کا ئنات کا پیچیدہ اور منظم نظام بتا رہا ہے کہ خدا ہے؟
محمد آصف ریاض
درختوں کواگرسورج کی روشنی نہ ملے تووہ ضیائی تالیف نہیں کرسکتے اورمرجائیں گے۔ درخت
اپنا کھانا سورج کی انرجی سے تیارکرتے ہیں۔ اس پورے عمل کو سائنس کی زبان میں
ضیائی تالیف کہاجاتا ہے۔ درخت کے پتے سورج کی روشنی سے کھانا تیارکرتے ہیں، وہ
فضائوں سے کاربن ڈائی ایکسائیڈ اٹھاتے ہیں درخت کی جڑیں زمین کے اندرسے پانی کھینچ
کرلاتی ہیں، اوراس طرح ضیائی
تالیف کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ یعنی زمین وآسمان کا پورا نظام ہم آہنگ ہوکرکام کرتا
ہے تب جاکرزمین پروہ چیز پیدا ہوتی ہے جسے ہم درخت کہتے ہیں۔
اسی درخت سے انسان کھانے پینے کی اشیا حاصل کرتا
ہے۔ اسی سے درخت سے پھل ، پھول، رنگ اور خوشبو حاصل کئے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر
یہ کہ درخت فضائوں سے زہریلی گیس جیسے کاربن ڈائی ایکاسائیڈ کو اپنے اندر جذب کرکے
ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں اوراسی آکسیجن پر ہماری زندگی کا انحصار ہے۔
اگردرخت نہ ہوں، توزمین بنجر ہوجائے گی۔ فضا ئوں سے پرندے معدوم ہوجائیں گے۔ جنگل حیوانات
سے خالی ہوجائیں گے۔ درخت نہ ہوں تو سمندر میں مچھلیاں اوردوسری مخلوقات مرجائیں
گی۔ درخت کی عدم موجودگی میں زمین پرانسان کا وجود ختم ہوجائے گا۔ درخت نہیں تو
زمین پر زندہ مخلوق کا تصور نہیں۔
درخت زندہ مخلوق کے لئے گویا لائف لائن ہیں۔ اس
لائف لائن کے ختم ہوتے ہی زمین اپنی تمام رنگینیوں اورسرگرمیوں کے ساتھ ویران
ہوجائے گی۔
خدا وند نے درخت کودرخت بنانے کے لئے زمین و
آسمان پرایک محکم نظام تیارکر رکھا ہے۔ یہ نظام نہایت محکم انداز میں ہم آہنگ
ہوکرکام کرتا ہے، تب جاکر ہمیں وہ چیز حاصل ہوتی ہے جسے ہم درخت کہتے ہیں اورجس سے زمین پرزندگی قائم ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کائنات میں یہ نظام خود
بخود کام کررہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگراتنا زیادہ پیچیدہ اوربا معنی نظام
خود سے کام کرسکتا ہے تو پھر زمین و آسمان پر کون سا کام ہے جو خود بخود نہیں ہوسکتا؟ اگرزمین و آسمان خود کار نظام کے
تحت کام کر رہے ہیں تو پھر زمین پراتنا ہنگا مہ کیوں ہے؟ اتنی مشینیں کیوں ہیں؟
اتنے دماغ ہر وقت کیوں مصروف کار رہتے ہیں؟
انسان کی بھاگ دوڑ اوراس کی سرگرمیاں بتا رہی
ہیں کہ یہاں چیزیں خود بخود وجود میں نہیں آرہی ہیں بلکہ انہیں ظہورمیں لایا جا رہا ہے۔ آسمان پر
کوئی جہازاڑتا ہے تو کوئی اس کو اڑانے والا ہوتا ہے۔ زمین پرریلیں دوڑ تی ہیں تو
کوئی اس کو دوڑانے والا ہوتا ہے۔ ٹیوی پرانسان بولتا ہے تو کوئی اس کو مینیج کرنے
والا ہوتا ہے۔ اسکرین پر کوئی چیز دکھتی
ہے تو کوئی اسے دکھانے والا ہوتا ہے ۔ مشینیں چلتی ہیں تو کوئی انھیں چلانے والا
ہوتا ہے۔ یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ کائنات کا نظام خود بخود کام نہیں کر رہا ہے بلکہ
کوئی ہے جو اسے چلا رہا ہے۔
اسی بات کو قرآن میں اس طرح سمجھا یا گیا ہے: بلا
شبہ آسمان و زمین کی تخلیق میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔
خدا وند کی معرفت کے حصول کے لئے جو چیز انسان
کو درکار ہے وہ اس کا کامن سنس ہے۔ اگر انسان اپنے کامن سنس کو کام میں لائے تو
اسے اس حقیقت کے اعتراف میں کچھ دیر نہیں لگے گی کہ بلا شبہ کائنات کا نظام خوبخود
نہیں چل رہا ہے بلکہ اسے چلایا جا رہا ہے اور وہ چلانے والا خدا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں