم غلام نہیں رہے۔غلاموں کو بات بات پر غصہ آتا ہے کیونکہ غصہ ہی ان کی واحد ملکیت ہے اور اس غصے کا ہدف بھی وہ خود ہی ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں میں اپنی بات کہہ پایا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
بڑے میاں کی بات سن کے مجھے سکون سا آ گیا اور یوں لگا جیسے کوئی برسوں کی پھانس دل سے نکل گئی۔ لیکن ان کے جاتے ہی مجھے یہ سوچ کرغصہ آ گیا کہ یہ ترک آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں۔۔۔"

بوڑھے ترک نے جس چیزکوغلامی کا معاملہ قراردیا ہے درحقیقت وہ ڈی جنریشنdegeneration) ) کامعاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین پرکوئی قوم ایسی نہیں جوڈی جنریشن کےعمل سے نہ گزری ہو۔ اور جب بھی کوئی قوم ڈی جنریشن کے عمل سے گزرتی ہے تو اس کے اندر فطری طور پر بے صبری، بےعملی، بے عزمی اورغصہ کی نفسیات کا پیدا ہوجاتی ہے۔ خدا وند کے اس آفاقی قانون کو قرآن میں احسن تقویم اوراسفل سافلین یعنی "ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا پھرہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا۔" (سورہ التین) کی اصطلاح میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ زمین پرکسی قوم کی پہلی نسل عزم و حوصلہ ، صبر و استقامت اورجہد مسلسل کی بنیاد پراٹھتی ہے۔ پھراس کے بعد دوسری نسل آتی ہے جو اپنے آبا کی عظمت کی بحالی کو یقینی بناتی ہے۔ پھرتیسری اورچوتھی نسلیں اٹھتی ہیں جواپنے آبا کی قربانیوں پربڑے بڑے پرفخرمحلات تعمیرکرتی ہیں۔ وہ جہد مسلسل کی جگہ عیش وعشرت کی زندگی کوترجیح دیتی ہیں۔ وہ پدرم سلطان بود کی نفسیات میں جیتی ہیں۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ سنجیدہ گفتگو کی جگہ انھیں ہو ہلہ کی باتیں زیادہ پسند آتی ہیں۔ پھریہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ ان کےاندرسے قوت فکروعمل اٹھ جاتی ہے اور وہ زمین پرایک بے وزن قوم بن کررہ جاتی ہیں، جسے بوڑھے ترک نے 'غلامی' سے تعبیر کیا ہے۔
اس معاملہ کی زندہ مثال آج کے مسلمان ہیں۔ ڈی جنریشن degeneration) ) کا مرحلہ دراصل پستی کا مرحلہ ہے اورآج کے مسلمان اسی پستی کے مر حلے سے گزررہے ہیں۔ اسی لئے ان کے یہاں بات بات میں غصہ پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے بولنے والے جوشیلی تقریریں کرتے ہیں اورلکھنے والے الفاظ کا جنگل اگاتے ہیں۔ ان کے یہاں تاریخ سے زیادہ کہانیوں پر یقین کیا جا تا ہے۔ ڈی جنریشن کا عمل ایک فطری امرہے جو سب کے ساتھ پیش آتا ہےاس سے کوئی قوم مستثنی نہیں یہاں تک کہ ترک بھی نہیں۔ یہود کے ساتھ بھی یہ ہوا ہے عیسائی بھی اس عمل سے گزرے ہیں اورآج امت مسلمہ بھی اس عمل سے گزر رہی ہے۔
علاج
ڈی جنریشن کے اس عمل سے (جسے ترک بوڑھے نے غلامی کا نام دیا ہے) پوری امت کو باہرنکالنے کے لئے سنجیدہ اورعملی جد جہد کی ضرورت ہے۔ ابھی تک یہ ہورہا ہے کہ پوری قوم کو ماضی کی داستانیں سنا کر جگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن خوبصورت ماضی اورحال کی پستی کے درمیان جو وسیع خلا ہے اسے پاٹنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پوری قوم حال سے نکلنے کی جد جہد میں عظیم الشان ماضی کی طرف چھلانگ لگا دیتی ہے اورخلا طویل ہونے کی وجہ سے وہ بیچ کی کھائی میں گرجاتی ہے۔ یعنی وہ خواب سےجاگ کر کھائی میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ ہمیں حال اور ماضی کے درمیان اسی کھائی کو پاٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم بار بار اپنی قوم کوعظیم الشان ماضی کی طرف بلائیں گے اور وہ بار بار ماضی اور حال کے درمیان واقع کھائی میں چھلانگ لگا دے گی۔ یہی افغانستان میں ہوا، یہی الجیریا میں ہوااور یہی غلطی  فلسطین اور دوسرے اسلامی ممالک میں دہرائی جا رہی ہے۔
صبرکا فارمولہ
مسلمانوں کی شاندارماضی اورمکروہ حال کے درمیان جوکھائی ہے اسے پاٹنے کے لئے جس چیزکی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ صبر ہے۔ صبر کرنا گویا کسی حساس معاملہ میں عمل کے مواقع کو پالینا ہے۔ اگرقوم صبرکی طاقت سے واقف ہوگئی تو پھر وہ خواب سے اٹھ کر شاندار ماضی کی طرف چھلانگ لگا کرکھائی میں گرنے کی غلطی نہیں کرے گی بلکہ وہ اس کھائی کو پاٹنے کی کوشش کرے گی جس میں اب تک پوری قوم گرتی رہی ہے۔ اور بلا شبہ اس کھائی کے پٹتے ہی پوری قوم اپنی عظمت رفتہ کو پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
 قران میں صبر کے اس آفاقی فارمولہ کو اس طرح واضح کیا گیا ہے: " زمانے کی قسم، انسان بے شک خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، اور نیک عمل کرتے رہے،اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔"103: 1-3) )
ایک اور جگہ فرمایا " ولربک فصبر اوراپنے رب کے لئے صبرکرو"
اور جگہ فرمایا :" اے ایمان والو نماز اور صبر کے ذریعہ  مدد طلب کرو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"(2:153)


مسلمانو نےاگرصبرکرنا سیکھ لیا تو وہ کھائی میں گرنے سے بچ جائیں گے اورصبر کی وجہ سے انھیں کھائی کو پاٹنے کی مہلت بھی مل جائے گی۔ میرے خیال میں مسلمانوں کے لئے عظمت رفتہ کو پانے کا یہی واحد راستہ ہے، اس کے علاوہ ان کے لئے اورکوئی راستہ نہیں۔ اب تک یہ ہو رہا ہے کہ مسلمان خواب سے جاگ کر کھائی میں چھلانگ لگا رہے ہیں کیوں کہ ان کے اندر منزل کو پانے کی جلدی ہے۔ وہ حب عاجلہ میں پڑے ہیں۔ اگر وہ صبر کریں تو خواب سے جاگ کر کھائی میں کودنے کے بجائے وہ کھائی کو پاٹنے کے عمل میں لگ جائیں گے اور یہی عمل ان کے لئے ٹرننگ پوائنٹ (turning point) ہوگا۔ تاریخ داں جانتے ہیں کہ عیسائیوں اور دوسری قوموں کی عظمت کا راز بھی یہی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ انھوں نے جبری صبرکے اصول کو اپنا یا اورمسلمانوں کو اصولی طور پرصبرکےاس فارمولہ کواپنانا ہے۔