جو تیزی سے آگے بڑھتا ہے اس کے گرنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے
محمد آصف ریاض
پندرہ فروری کو دہلی کے پرگتی میدان کتاب میلہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔
میلہ سے ہم نے چند کتابیں خرید یں۔ گھر واپسی میں دیرہوگئی۔ رات نو بجے گھر واپس آیا۔ رات بھر بیٹھ کر کتابوں
کو پڑھتارہا۔ صبح کے وقت نیند آگئی۔ دوسرے روز اٹھا تو آفس
جاناتھا چنانچہ نہادھوکرآفس کے لئے روانہ ہوگیا۔ صبح سرمیں درد شروع ہوا اور شام تک
درد کے ساتھ بخار آگیا۔ آفس سے لوٹ کر دوائیں لیں اور پھر بستر پر آرام کر نے کے لئے چلا گیا۔
سر میں درد بہت شدید تھا اور بخار بھی آگیا تھا چنانچہ اس رات میں کچھ پڑھ نہیں سکا۔
صبح جب سوکر اٹھا تو کچھ افاقہ ہوا لیکن پھربھی کمزوری اتنی تھی کہ جسم پڑھنے کی اجازت
نہیں دے رہا تھا چنانچہ صبح میں بھی کچھ نہیں پڑھ سکا۔ اسی طرح
ہم نے ایک رات کی محنت کی وجہ سے کئی رات کی پڑھائی کو کھو دیا۔
اس تجربے سے گزر کر مجھے کسی دانشور کا یہ قول یاد آگیا ” یہ ممکن ہے
کہ آپ ایک گھنٹہ بہت تیزی سے اپنی زندگی کا سفر طے کرلیں لیکن اس کے ساتھ اس بات کا
خدشہ لگا رہتا ہے کہ آپ اپنے ایک گھنٹے کی رفتار اور تیزی کی وجہ سے اپنا ایک ہفتہ
کھودیں"۔
میں نے تجربے کی بنیاد پرجانا کہ آدمی کو کسی قسم کا فیصلہ لینے سے پہلے
اپنی توانائی کاجائزہ لے لینا چاہئے۔ اگرآدمی ایسا نہ کرے تو اس کے لئے یہ ممکن ہے
کہ وہ ایک دن بہت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے اور دوسرے دن کسی کام کے لائق نہ رہے۔
ولیم شیکسپیئر نے اس بات کو ان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی تھی:
Wisely, and slow. they stumble that run fast
"دانائی کے ساتھ رفتہ رفتہ آگے بڑھو، جان لو
کہ جو تیزی سے آگے بڑھتا ہے اس کے گرنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔"
بچے رفتہ رفتہ بولنا سیکھتے ہیں ، پرندے رفتہ رفتہ اڑنا سیکھتے ہیں، پودے
رفتہ رفتہ تناور درخت میں تبدیل ہوتے ہیں، یہ نیچر کا سبق ہے اور کوئی بھی شخص نیچر
کے خلاف جاکر کامیاب نہیں ہو سکتا.
Beshak
جواب دیںحذف کریں