پرستش اورموت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال 632ء میں مدینہ میں ہوا۔ آپ کے انتقال سے اصحاب میں اضطراب پھیل گیا۔ حضرت
عمرکاحال یہ تھا کہ آپ عالم وارفتگی میں فرماتے تھے کہ پیغمبراسلام کوموت نہیں آسکتی ۔ حضرت ابو بکرنے جب اس صورت
حال کو دیکھا تو فرما یا عمر تم بیٹھ جاﺅ۔ لیکن جب عمر نے کچھ خیال نہیں کیا تو آپ الگ
کھڑے ہوکرخود ہی تقریرکرنے لگے۔ جیسے ہی آپ نے اپنی تقریرشروع کی سارا مجمع آپ کی طرف
ہمہ تن گوش ہوگیا اور حضرت عمر تنہا رہ گئے۔
آپ نے فرمایا”اگر لوگ محمد کی پرستش کرتے تھے تو
بے شک وہ مر گئے اوراگر خدا کو پوجتے تھے تو بلا شبہ خدا وند زندہ ہے اوراسے کبھی
موت نہیں آئے گی۔ پھرآپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی محمد صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے
بہت سے رسول گزرچکے ہیں۔“
یہ تقریراتنی موثرتھی کہ ہرایک کا دل مطمئن ہوگیا،خصوصاً
جو آیت آپ نے تلاوت کی وہ ایسی با موقع تھی کہ اسی وقت زبان زدخاص وعام ہوگئی۔ حضرت
عبداللہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم لوگوں کوایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت پہلے نازل
ہی نہیں ہو ئی تھی۔
دیکھئے( بخاری باب مرض النبوی ووفاتہ)حضرت ابو بکر
کے الفاظ یہ تھے: فمن کان یعبد محمدا فان محمدا قدمات
یعنی جو محمد کی پرستش کرتے تھے وہ جان لیں کہ محمد
مر گئے۔ حضرت ابو بکر نے اس نازک موقع پرصحابہ کرام کے سامنے دو نہایت سخت قسم کے الفاظ
استعمال کئے۔ پہلا لفظ تھا ”پرستش“ دوسرا لفظ ”موت"۔ آپ نے فرما یا جو لوگ محمد
کی پرستش کرتے تھے تو جان لیں کہ محمد مر گئے۔ حالانکہ اس وقت صحابہ کی جماعت میں کوئی
ایسا نہیں تھا جو کہ محمد کی پرستش کرتا ہو جیسا کہ آج کل دیکھنے کو ملتا ہے۔
حضرت ابو بکر کے یہ سخت الفاظ بتاتے ہیں کہ جب صورت
حال نازک ہوجائے تو ضروری ہوجا تا ہے کہ لوگوں کے درمیان سے کوئی صالح اوردانا شخص
اٹھے اوروہ لوگوں کے ساتھ اسٹوننگ کا معاملہ کرے۔ وہ ایسے سخت الفاظ استعمال کرے جو
ایک ہی بار میں سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلے۔ وہ حق کو اس انداز میں پیش کرے کہ
اس کے بعد حق کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
صحابہ کرام کے سامنے یہودونصاریٰ کے تجربات تھے۔
انھوں نے انھیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا ، جیسے ہی حضرت ابوبکر نے لوگوں کی توجہ
اس جانب مبذول کرائی، صحابہ کرام کو بات فوراً سمجھ میں آگئی اور وہ اس طرح سرد ہوگئے
جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
یہ صحابہ کا گروہ تھا؛ اب آپ آج کے مسلمانوں کو
دیکھئے۔ ایک صاحب حضرت علی کو مشکل کشا بتا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں
اور لوگوں کی پکار پر مشکل کشائی کے لئے آتے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ تو چودہ
سو سال پہلے کی بات ہے جب وہ زندہ تھے اب تو وہ مر گئے ہیں۔
لفظ "مرنا " ان پربہت شاک گزرا۔ وہ ایک
دم سے بھڑ ک اٹھے اور لڑنے بھڑنے پرتیارہوگئے۔ وہ اس طرح پیش آئے جیسے ہم نے لفظ موت
کا استعمال نہ کیا بلکہ واقعتاً ان کے کسی زندہ کو مار دیا۔ عجیب بات ہے کہ صحابہ جس
لفظ پرسرد پڑجاتے تھے آج عین اسی لفظ پرمسلمان بھڑک اٹھتے ہیں.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں