جمعہ، 2 نومبر، 2012

A reference to God


کائنات : ایک خدائی ریفرنس
محمد آصف ریاض
 نیوٹن کو تلاش تھی پاور آف گریوی ٹیشن کی لیکن پا ور آف گریوی ٹیشن کسی کو نظر نہیں آسکتا تھا چنانچہ اسے کوئی پوائنٹ آف ریفرنس درکار تھا جو بتائے کہ گریوی ٹیشن ہے۔ چنانچہ وہ اس معاملہ پر بہت زیادہ سوچ رہا تھا تبھی ایسا ہوا کہ اس کے آگے ایک سیب گرگیا۔ اب اسے لگا کہ اس کے سوال کا جواب مل گیا۔ یعنی زمین میں پاور آف گریوی ٹیشن ہے،جس نے سیب کو اپنی طرف کھینچ لیا ۔اسی طرح اس نے ٹیلی اسکوپ سے اجرام سماوی کا مشاہدہ کیا تو پا یا کہ مون کے گرد سٹا لائٹ چکر کاٹ رہے ہیں۔ اور خود مون ارتھ کا چکر کاٹ رہا ۔ اسی طرح اس نے دیکھا کہ زمین سورج کے گرد ناچ رہی ہے اور سورج گلیکسی کے گرد چکر کاٹ رہا۔ یہ سب دیکھ کر اسے یقین آگیا کہ یونیورس میں پاور آف گریوی ٹیشن ہے۔ گریوی ٹیشن بذات خود کیا چیز ہے،اسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا البتہ اس کے  {  {Cause and effectکو دیکھ کریہ مان لیا گیا ہے کہ گریوی ٹیشن ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب’ وقت کی مختصر تاریخ {A brief history of time}
قوت کشش کیا ہے؟ اسے آج تک کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ قوت کشش کی صورت کیا ہوتی ہے ۔اس کی ماہیت کیا ہوتی ہے؟
 انسان قوت کشش کو نہیں دیکھ سکتا تھا تو خدا نے قوت کشش تک پہنچنے کے لئے انسان کو ایک پوائنٹ آف ریفرنس دیا۔ یعنی زمین کو سورج کے گرد نچایا اور چاند کو زمین کے گرد گردش کرایا۔
اسی طرح انسان خدا کو اپنی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتا تھا تو کوئی تو چیز ہوتی جو انسان کو خدا تک پہنچا نے کے لئے پوائنٹ آف ریفرنس کا کام کرتی۔ چنانچہ خدا نے یونیورس کی تخلیق کی ۔ اس نے انسانوں کو رہنے کے لئے زمین بنایا۔ درخت اگائے۔ نہریں جاری کیں۔ انسان کے کھانے کا انتظام کیا۔ جنگلات اگائے۔ حیوانات کی تخلیق کی۔ پرندوں کو آسمان پر اڑا یا۔
زمین پھاڑ کر پودے کا نکلنا بتا تا ہے کہ خدا ہے۔ آسمان پر پرندو ں کا پرپھیلائے اڑنا بتا تا ہے کہ خدا ہے۔ دن میں رات کا داخل ہونا اور رات میں دن کا داخل ہونا بتا تا ہے کہ خدا ہے۔ زمین پر پودے کا اگ آنا اور پھر پتوں پر کلوروفل کاچڑھنا اور پھر اس کا سبز ہونا اور پھرزرد ہوکر زمین پر گرجا نا بتا تا ہے کہ خدا ہے۔ خود انسان کی اپنی تخلیق بتا رہی ہے کہ خدا ہے۔
پانی کے قطرہ سے انسان کا وجود میں آنا بتا تا ہے کہ خدا ہے۔ ماں کے پیٹ میں تین تاریکیوں کے اندر پانی کا خون بننااور پھر اس کا لوتھڑا بن جا نا اور پھر اس لوتھڑے کا گوشت بننا اور پھر اس کا کان آنکھ ناک دل اور دماغ میں تبدیل ہوجا نا بتا تا ہے کہ خدا ہے۔ گائے کا دودھ دینا بتا تا ہے کہ خدا ہے۔ بغیر ستون کے آسمان کا کھڑا ہونا بتا تا ہے کہ خدا ہے۔
خدا نےجانا کہ انسان کو جو آنکھ وہ دے رہاہے انسان اس آنکھ سے خدا کو نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ اس نے ضروری سمجھا کہ وہ اپنے بندے کو کوئی پوائنٹ آف ریفرنس دے۔ تاکہ وہ عقل کی سطح پر یہ جان سکے کہ خدا ہے۔ تو خدا نے انسان کو عقل دی اور اس کے سامنے وسیع و عریض کائنات کو پھیلا دیا۔ تاکہ انسان خدا تک پہنچنے کے لئے اسے پوائنٹ آف ریفرنس بنائے۔
 انسان کو اس کائنات میں الجھ کر نہیں رہنا ہے۔ اسے اسٹیفن ہاکنگ کی طرح کائنات کی مکمل توضیح کی تلاش میں نہیں بھٹکنا ہے۔ اسے خدا کی مکمل معرفت کی تلاش میں سرگرداں ہونا ہے۔
 اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب  A brief history of timeمیں لکھا ہے کہ (ہمارا نشانہ کائنات کی مکمل توضیح ہے۔ ہم اس سے کم پر راضی نہیں ہوسکتے)۔
(Our goal is nothing less than a complete description of the universe we live in.)
 میرے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ کائنات اس لئے نہیں بنائی گئی ہے کہ انسان اس کی مکمل تو ضیح کرتا پھرے۔ کائنات کی مکمل توضیح کسی بھی حال میں ممکن نہیں ہے۔ مثلا کائنات کی 90 فیصد چیزیں Dark matter کی شکل میں ہیں ان کی توضیح کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔ کائنات کا ڈارک میٹر میں ہونا بتا رہا ہے کہ خدا کا منشا یہ نہیں ہے کہ انسان "کائنات کی توضیح" کرتا پھرے۔ خدا کا منشا یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی دیکھے اس کے ذریعہ وہ اپنے خالق تک پہنچ جائے۔ یہ کائنات خالق کی معرفت کے لئے ایک پوائنٹ آف ریفرنس کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ اس کا استعمال بھی اسی مقصد کے لئے ہونا چاہئے۔
اس دنیا میں انسان کو اپنے خالق کی مکمل معرفت کے لئے کوشاں ہونا ہے ناکہ کائنات کی توضیح کے لئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں