جسمانی غذا اور روحانی غذا
محمد
آصف ریاض
asif343@gmail.com
گجرات
کے جام نگر میں ایک مچھوارا رہتا ہے۔ اس کا نام ابراہیم بھوراہے۔ کل تک وہ ایک غریب مچھواراتھا۔ لیکن پچھلے
دنوں معجزاتی طور پر وہ ایک کروڑ پتی انسان بن گیا۔ ہوا یوں کہ وہ حسب عادت سمندر میں
مچھلی مارنے کے لئے اترا۔ کرشماتی
طور پر ایک ہی بار میں اس کے جال میں 350 مچھلیاں آگئیں۔ اتنی مچھلیوں کو دیکھ کر وہ
بہت خوش ہوا اور انھیں عام قسم کی مچھلی سمجھ کر ساحل پر اتر آیا۔
یہاں پہنچ کر اسے پتہ چلا کہ جنھیں وہ عام مچھلیاں سمجھ رہا تھا وہ عام مچھلیاں نہ تھیں، بلکہ وہ ایک خاص قسم کی "گھول" مچھلیاں تھیں جو دوا بنانے اور تطہیر خمر یعنی (Wine purification ) کے کام آتی ہیں۔ ان مچھلیوں کو ہانگ کانگ اکسپورٹ کیا جا تا ہے۔
ساحل پر مقامی تاجروں نے بھورا کو بتا یا کہ اس نے گھولGhole}} نہیں پکڑا ہے بلکہ گولڈGold} } پکڑا ہے۔ مچھلی کی قیمت ایک کروڑ لگائی گئی اور ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہی کیچ (Catch) نے بھورا کو کروڑ پتی بنادیا ۔ ( ٹائمز آف انڈیا 27اپریل دہلی ایڈیشن}
یہاں پہنچ کر اسے پتہ چلا کہ جنھیں وہ عام مچھلیاں سمجھ رہا تھا وہ عام مچھلیاں نہ تھیں، بلکہ وہ ایک خاص قسم کی "گھول" مچھلیاں تھیں جو دوا بنانے اور تطہیر خمر یعنی (Wine purification ) کے کام آتی ہیں۔ ان مچھلیوں کو ہانگ کانگ اکسپورٹ کیا جا تا ہے۔
ساحل پر مقامی تاجروں نے بھورا کو بتا یا کہ اس نے گھولGhole}} نہیں پکڑا ہے بلکہ گولڈGold} } پکڑا ہے۔ مچھلی کی قیمت ایک کروڑ لگائی گئی اور ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہی کیچ (Catch) نے بھورا کو کروڑ پتی بنادیا ۔ ( ٹائمز آف انڈیا 27اپریل دہلی ایڈیشن}
اس خبر
میں ایک شخص کی مادی ترقی کا ذکر تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اس میں میرے لئے کیا ہے؟ ابھی
میں اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے پاس ایک فون آیا۔ یہ فون مصرEgypt} } سے تھا۔ مصر کی الازہر یونی ور سٹی کے ایک
طالبعلم "عباس مصباحی" نے یہ فون کیا تھا۔
"عباس مصباحی" اتر پر دیش کے ایک گاﺅں
کے رہنے والےہیں۔ وہ دو سال قبل دہلی میں رہا کرتے تھے۔ مختلف اخبارو رسائل میں میرے
مضامین پڑھ کر وہ بہت خوش ہوتے تھے اور کبھی کبھی مجھ سے ملنے آیا کرتے تھے۔ انھوں
نے الازہر سے فون کر کے مجھ سے میرا مضمون مانگا۔ وہ میرے مضامین کو عربی میں ترجمہ
کرکے مصر کے اخبارورسائل میں شائع کروانا چاہتے تھے۔ ان کے مطالبہ پر میں نے انھیں
اپنا ایک مضمون ای میل کردیا ۔
اس طرح
کے واقعات میرے ساتھ کئی بار پہلے بھی پیش آچکے ہیں۔ بعض لوگوں نے میرے مضامین کو انگریزی
اور بعض لوگوں نے تیلگو اور بعض لوگوں نے ہندی میں ترجمہ کئے ہیں۔ ان سب واقعات کو
جوڑ کر میں سوچنے لگا کہ خدا نے بھورا کو ایک کروڑ روپیہ دیا اور وہی خدا میرے مضامین
کو دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع کراکر مجھے کروڑوں لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔ جس خدائی
پیغام کو لے کر میں اٹھا ہوں میرے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں تنہا پوری دنیا میں
اسے عام کردوں۔ یہ سب خدا کی خصوصی نصرت سے ہی ممکن ہے اور خدا کی نصرت کے بغیر انسان
کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
خدا
اس دنیا میں کسی کو مالی طور پر بڑھا دیتا ہے اور کسی کوروحانی طور پر بڑھا دیتا ہے۔
وہ کسی کو جسمانی غذا فراہم کرتا ہے اور کسی کو روحانی غذا فراہم کرتا ہے۔ اور بلا
شبہ کسی بندہ خدا کے لئے خدا کا سب سے بڑا انعام یہ ہے
کہ اسے روحانی غذا میسر آجائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ" اللہ جب کسی کے لئے خیر کا
ارادہ فرما تا ہے تو اسے دین کی سمجھ دیدیتا ہے"۔ {صحیح بخاری}
یہی
وہ سمجھ ہے جسے ہم نے روحانی غذا { Spiritual food } سے تعبیر کیا ہے۔ خدا کے نزدیک پسندیدہ انسان وہ ہے جسے خدا کی طرف سے
برابر ربانی غذا حاصل ہوتی رہے۔ اور کسی انسان کو ربانی غذا اسی وقت ملتی ہے جب کہ
وہ بہت زیادہ سوچے۔ وہ یہ دیکھے کہ خدا نے اسے کس طرح پیدا کیا۔ اس نے کس طرح آسمان
کو اونچا اٹھا یااور کس طرح زمین کو بچھا دیا۔ اس نے کس طرح زمین کو پھاڑ کر سمند ر
بہا دیا۔ کس طرح رات ہوتی ہے اور دن نکل آتا ہے۔ کس طرح زمین پھاڑ کر شادابیاں نکل
آتی ہیں۔ جب کوئی بندہ خدا، خدا کی تخلیق اور اس کی نشانیوں پر بہت زیادہ غور کرے گا
تو اسے خدا کی طرف سے ربانی غذا کی صورت میں خصوصی انعام حاصل ہوگا ۔ اور کسی بندہ
خدا کے لئے یہی سب سے بڑا انعام ہے۔
انجیل
میں ہےکہ "اگر تمہارا بچہ تم سے روٹی کا ٹکرا مانگے تو کیا تم اسے پتھر کا ٹکرا
دے دوگے؟ اور اگر وہ تم سے مچھلی مانگے تو کیا تم اسے زہریلا سانپ دے دو گے؟ نہیں نا
! تو اگر تمہاری طرح گنہگار انسان اپنے بچوں کو تحفہ دینا جانتا ہے تو کیا تمہارا خداجو
تمہارا خالق ہے کیا وہ نہیں جانتا کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے اور اگر تم اس سے مانگو
گے تو کیا وہ تمہیں محروم کر دے گا ؟ نہیں، بات یہ ہے کہ تم بہت کم ایمان لاتے ہو۔"
بائبل
میں حضرت مسیح کے الفاظ اس طرح نقل کئے گئے ہیں:
(Ask and it will be given to you, seek and you will
find, knock, and it will be opened to you. For everyone who asks receives, and
he who seeks finds, and to him who knocks it is opened. And who is the man
among you whose son will ask him for bread and will hand him a stone? And if he
will ask him for a fish, will he hand him a snake?
So if you sinful people know how to give good gifts to
your children, how much more will your heavenly Father give good gifts to those
who ask him)
(Mathew)
Mashallah .... bahut umda soch-wo-fikr....... aur bhi haseen andaaz-e-bayaan...... keep it up, Asif Reyaz bhai............. I am also ONE OF YOUR CRORE READERS ...... and yes....., I am among the fortunate ones to read you in your original ''thinking'' language.
جواب دیںحذف کریں