شکر کے آئٹم کی دریافت
محمد آصف ریاض
قرآن کی سورہ یوسف میں حضرت یوسف کا قصہ بیان ہواہے۔
قرآن میں اس قصہ کواحسن القصص
یعنی بہترین اسٹوریThe best story) )
کہا گیا ہے۔ یہ بہترین اسٹوری کیا ہے؟
یہ بہترین اسٹوری کمزوری سے طاقت، گمنامی سے
شہرت اورنفرت کے جواب میں محبت اورکامل خیرخواہی کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری اپنے
مربی کے ساتھ وفا شعاری اور انتہائی حسن سلوک کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری رنج وغم کے
پہاڑکے سامنےامید وں کا ایک طوفان اٹھا
نے کی اسٹوری ہے۔ یہ
اسٹوری حکمت اوروزڈم کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری صبرکے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھنے
کی اسٹوری ہے ۔ یہ اسٹوری ناکامی سے کامیابی نچوڑنے کی اسٹوری ہے۔ یہ اسٹوری بتاتی
ہے کہ آدمی کہیں بھی ہو، کسی بھی حال میں ہو، اسے خدا وند پر ہرحال میں بھروسہ رکھنا
چاہئے اسے کسی بھی حال میں امید کا دامن
نہیں چھوڑنا ہے۔
یوسف کا قصہ
کنعان کا یہ ننھا سا لڑکا یوسف اپنے باپ یعقوب کے
دل کی دھڑکن ہے، اوراسی لئے اس کے بھائی اس سے حسد کرتے ہیں۔ یوسف ایک خواب دیکھتا
ہے، یہ خواب اسے اپنے باپ کی نظروں میں اورمحبوب بنا دیتا ہے۔ یوسف کے بھائی
جارحیت پراترآتے ہیں اوروہ اسےجنگل کےاندھیرے کوئیں میں مرنے کے لئے دھکیل دیتے
ہیں۔ یوسف مدین سے مصر جانے والے قافلہ کے ہاتھ لگ جاتاہے، پھرمصر کے بازارمیں
غلام کی حیثیت سے فروخت کیا جا تا ہے۔ یہاں یوسف کوعزیرکے گھرمیں بیٹا بنا کررکھا
جا تا ہے، اسی گھرمیں وہ عزیز کی بیوی زلیخا کے مکرکا شکارہوتا ہے جبکہ وہ یوسف کواندھیرے
کمرے میں بند کرلیتی ہے اورکہتی ہے کہ آجا۔ یوسف معاذ اللہ کہتے ہوئے بھاگ کھڑاہوتا
ہے۔ اب زلیخہ اور مصر کے اونچے گھرانے کی عورتیں اپنی چال چلتی ہیں اور یوسف کو جیل
میں بندکراد یتی ہیں ۔ جیل میں دوقید یوں کے خواب کا واقعہ پیش آتا ہے اوریوسف ان
کے خواب کی سچی تعبیربتا دیتے ہیں۔ اب مصرکے بادشاہ کے خواب دیکھنےکا واقعہ پیش
آتا ہے۔ بادشاہ کو یوسف کے بارے میں علم ہوتا ہے اوروہ یوسف سےاپنا خواب بیان کرتا
ہے۔ یوسف خواب کی تعبیربیان کرکے بادشاہ کو مشکل حالات سے بچائو کی ترکیب بتا تا
ہے۔ بادشاہ یوسف کےعلم سے بہت زیادہ متاثرہوتا ہے اور انھیں اپنے خزانے کا مالک
بنا دیتا ہے۔
یوسف کی بردباری
کنعان کے یعقوب کا ننھا سا لڑکا نشیب و فرازکی
مختلف راہوں سے گزرتاہوا،ایک طویل سفرکے بعد مصرکاعملاً بادشاہ بن جا تا ہے
اوراپنے بھائیوں کی جارحیت کو یکطرفہ طورپرمعاف کردیتا ہے، یوسف کی خیر خواہی سے متاثر
ہوکراس کے سارے برادران اس کے آگے جھک جاتے ہیں۔ اس طرح یوسف کا وہ خواب پورا ہوتا
ہے جسے انھوں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورہ یوسف۔
اسٹوری کا خاتمہ
اس بہترین اسٹوری کا خاتمہ قرآن کے بیان کےمطابق
ان الفاظ پرہوتاہے۔
" اے میرے پروردگارتونے مجھے ملک عطا
فرمایا، اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلا ئی ، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے
والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی اورکارساز ہے، تو میرا خا تمہ اسلام پر کر اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔" (12:101)
یوسف کی زبان پرشکراور دعا کے یہ الفاظ کس طرح جاری
ہوئے؟ یوسف نے اپنے دماغ کو بہت زیادہ متحرک کیا۔ انھوں نے سوچا کہ وہ کس طرح بچپن میں عام
بچوں کی طرح کنعان میں اپنے گھرمیں اپنے گیارہ بھائیوں اوروالدین کے ساتھ رہا کرتے
تھے ، پھرخواب دیکھنے کا واقعہ پیش آیا، باپ نے یہ خواب بھائیوں کوبتانے سے منع
کردیا۔ پھر بھائی غضبناک ہوگئے اورانھوں نے جنگل کے ایک کوئیں میں مرنے کے لئے دھکیل
دیا۔ وہ تین دن تک اسی تاریک کوئیں میں پڑے رہے، پھر قافلہ والوں نے انھیں مصر کے
بازارمیں فروخت کردیا پھرزلیخہ کا سامنا ہوا اورجیل جا نا پڑا، پھرقیدیوں نے خواب
دیکھا اورپھر بادشاہ کے خواب کا واقعہ پیش آیا۔ بادشاہ اپنے خواب کی تعبیرسن کرخوش
ہوااوراس نے انھیں مصرکاعملاً بادشاہ بنا دیا۔ یہ سب سوچ کر یوسف کے دل و دماغ میں
ایک ابال پیدا ہوگیا اور یہی ابال مذ کورہ دعا اورشکرکی شکل میں آپ کی زبان سے
جاری ہوگیا۔
یوسف کوکنعان سے مصرتک پہنچنےمیں ایک زمانہ لگا
تھا لیکن یوسف نے ایک ایک واقعہ کوچن چن کر یاد کیا۔ یوسف نے کنعان سے مصرتک کے سفرکی
تمام مصائب کو سوچا۔ دوسرے لفظوں میں
انھوں نے شکر کے ایک ایک آئٹم کو دریافت کیا اورجب مائنڈ بہت زیادہ ایکٹیو ہو گیا تو
آپ کی زبان پردعا اورشکرکے وہ الفاظ جاری ہوگئے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا
ہے۔" انت ولی فی الدنیا والآخرۃ " یعنی ' تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا
والی اور مددگار ہے، تونے مجھے ملک عطا فرمایا اور مجھے خواب کی تعبیر سکھائی'۔
خدا وند کا مطلوب انسان
یہ واقعہ بتا رہا ہےکہ خدا وند زمین پرکیسا
انسان چاہتا ہے۔ وہ زمین پرتفکیری انسان دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ ایسا انسان دیکھنا
چاہتا ہے جواپنے دماغ کو ہمیشہ متحرک رکھے۔ خدا وند چاہتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے
دماغ کو ایکٹیویٹ کرتا رہے اورکائنات میں پھیلے شکر کے ایک ایک آئٹم کو دریافت کرے
تاکہ اس کا سارا وجود ربانی شکرکے احساس میں نہاجائے۔
شکرکے آئٹم کی دریافت
یوسف کے قصہ کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جسے ہم نے "شکرکے آئٹم کی دریافت" کا نام دیا ہے۔
معروف نغمہ نگاراورسماجی کارکن جاوید اخترنےاپنے ایک حالیہ ٹیوٹ میں یہ
الفاظ لکھے تھے:
I am against "faith"
because it needs total surrender of mind”
یعنی میں ایمان کے خلاف ہوں کیوں کہ ایمان کا
تقاضا یہ ہے کہ پورے دماغ کو سرینڈر کردیا جائے۔
میں نےاس کے جواب میں انھیں لکھا:
Faith is not about total surrender
of mind, it is about total use of mind
یعنی ایمان کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ آپ
اپنے پورے دماغ کوسرینڈرکردیں۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے"دماغ کا بھرپور
استعمال" کریں۔ ایمان آپ کے دماغ کا پورا استعمال چاہتا ہےناکہ پورا سرینڈر۔
میرا جواب دیکھ کرانھوں نے اپنے ٹیوٹ کو ڈلیٹ کردیا۔
خدا کا دین
انسان سے 'ٹوٹل یوزآف مائنڈ' چاہتا ہے، لیکن انسان ہے کہ وہ اس کی قیمت
چکانےکےلئےتیارنہیں۔ وہ کسی بھی حال میں سوچنا نہیں چاہتا اوراسی لئے اسے شکرکا
کوئی آئٹم بھی دریافت نہیں ہوپاتا۔
ہرانسان کی
زندگی میں شکرکے بے پناہ آئٹم ہوتے ہیں۔ ہرانسان کنعان سے مصر کا سفرکرتا ہے، لیکن
یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اس میں یوسف بہت کم بن پاتے ہیں زیادہ تر لوگ فرعون اور
شداد بنے رہتے ہیں۔
انسانی زندگی
میں شکر کے آئٹم
انسانی زندگی
میں شکرکےبے پناہ آئٹم موجود ہوتے ہیں۔ یہ آئٹم انسان پراس وقت کھلتے ہیں جب کہ
انسان دماغ کوکام میں لاکراس پر بہت زیادہ غوروخوض کرے۔ مثلاً انسان معجزاتی ڈھنگ
سے پیدا ہواہے وہ سوچے کہ ماں کے پیٹ میں کس طرح اس کی صورت گری ہوئی ۔ انسان معجزاتی
اندازمیں بولتا ہے، وہ سوچے کہ کس طرح زمین پراس کا بولنا ممکن ہورہاہے، وہ سوچے
کہ جب وہ پیدا ہوا تھا توکتنا کمزورتھا پھررفتہ رفتہ کس طرح وہ طاقت والا بن گیا۔ وہ
سوچے کہ درختوں سے اسے پھل، خوشبو، پھول اورآکسیجن حاصل ہوتے ہیں، حالانکہ سارے درخت ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں
اورسب پرمختلف رنگ کے پھول اور پھل آتے ہیں۔ زمین پر یہ حیران کن واقعہ کس طرح پیش
آرہا ہے۔ وہ سوچے کہ خدا وند زمین وآسمان
کو سرگرم عمل کرکےاس کے لئے کس طرح آب و ہوا اورآکسیجن کا انتظام کررہا ہے۔ جب انسان اپنے
مائنڈ کو بہت زیادہ ایکٹیویٹ کرے گا تووہ اپنی زبان پربھی شکراوردعا کے وہی الفاظ
پائے گا جو یوسف کی زبان پرعالم بے تابی میں جاری ہو گئے تھے۔
بھت خوب، اچھی فکر اور عمدہ سوچ، اللہ مزید بال و پر عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ، جناب آپ کی اللہ تعالی کے سامنے عاجزی آپ کے الفاظ میں جھلکتی ہے۔۔ جزاک اللہ۔۔ آپ اسلام کے مجاہد ہیں، وہ مجاہد جو ''قلم'' سے جہاد کر رہا،،
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
جواب دیںحذف کریں