جمعرات، 13 فروری، 2014

Wisdom plus


وزڈم پلس

محمد آصف ریاض
 حامد محسن نے اپنی کتاب 'غلط فہمیاں'   (Islam: facts vs. fiction)میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ معروف بوکسر محمد علی کا ہے۔ لکھا ہے کہ محمد علی جب اسلام میں داخل ہوئے تو ایک کرسچن جرنلسٹ نے ان سے پوچھا کہ مسٹرعلی آپ کو اس مذہب میں داخل ہوکرکیسا محسوس ہو رہا ہے جس میں اسامہ بن لادن بھی موجود ہیں۔ محمد علی نے تھوڑا توقف کے بعد جواب دیا نوجوان آپ کو اس مذہب میں رہ کر کیسا محسوس ہورہا ہے جس میں ہٹلر بھی ہے۔ محمد علی کا جواب سن کر وہ شخص چپ ہو گیا پھر اس نے مزید سوال نہیں کیا۔
 یہ پڑھ کر مجھے ایک عرب کی یاد آگئی ۔ مولانا وحید الدین خان نے اپنی ڈائری میں ایک عرب کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایک عالم تھا۔ وہ یوروپ کے سفر پر تھا۔ یوروپ میں ٹرین پرکسی کرسچن نے اس سے سوال کیا کہ مسلمانوں کے نزدیک ایک عورت بہت مقدس ہے حالانکہ اس پر بدکاری کا الزام لگا یا جا تا ہے۔ مولانا نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کس عورت کی بات کررہے ہیں؟ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک دو عورتیں بہت مقدس ہیں اور کچھ بد بخت دونوں پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں۔ ایک کا نام ہے مریم اوردوسرے کا نام ہے عائشہ۔ آپ ان میں سے کس کی بات کر رہے ہیں؟ یہ سن کر وہ شخص خاموش ہوگیا اور پھر پورے سفر میں خاموش رہا۔
مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ نئی دہلی میں سفر کے دوران میٹرو پر ایک ہندو ملا۔ بات چیت میں وہ کہنے لگا کہ مسلمان عورتوں کو بہت دباتے ہیں، وہ عورتوں کا احترام نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ مسلمانوں پر "لو جہاد"  کا الزام لگاتے ہیں اوراسی وقت یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمان عورتوں کا احترام نہیں کرتے تو یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں کس طرح سچ ہو سکتی ہیں؟ یا تو آپ کی پہلی بات صحیح ہے یا دوسری بات۔ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں صحیح نہیں ہو سکتیں۔ وہ شرمسار ہوئے اور خاموش ہوگئے۔
ایک سفر کے دوران میں نے ایک ہندو سے پوچھا کہ وہ مرنے کے بعد اپنے مردوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ  کیوں جلا دیتے ہیں؟ اس سوال کے لئے ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا تو کہنے لگے کہ انھیں پیوریفائی کیا جا تا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے پہلے ہندووں میں "ستی پرتھا" کا رواج تھا ۔ اگر کوئی شوہرمرجا تا تو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی زندہ جلا دیا جا تا تھا تو وہ کس قسم کا پیوری فیکیشن تھا؟ یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے۔
حالیہ دنوں سنگھ کے لیڈر نریندرمودی نے ایک انتخابی جلسے میں کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب کانگریس کو نشانہ بنا یا جا تا ہے تو وہ اپنے آپ کو سیکولرزم کے برقع میں چھپا لیتی ہے۔ اس کے جواب میں کانگریس کے ایک لیڈر اجئے ماکن نے جواب دیا کہ سیکولرزم کا برقع کمیونلزم کی برہنگی سے بہتر ہے۔
{The Burqa of secularism is much better than naked communalism}
کانگریس کے اس جواب کے بعد بی جے پی سمیت پورا سنگھ پریوارخاموش ہوگیا۔ اس ایشو پر انھوں نے پھر کچھ نہیں کہا۔
کبھی کسی معاملہ پر طویل گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی کسی معاملہ پر سیدھی بات ہی کافی ہوجاتی ہے۔ دانا آدمی کو حالات کے حساب سے فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کہاں اسے تفصیلی گفتگو کرنی ہے اور کہاں اسے سیدھی بات کہہ کر بات کو ختم کر دینا ہے۔ یہ کام صرف علم سے نہیں ہو سکتا اس کام کے لئے وزڈم پلس (wisdom plus) کی ضرورت ہوتی ہے۔
مضمون نگار"امکانات کی دنیا" 'مظفرنگر کیمپ میں' اور 'موت کے اس پار' کے مصنف ہیں
ان کی کتابوں کو پڑھنے کے لئے رابطہ کریں
9990431086

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں