جمعہ، 29 نومبر، 2013

Stone walls do not a prison make, No iron bars a cage,


اگر میری محبت اور میرا دل آزاد ہے، تو سمجھو کہ میں آزاد ہوں!


محمد آصف ریاض

ریچرڈ لوئس (1657-1618) سترہویں صدی کا معروف انگریزی شاعرتھا۔ اسے آج سے تقریباً ڈھائی سوسال قبل جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا تھا۔ وہاں اس نے وہ شاہکار نظم تحریر کی جو پوری انگریزی دنیا میں دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگئی۔ اس نظم کا ایک بند یہ ہے:

پتھر کی دیواریں جیل خانے تعمیر نہیں کرتیں،
اور نہ ہی لوہے سے قفس تیار ہوتےہیں،
نیکوکار اور پاکیزہ صفت انسان اسے راہبوں کی کٹیا سمجھتے ہیں،
اگرمیری محبت اور میرا دل آزاد ہے تو سمجھو میں آزاد ہوں،
لیکن اس طرح کی آزادی سے صرف آسمان کے فرشتے ہی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

Stone walls do not a prison make,
No iron bars a cage,
The spotless mind, and innocent,
Calls that a hermitage,
If i have freedom in my love,
And in my soul am free,
Angels alone that are above,
Enjoy such liberty.

میں لوئس کی اس بات کو درست سمجھتا ہوں۔ خدا وند نے جب اس دنیا کی تخلیق کی تو کہیں کوئی دیوارتعمیر نہیں کی اور نہ ہی کوئی قید خانہ تعمیر کیا۔ اس نے آنسان کو آزاد پیدا کیا اور پوردی دنیا کواس کے لئے پھیلا دیا۔ تاہم انسان نے پتھر کے بڑے بڑے جیل خانے تعمیر کئے اور انسانی جانوں کو اس میں مقید کردیا۔ انسان نے لوہے کی زنجیریں بنائیں اور انسانیت کو اس میں جکڑ دیا، اس حقیقت کے با وجود کہ خدا وند نے انسان کو آزاد پیدا کیا تھا۔

خلیفہ دوم حضرت عمر نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ تاریخی جملہ کہا تھا جو تاریخ کی کتابوں میں آج بھی ان الفاظ میں محفوظ ہے: " تم نے کب سے انسانوں کوغلام بنا لیا حالانکہ ان کی مائوں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔"
حضرت عمر کے اس قول کی بازگشت جین جیکس روسو(1778-1712) کے اس قول میں ہزار سالوں کے بعد سنی گئی:

"انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن ہر طرف وہ زنجیروں ميں جکڑا ہوا ہے۔"


Man is born free; and everywhere he is in chains
حقیقت یہ کہ خدا وند نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ لیکن انسان ہے کہ وہ زمین پر ایک دوسرے کو زنجیروں میں جکڑ رہا ہے اور بعض کو پس زنداں کر دیتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا میں کوئی زنجیر ایسی نہیں جو حقیقی انسان کو جکڑ لے، اور کوئی دیوارایسی نہیں جو کسی زندہ دل انسان سے اس کی آزادی کو چھین لے۔

آزادی اور غلامی در حقیقت دل کی آزادی اورغلامی کا نام ہے۔ دل آزاد ہے تو انسان آزاد ہے اور دل غلام ہے تو انسان غلام۔ دل کی طاقت کا نام آزادی ہے اور دل کی کمزوری کا نام غلامی۔ یہی وہ بات ہے جسے لوئس نے ان الفاظ میں سمجھا نے کی کوشش کی ہے۔:
" اگرمیری محبت اور میرا دل آزاد ہے تو سمجھو میں آزاد ہوں،"

1 تبصرہ:

  1. " تم نے کب سے انسانوں کوغلام بنا لیا حالانکہ ان کی مائوں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔"

    دل آزاد ہے تو انسان آزاد ہے اور دل غلام ہے تو انسان غلام۔ دل کی طاقت کا نام آزادی ہے اور دل کی کمزوری کا نام غلامی۔

    Bahut Khub

    جواب دیںحذف کریں