پیر، 25 نومبر، 2013

Too much politics is harming Indian Muslims


ہندوستانی مسلمان حد سے زیادہ سیاسی انہماک کی قیمت چکا رہے ہیں

محمد آصف ریاض
بدرالدین طیب جی (1906-1844) کانگریس کے پہلے مسلم صدرتھے۔ آپ کا تعلق ممبئی کے ایک با اثرمسلم گھرانے سے تھا۔ آپ 1887 میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدرمنتخب ہوئے۔ 1895 میں طیب جی نے کانگریس اوردیگرتمام سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیارکر لی کیونکہ اس سال وہ ممبئی ہائی کورٹ کے جج بنا دئے گئے تھے۔ طیب جی مسلمانوں کی تعلیمی اورسماجی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔  ممبئی میں انجمن اسلام کا قیام ان کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھاجاتاہے۔
زندگی کے آخری ایام میں انھیں یہ دیکھ کر وحشت ہونے لگی تھی کہ پورا ہندوستان تعلیمی، معاشی اور سماجی میدان کو چھوڑکرسیاسی میدان میں اترآیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
"مجھے یہ دیکھ کر وحشت سی محسوس ہونے لگتی ہے کہ ہندوستان کے نوجوانوں نے اپنی توجہات کو خالصتاً سیاست پر مرکوز کردیا ہے اور انھیں تعلیم اور سماجی اصلاح کی زیادہ  پرواہ  نہیں ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری بہتری اور ترقی اس امر میں پو شیدہ نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہات کو ایک ہی سمت میں مرکوز کردیں ۔ ہمیں تو چاہئے کہ آج ہم جتنی محنت اپنی سیاسی حالت کو سدھارنے کے لئے کر رہے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ اتنی ہی محنت اپنی تعلیمی اورسماجی حالت کوسدھارنے کے لئے بھی کریں۔ اگر ہمارے ہم وطنوں کی بہت بڑی تعداد جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی رہے تو خواہ ہم مل جل کر ایک نمائندہ  قسم کی حکومت کے لئے کتنی ہی جد جہد کیوں نہ کرلیں اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔"
) ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج ، ڈاکٹر رفیق زکریا، صفحہ 464 (
بدرالدین طیب جی ایک دانا اوردور اندیش لیڈرتھے۔ انھوں نے اپنی دور اندیشی سے سمجھ لیا تھا کہ ہندوستانی قوم سیاست میں حد سے زیادہ انہماک کی وجہ سے زندگی کے دوسرے میدان میں بری طرح پچھڑ جائے گی اور واقعتاً وہی ہوا۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ آزادی کے ساٹھ سال بعد بھی ہم یہ اعلان کررہے کہ 26 روپے کمانے والا غریب نہیں ہے اور حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ ہمیں اپنی ساٹھ فیصد آبادی کو رائٹ ٹو فوڈ دینا پڑرہا ہے۔
اب تاریخ سے ایک مثال لیجئے۔ ہندوستان کی آزاد ی کے بہت بعد جاپان امریکہ کی غلامی سے آزاد ہوا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جاپان دنیا کے بازار پر چھا گیا اورامریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کرابھرا۔ یہاں تک کہ امریکہ میں اس طرح کی کتابیں نظرآنے لگیں کہ کیا امریکہ جاپان کے پاکٹ میں ہے؟
Is America in Japan's pocket?
جاپان ہندوستان سے آگے کیوں نکل گیا ؟ کیونکہ جاپانی سیاست میں اس طرح منہمک نہیں ہوئے جس طرح ہندوستانی منہمک نظر آتے ہیں۔ جاپانیوں نے اپنی توانائی کو سیاست کے بجائے معیشت اورتعلیم کے فروغ پرصرف کیااورنتیجہ کار کامیاب ہوئے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ
ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اورتعلیمی حالت پر سروے کرنے والی سچرکمیٹی ،اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کرتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان تعلیمی، معاشی، سماجی اورحفظان صحت کے میدان میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں۔ یہ کیوں ہوا؟ کیا یہ حکومت نے کرادیا؟ نہیں، ہرگزنہیں۔
کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں کہ وہ اپنے ہی ملک کو پیچھے لے جائے۔ یہ اس لئے ہوا کیوں کہ ہندوستانی مسلمانوں نے بحیثیت قوم اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا۔ نیز یہ کہ وہ حد سے زیادہ سیاست میں منہمک ہوگئے۔ ان کا حال یہ ہے کہ ان کا پڑھا لکھا بھی سیاست میں سرگرم ہے اور جاہل بھی۔ ان کے سیکولرلوگ بھی سیاسی دھوم مچا رہے ہیں اورمذہبی لوگ بھی۔ ان کے مالدار لوگ بھی سیاست کے میدان میں اتر آئے ہیں اورفقرا بھی ۔ مسلمانوں میں جسے بھی دیکھئے ہر ایک کسی نہ کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہے اور یہی ان کی بربادی کا سبب ہے۔
اب میں آپ کو آج کی دنیا سے ایک مثال دوں گا جس سے پتہ چل جائے گا کہ سیاست میں حد سے زیادہ انہماک کس قدر خطرناک ہوتاہے۔

سید شہاب الدین (پیدائش 1935 ) ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان ایک بڑا سیاسی نام ہے۔ وہ کئی بڑے عہدے پر فائز رہے اور رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے۔ وہ شاہ بانو کیس اور بابری مسجد شہادت کے معاملہ میں ہندوستانی مسلمانوں کے ہیرو بن گئے اور پھر پوری طرح سیاست میں غرق ہوگئے۔ سیاست میں حد سے زیادہ انہماک کی وجہ سے وہ کوئی سماجی، معاشی یا تعلیمی کام انجام نہیں دے سکے۔ ان کی پوری توانائی محض سیاسی شورشرابے میں صرف ہو گئی۔ وہ قوم کو کوئی ایسی چیز نہ دے سکے جو قوم کے لئے کار آمد ہو۔ وہ خود بھی مایوس ہوئے اور قوم بھی ان سے مایوس ہوئی۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ سیاست میں حد سے زیادہ منہمک ہوگئے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے پچھڑنے کا سبب بھی یہی ہے یعنی  سیاست میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں