دعا کیا ہے
محمد آصف ریاض
کل شب کو میں خوشونت سنگھ کی کتاب دی انڈ آف انڈیا (The end
of India)پڑھ رہا تھا۔ میں اس کے لاسٹ چیپٹرمیں تھا۔ میری بیٹی مدیحہ جو ابھی صرف دوسال
کی ہے وہ میرے پاس بیٹھی تھی۔ وہ پہلے مجھ سے "ابو" کہہ کر گویا ہوئی
لیکن چونکہ میں پڑھنے میں مصروف تھا،اسے نظر اندازکیا۔ اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر
اپنی طرف کھینچا اور پھر" ابو، ابو" کہہ کر مخاطب ہوئی اس بار بھی میں
نے اسے نظر اندازکیا۔
اب اس نے اپنا لہجہ بدل دیا۔ اب وہ "باپ" کہہ کر گویا ہوئی لیکن اس
بار بھی میں نے اسے نظر انداز کیا۔ اب اس نے ایک اور انداز اختیار کیا اور اس بار
وہ اس طرح مجھ سے مخاطب ہوئی۔ " آصف ریاض، آصف ریاض"---
اس باراس نے مجھے میرے نام سے پکاراتھا۔ اس بارمیں اسے نظر انداز نہیں کر سکا۔
میں ہنس پڑا اوراسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔
دعا کیا ہے؟
دعا کسی لگے بندھے الفاظ کی ادائیگی کانام نہیں ہے۔ خدا سے والہانہ احساسات و جذبات
کے اظہار کا نام ہے دعا۔ دعا یہ ہے کہ
آدمی اپنے رب کو ایک نام سے پکارے اور جب اس کی مراد پوری نہ ہوتو وہ اپنے رب کو
ایک اور انداز میں پکارے اور جب اس سے بھی اس کی مراد پوری نہ ہو تو اپنے رب کو
ایک اورانداز میں پکارے۔
حضرت آدم کی دعا کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:
"آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیں اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ
قبول فرمائی۔ وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔" }البقرہ {38
وہ دعا کیا تھی؟ قرآن میں یہ دعا اس طرح وارد ہوئی ہے: ان دونوں نے کہا اے
ہمارے رب، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ
کرے گا تو ہم یقیناً نقصان والے ہوجائیں گے۔"
ابن کثیر نے حضرت آدم کی دعا سے متعلق کئی روایات نقل کی ہیں۔ ان میں ایک
روایت اس طرح ہے۔
ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت آدم نے فرمایا کہ خدا یا، کیا تو نے مجھے اپنے
ہاتھ سے پیدا نہ کیا؟ اور مجھ میں اپنی روح نہ پھوکی؟ میرے چھینکنے پر یر حمک اللہ
نہ کہا؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہ لے گئی؟ کیا میری پیدائش سے قبل یہ خطا میری
تقدیر میں نہ لکھی تھی؟
جواب ملا ہاں۔ یہ سب میں نے کیا ہے، تو فرمایا خدا یا، میری توبہ قبول کر کے
مجھے پھر جنت مل سکتی ہے؟ جواب ملا ہاں۔ یہی وہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ
نے خدا سے سیکھ لیں۔
} تفسیر ابن کثیرصفحہ {103
دعا اپنے رب کے آگے آہ و زاری کا نام ہے۔ دعا اپنے رب کو اس انداز میں پکارنے
کا نام ہے کہ وہ اپنے بندے کو نظر انداز نہ کر سکے۔ دعاخدا کو اس کی پوری خدائی کے
ساتھ پکارنے کا نام ہے۔ دعا خدا کی رحمت کو پرووک (Provoke) کرنے کا
نام ہے۔
مجھے اپنا ایک تجربہ یاد آتا ہے؟ اس وقت میں بنارس میں رہتا تھا۔ ایک بار ایسا
ہوا کہ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ میں ظہر کی نمازپڑھ کرفا رغ ہوا تو خدا سے
اس طرح گویا ہوا۔
خدایا، تیرا بندہ آج بھوکا رہے گا کیونکہ تو نے آج اس کے لئے کھانے کا کوئی
انتظام نہیں کیا۔
نمازکے بعد میں مسجد سے نکل رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص پیچھے دوڑا
ہوا آتاہے۔ وہ اپنے بیٹے کی فیس جمع کرنے آرہا تھا۔ میں اس کے بیٹے کو پڑھا تا تھا
لیکن کئی ماہ سےاس نے ٹیوشن فیس جمع نہیں کیا تھا۔ نماز کے بعد اس نے مجھے ٹیوشن
فیس دیا۔
یہ ہے دعا۔ دعا یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کو اس والہانہ انداز میں پکارے کہ اس کا
رب اسے اگنور نہ کر سکے۔ خدا کے آگے مکمل خود سپردگی کانام ہےدعا۔ اسی لئے حدیث
میں دعا کو مخ العبادہ کہا گیا ہے۔
بائبل میں حضرت دائود کی دعا اس طرح نقل ہوئی ہے۔
خدا یا مجھے میرے دشمن سے نجات د ے، ان لوگوں سے میری حفاظت فرما جو میرے خلاف
کھڑے ہیں۔ مجھے بدکاروں سے نجات دے،اور خون کے پیاسوں سے میری حفاظت فرما۔ دیکھ
میرے معاملہ میں وہ کس طرح جھوٹ گڑھتے ہیں۔ یہ متشدد لوگ میرے خلاف سازش رچتے ہیں،حالانکہ
خدا یا، میں نے ان کا کچھ بگاڑا نہیں اور نہ ہی کوئی گناہ کیا۔ میں نے انھیں کوئی
نقصان نہیں پہنچا یا پھر بھی وہ مجھے مارنے کے لئے تیار ہیں۔ خدایا،آپ میری مدد کو
اٹھئے، مصیبت میں میری دستگیری کیجئے۔
Deliver me from my enemies, O God;
protect me from those who
rise up against me.
2Deliver me from evildoers
and save me from
bloodthirsty men.
3See how they lie in wait for me!
Fierce men conspire
against me
for no offense or sin of
mine, O Lord.
4I have done no wrong, yet they are
ready to attack me.
Arise to help me; look on my plight!
Psalm
59 –
New International Version 1984
Beautiful writting again.....
جواب دیںحذف کریں