منگل، 18 فروری، 2014

World of opportunities

امکانات کی دنیا

محمد آصف ریاض
دورجہالت کے ایک عرب شاعر نے اپنے بیٹے کی تعریف کر تے ہو ئے لکھا ہے کہ ’ میرا بیٹا کو ئی جا دو ئی طاقت لے کر پیدا نہیں ہوا، پھر بھی وہ لو گوں کے بیچ ہیرو بنا رہتا ہے ۔ وہ کوئی فو جی کمانڈر نہیں ہے، پھر بھی لو گ اس سے خوف کھا تے ہیں۔ وہ کوئی معجزہ لے کر پیدا نہیں ہوا، پھر بھی لوگ اسے پیغمبر سمجھتے ہیں ۔ میرے بیٹے میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ابھی اس پر ایک دروازہ بند نہیں ہو تا کہ وہ اپنے لئے دوسرا دروازہ کھول لیتا ہے، ابھی اس کا ایک راستہ بند نہیں ہو تا کہ وہ اپنے لئے دوسرا راستہ تلاش کرلیتا ہے، ابھی اس پر ایک ندی بند نہیں ہو تی کہ وہ اپنے لئے ایک دوسرا سمندرتلاش کر لیتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ دنیا امکا نات کی دنیا ہے۔ خدا کی اس زمین پر بے پناہ امکانات پا ئے جا تے ہیں ۔ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق یہاں ہرعسرکے ساتھ یسر پا یا جا تا ہے، یہاں ہر مشکل کے ساتھ آسانی پائی جا تی ہے ۔ یہاں ہر ناکا می کے ساتھ کامیابی پائی جاتی ہے، یہاں ہر شر کے ساتھ خیر پا یا جا تا ہے۔ یہاں ایک راستہ بند نہیں ہو تا کہ دوسراراستہ کھل جا تا ہے، یہاں ایک دروازہ بند نہیں ہو تا کہ دوسرا دروازہ کھل جا تا ہے ۔ یہاں ایک چیز ہاتھ سے نکلتی نہیں کہ دوسری چیز ہاتھوں میں چلی آ تی ہے ۔
لیکن یہ کن لو گوں کے ساتھ ہو تا ہے؟ یہ صرف ان لو گوں کے ساتھ ہو تا ہے جو خدا کے تخلیقی نقشے کو جانتے ہیں۔ جو خدا کی زمین پر پھیلے امکانات کا ادراک کر لیتے ہیں ،جوعسرمیں چھپے یسر کو پا لیتے ہیں ۔قران میں کہا گیا ہے:
 فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسرا‘ ( پس ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ، پس ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے)
قران کی اس آیت میں امکا نات کو بتا یا گیا ہے ۔ یعنی ہر مشکل کے ساتھ آسانی کا امکان ہے ۔ ہر لڑائی کے ساتھ صلح کا امکان ہے ۔ ہر دشمنی کے ساتھ دوستی کا امکان ہے۔ ہر ہنگامہ آرائی کے ساتھ امن کا امکان ہے۔ ہر کھونے کے ساتھ پا نے کا امکان ہے۔ ہرشر کے ساتھ خیر کا امکان ہے۔ یہاں ہر دشمن میں دوستی کی صلاحیت امکانی طورپرموجود رہتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ یہاں ہرمشکل اپنے ساتھ آسانی لے کر آتی ہے ۔ یہاں ہرنا کامی اپنے ساتھ کا میابی لے کرآتی ہے ۔ لیکن اس کا ادراک صرف ان لو گوں کو ہو تا ہے جو چیزوں کو امکانات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ جو چیزوں کے خارجی امور پر نگاہ رکھنے کے بجائے چیزوں کے باطنی امور پر نگاہ رکھتے ہیں ۔ جو باہردیکھنے کے بجائے اندر دیکھنا پسند کر تے ہیں۔
 آج سے ہزاروں سال قبل۔ خدا کے پیغمبر حضرت یوسف کے ساتھ ایک افسوسناک واقعہ ہوا۔ زلیخا کے ساتھ مبینہ رشتے کے الزام میں آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا۔ یو سف کے لئے بظاہر یہ ایک مشکل گھڑی تھی لیکن اسی مشکل سے ان کے لئے وہ آسانیاں نکل آئیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ ہوا یوں کہ اللہ کے پیغمبرنے جیل میں بند قیدیوں کو خواب کی تعبیر بتا ئی ان قیدیوں میں ایک بادشاہ کا بہت قریبی تھا، اس نے جیل سے نکلنے کے بعد بادشاہ سے یو سف کا ذکر کیا۔ بادشاہ نے یو سف کو اپنے دربار میں طلب کیا ۔ وہ یو سف کی صلاحیت سے اس قدر متا ثر ہو ا کہ اس نے یو سف کو اپنا قائم مقام مقرر کر دیا۔
 کتنی حیران کن بات ہے کہ ایک واقعہ جو اپنے آغاز کے لحاظ سے زحمت تھا، اپنے انجام پر پہنچ کر سراپا رحمت بن گیا۔ یو سف کے لئے ، جیل خانہ مصر کی بادشاہت تک پہنچنے کا سبب بن گیا۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ مشکلات سے گھبرائے نہیں بلکہ وہ مشکلات کے ساتھ نباہ کر نا سیکھے۔ آدمی یہ جانے کہ ایک واقعہ ابتدا کے لحاظ سے مشکل اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے، تا ہم اس کا امکان ہمیشہ با قی رہتا ہے کہ وہ واقعہ اپنے اختتام پر پہنچ کر آسانیوں میں تبدیل ہو جائے۔ تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
ہندوستان میں جب انگریز آئے تو انھوں نے سفر کو آسان بنا نے کے لئے ریل کی پٹریاں بچھائیں ۔ گور جنرل آف انڈیا لارڈ ہارڈینج نے ہندوستان میں ریلوے کی منصوبہ بندی کی۔ ہندوستان میں سب سے پہلی پسنجر ٹرین 16اپریل 1853 میں ممبئی اورتھانے کے درمیان چلائی گئی ۔ یہ واقع ہندوستانیوں کے لئے کا فی تکلیف دہ تھا۔ انگریز ٹرین کے ذریعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو تقویت پہنچا رہے تھے۔ وہ ہندوستان کے خام مواد کو برطانیہ بھیج رہے تھے ۔ وہ ملک کے قدرتی وسائل کو لوٹ رہے تھے ۔ ملک کے با شندوں کے لئے یہ ایک مشکل گھڑی تھی لیکن اسی مشکل سے وہ آسانیاں نکل آئیں جھنوں نے ہندوستانی ریلوے میں انقلاب برپا کر دیا۔
اسی طرح جب انگریز ہندوستان آئے تو انھوں یہاں اپنی زبان انگریزی کو فروغ دی۔ یہ بات ملک کے باشندوں کے لئے نہایت افسوسناک تھی۔انگریزوں کے اس عمل کو ملک کی زبان اور تہذیب ثقافت پر حملہ قرار دیا گیا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ اسی مشکل سے وہ آسانیاں نکل آئیں جھنوں نے ہندوستان میں انقلاب برپا کر دیا۔ آج دنیا بھر میں ہندوستانی انگریزی کو برٹش انگریزی کا درجہ دیا جا تا ہے۔ آج اسی انگلش کی وجہ سے ملک کے نو جوان پو ری دنیا میں کا رہا ئے نما یاں انجام دے رہے ہیں۔ ملک کی جو قومیں اس زبان میں پچھڑ گئیں وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی پچھڑ گئیں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے انگریزوں کے اس عمل میں صرف شر کو دیکھا۔ انھوں نے اس شرمیں چھپے خیر کے پہلوﺅں کو نظر انداز کر دیا۔ جس کا خمیازہ آج پو ری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 

مضمون نگار " امکانات کی دنیا" مظفرنگرکیمپ میں" اور 'موت کے اس پار' نامی کتابوں کے مصنف ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں