مولانا آزاد اور
گاندھی جی
محمد آصف ریاض
1942
میں جب کرپس مشن ناکام ہوگیا اور ملک پرجاپانی حملے کاخطرہ منڈلا نےلگا تو برٹش حکومت
کو ہندوستانیوں کی طرف سے تشویش لاحق ہوئی۔ برٹش حکومت چاہتی تھی کہ ہندوستانی
جاپان کے خلاف لڑیں۔
جاپان کے خلاف لڑائی میں برٹش حکومت ہندوستانیوں
کی کھلی اورغیر مشروط حمایت چاہتی تھی۔ لیکن مولانا ابولکلام آزاد نے جواس وقت انڈین
نیشنل کانگریس کے صدرتھے ہندوستان کی حمایت کوسوراج سے جوڑدیا تھا۔ انھوں نے کہا
کہ جب تک ہندوستان کو پوری آزادی نہیں مل جاتی تب تک ہندوستان اس جنگ میں برٹش
حکومت کا ساتھ نہیں دے گا۔
اس معاملہ میں گاندھی جی کا نظریہ مولانا
اورجواہرلال کے برخلاف تھا۔ گاندھی جی سرے سے جنگ کے مخالف تھے۔ گاندھی جی کے
برعکس مولانا اورجواہر لال کا ماننا تھا کہ آزادی اورجمہوریت کے لئے کوئی بھی قیمت
چکائی جا سکتی ہے یہاں تک کہ جنگ کی قیمت بھی۔
تاہم کرپس مشن کی ناکامی کے بعد جب برٹش حکومت
اورکانگریس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا تو مولانا ابولکلام آزاد کو یہ اندازہ
ہوگیا کہ جنگ ناگزیر ہوچکی ہے اورجاپان کسی بھی وقت ہندوستان پرحملہ کرسکتا ہے، چنانچہ
ہندوستان کو ایسی حالت میں ہاتھ پرہاتھ دھر
کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ ان کا ماننا تھا کہ جاپان چاہے گا کہ بنگال پر قبضہ کر لے
اور اگر جاپان یہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر صورت حال یہ ہوگی کہ ایک مالک کی
رخصتی کے بعد ہندوستان کے سر پر دوسرا مالک مسلط ہوجائے گا جو پہلے سے زیادہ جریح
طاقتور اور نقصاندہ ہوگا۔
"میں سمجھتا تھا کہ یہ بات ناقابل برداشت
ہوگی کہ پرانے مالکوں کو نئے مالکوں سے بدل لیا جائے۔ در اصل یہ ہمارے مفادات کے
لئے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوگا اگر ایک نئے اور تازہ دم فاتح نے اس پرانی حکومت کی
جگہ لے لی، جو وقت کے ساتھ ساتھ مضمحل ہوچکی تھی اور جس کی گرفت بتدریج کمزور پڑ
رہی تھی ۔ مجھے یقین تھا کہ جاپانیوں کی جیسی ایک نئی شہنشایت (امپریلزم) کو نکال
کر باکرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگا۔" (آزادی ہند ، مولانا ابوالکلام، 97)
مولانا نےاس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے
ایک منصوبہ بنا یا تھا۔ ان کا منصوبہ یہ
تھا کہ اگر جاپانی فوج حملہ آور ہوتی ہے اور برٹش فوج پیچھے ہٹتی ہے تو کانگریس
آگے بڑھ کر ملک کے کنٹرول پر قبضہ جمالے گی۔ مولانا کے لفظوں میں:
"میرے ذہن میں یہ اسکیم تھی کہ جیسے ہی
جاپانی فوج بنگال پہنچے اور برطانوی فوج بہار کی طرف پیچھے ہٹے کانگریس کو آگے بڑھ
کر ملک کے کنٹرول پر قبضہ جمالینا چاہئے۔ اپنے رضاکاروں کی مدد سے، اس سے پہلے کہ
جاپانی اپنے قدم جما سکیں بیچ کے وقفے میں ہمیں اقتدار پر قابض ہوجانا
چاہئے۔"
مولانا کے اس خیال سے گاندھی جی متفق نہیں ہوئے۔
گاندھی جی اس معاملہ کو ایک دوسرے ہی نظریہ سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ
"اگر جاپانی فوج ہندوستان آہی گئی تو وہ ہمارے دشمن کے طور پر نہیں انگریزوں
کے دشمن کے طور پر آئے گی۔"
مزید جاننے کے لئے پڑھئے India wins freedom
اس معاملہ پر گاندھی جی اور مولانا کے درمیان
اختلاف اتنا گہرا ہوگیا کہ 7 جولائی کو گاندھی جی نے مولانا کے پاس ایک خط بھیجا۔
اس خط میں گاندھی جی نے واضح کردیا کہ "ہمارا موقف اس قدر مختلف ہے کہ ہم
ساتھ کام کر ہی نہیں سکتے۔ اگرکانگریس چاہتی ہے کہ گاندھی جی تحریک کی قیادت کریں
تو مجھے صدارت سے مستعفی ہونا پڑے گا اور ورکنگ کمیٹی کے عہدے سے بھی مستعفی ہونا
ہوگا اور جواہر لال کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔"
ابولکلام نے اس خط کو جواہر لال نہرو کو دکھا یا
اسی دوران سردار پٹیل بھی پہنچ گئے، انھیں بھی خط دکھا یا گیا۔ پٹیل کو یہ خط پڑھ
کر کافی صدمہ ہوا اور وہ فورا بھاگ کر گاندھی جی کے پاس پہنچے اور بتا یا کہ اگر
مولانا ورکنگ کمیٹی اور کانگریس کی صدارت سے مستعفی ہوگئے اور جواہر لال نے بھی یہی کیا تو
"اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ نہ صرف یہ کہ عوام میں ابتری پیدا ہوگی بلکہ
کانگریس کی بنیادیں کانپ اٹھیں گی۔"
گاندھی جی نے اسی دن مولانا کو بلوایا اور ایک
ہنگامی میٹنگ طلب کی ۔ اس موقع پر گاندھی جی نے ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے واضح
کیا کہ یہ خط انھوں نے جلد بازی میں لکھا
تھا اور اب وہ اسے واپس لیتے ہیں۔ میٹنگ میں پہلی بات جو گاندھی جی نے کہی وہ یہ
تھی " گناہ گارنادم ہوکر مولانا کے پاس آیا ہے۔"( آزادی ہند ، مولانا
ابوالکلا، صفحہ 70(
یہ ایک واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی اگر دانا اور
ہوشیار ہو، وہ چیزوں کی پوری سمجھ رکھتا ہو اور صاحب بصیرت بھی ہو، نیز تمام
تعصبات سے اوپراٹھ کراقدام کرتا ہو، تو دنیا میں کوئی بھی شخص اتنا مضبوط نہیں جو اسے
اس کے عہدے سے ہٹا دے، یہاں تک کہ گاندھی بھی نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں