منگل، 27 نومبر، 2012

The great dealing


حسن معاملہ

محمد آصف ریاض
قرآن کی سورہ بقرہ میں ہے" اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انھیں ہاتھ لگا یا ہواور تم نے اس کا مہر بھی مقرر کردیا ہوتو تم مقررہ مہر کا آدھا دے دو۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردے یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہو۔ تمہارا معاف کردینا تقوی سے بہت نزدیک ہے۔ اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموقش نہ کرو۔ یقیناً اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔" {البقرہ 237}
قرآن کی اس آیت میں حسن معاملہ کو بتا یا گیا ہے۔ اس میں  بتا یا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص شادی کرے اور مہر بھی مقرر ہوگئی ہو لیکن کسی وجہ سے اس کے اندر سیکنڈ تھاٹ پیدا جائے اور وہ ملاپ سے پہلے ہی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اس پر لازم ہے وہ مقررہ مہر کا نصف حصہ اپنی بیوی کو ادا کرے۔
تاہم یہاں ایک گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ وہ یہ کہ دو نوں فرقیقن میں سے جو چاہے اپنے حصہ کو معاف کردے۔ لڑکی کا معاف کرنا یہ ہے کہ وہ اپنا حصہ چھوڑ دے اور لڑکے کا معاف کرنا یہ ہے کہ وہ مہر کا آدھا حصہ اپنے پاس بچا کر نہ رکھے بلکہ وہ مہر کی پوری رقم اپنی بیوی کو دےدے۔ ہر چند کہ قانوناً اسے نصف ہی دینا تھا۔
خداوند کے نزدیک یہ تقوی اور فضیلت کی بات ہے کہ آدمی اپنا حصہ معاف کردے۔ خدا وند نےفضیلت کا یہ موقع دونوں فریقین کو دیا۔ اگر صرف عورت کو معاف کرنے کا حق ہوتا تو اخلاقی طور پر عورت کو مرد پر فضیلت حاصل ہوجاتی اور اگرصرف مرد کو معاف کرنے کا حق ہوتا تو مرد کو عورت پر اخلاقی فضیلت حاصل ہوجاتی۔ خدا وند نے اپنے فضل سےچا ہا کہ دونوں کو برابر کا موقع ملے، تاکہ دونوں فرقین میں سے جو چاہے اپنا حصہ معاف کرکے اپنے آپ کو فضیلت اور تقوی کے مقام پر فائز کرے۔
آدمی ایک گھر میں رہتا ہے وہ ایک خاندان میں پر ورش پاتا ہے۔ وہ بھائی بہنوں والا، کنبہ اور قبیلہ والاہوتا ہے پھر اس پر جدائی کا وقت آتاہے۔
جدائی کے اس وقت میں ایک صورت تو یہ ہوتی ہے ہر فریق قانون کے مطابق اپنا اپنا حصہ مانگے اور ان میں کوئی بھی کچھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ ہر پراپرٹی میں الگ الگ حصہ لینے پربضد ہوں۔ اس طرح وہ اپنی پراپرٹی بھی برباد کریں اور دوسروں کی بھی۔ ان کا حال یہ ہو کہ ان میں ہر کوئی قانون کی زبان جانتا ہو کوئی تقوی اور فضیلت سے واقف نہ ہو۔
ایسا ہر گھر چڈھا { Chadha } کا گھر ثابت ہوگا۔ چڈھا برادران کا بہت بڑا بزنس تھا۔ ان لوگوں نے ملک بھر میں چھہ ہزار کروڑ سے زیادہ کا کاروبارپھیلا رکھاتھا۔ لیکن جب جدائی کا وقت آیا تو ان میں سے ہر ایک قانون کی زبان جانتا تھا کوئی تقوی کی زبان نہیں جانتا تھا،اس لئے کوئی بھی کچھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوا اور بلآ خر دہلی کے چھتر پور فارم ہائوس میں دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
Liquor and real-estate baron Gurpreet Singh Chadha, known as ‘Ponty Chadha’, and his younger brother, Hardeep, dies on Saturday after allegedly opening fire at each other during a meeting to resolve their property dispute. The Hindu Business Line۔ NEW DELHI, NOV 17
جدائی کی ایک دوسری صورت بھی ہے۔ وہ ہے تقوی اور فضیلت کے ساتھ جدا ہونا۔ اسلام میں معاملات صرف قانون تک پہنچ کر ہی ختم نہیں ہوجاتے بلکہ اس کے آگے بھی فریقین کے لئے کھونے اور پانے کا موقع باقی رہتا ہے۔ اسی موقع کو قرآن میں تقوی اور فضیلت کہا گیا ہے۔
لیکن عجیب بات ہے کہ انسان قانون کی زبان جانتا ہے، وہ تقوی اور حسن معاملہ کی زبان نہیں جانتا۔ انسان اپنا حق لینا جانتا ہے وہ اپنا حق چھوڑنا نہیں جانتا۔ وہ اپنے حق کے معاملہ میں قانون کے ہر دائو پیچ سے باخبر ہے لیکن تقوی کے قانون کونہیں جانتا۔
انسان مرکرجب اپنے خدا وند کے سامنے حاضر کیا جائے گا تو وہ معاملات کے بارے میں اپنے خدا وند سے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ خدا یا میں تیرے فرمان کو نہیں جان سکا۔ خدا وند اس سے پوچھ گا کہ تو قانون کے دائو پیچ کو تو خوب جانتا تھا لیکن قرآن کے واضح فرمان کے معاملہ میں اپنی ہوشیاری کا ثبوت کیوں نہ دے سکا؟
اپنے حق کو جاننے میں ہر آدمی ہوشیار ہے۔ اس میں ہندو مسلم سکھ عیسائی کسی کا کوئی استثنا نہیں۔ اپنے مال کو جس قدر مضبوطی سےسیکولراور بے دین لوگ پکڑتے ہیں، اتنی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوطی سےدینداری کا دعوی کرنے والے لوگ پکڑتے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دیندار ہیں اس لئے  وہ جو چاہیں کریں۔
حدیث میں اس بات کی پیشن گوئی اس طرح کی گئی ہے: ابن مردویہ کی ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "لوگوں پرایک کاٹ کھانے والا زمانہ آئے گا۔ یہاں تک کہ مومن بھی اپنے ہاتھوں کی چیز کو دانت سے پکڑ لے گا اور فضیلت و بزرگی کو بھول جائے گا۔ حالانکہ اللہ پاک کا حکم ہے کہ اپنے آپس کے فضل کو فراموش مت کرو۔"
} دیکھئے تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ صفحہ{114

جمعہ، 23 نومبر، 2012

Seeking pure faith


دین حق کی دریافت

محمد آصف ریاض
19نومبر 2012 کو دہلی کے اوکھلا میں میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی۔ وہ ہر بات میں " یاعلی مولاعلی " کہہ رہے تھے۔ میں نے انھیں بتا یا کہ قرآن میں مولی صرف خدا کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورہ الانفال کی ایک آیت ہے: "اوراگر وہ اعراض کریں تو جان لو کہ " اللہ تمہارا مولی ہے" اورکیا ہی اچھا مولی ہے اور کیا ہی اچھا مددگار"  (8:40)
میری اس بات پروہ کہنے لگےکہ ایران میں تو لوگ اسی طرح بولتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اسلام وہ ہے جو قرآن سے درآمد کیا جائے نہ کہ ایران  اور عراق سے۔ میرے اس جواب پر وہ بہت زیادہ سوچنےلگے۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام لوگوں کی اپنی ڈسکوری نہیں ہے۔ لوگ جس اسلام کو جانتے ہیں وہ انھیں وراثت میں ملی ہے۔ چناچہ اس کے ساتھ وراثتی گندگیاں بھی درآئیں ہیں۔
ہر انسان پر لازم ہے کہ جب وہ شعور کی عمر کو پہنچے تودین کوقرآن کی روشنی میں از سرے نودریافت کرے۔ وہ دین کے معاملہ میں قرآن کو اپنا معیار بنائے۔ وہ قرآن کی کسوٹی پر رکھ کر اپنے دین و ایمان کا محاسبہ کرے۔
قرآن کا ایک نام فرقان بھی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اور اس نے وہ کسوٹی {فرقان} اتاری ہے جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے۔ (3:4)
فرقان کے معنی ہوتا ہے فرق کرنے والا۔ یعنی ایک چیز کو چھانٹ کر دوسری چیز سےالگ کر نے والا۔ اگر آدمی قرآن کی تلاوت سنجیدگی سے کرے تو وہ پائے گا کہ قرآن " اسلام اورغیر اسلام " میں فرق کرنا سکھا رہا ہے۔ قرآن دانے کو بھونس سے  الگ کردیتا ہے اور جھاگ کو پانی سے۔ اوربلا شبہ بھونس اس لئے ہے کہ اسے جلا دیا جائے اور جھاگ اس لئے ہے کہ اسے ہوائیں اٹھا کر لے جائیں۔ قرآن میں اس بات کوان الفاظ میں سمجھا یا گیا ہے۔
اور اعلان کر دو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ (17: 81)
قرآن کو حق کہا گیاہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: "اللہ نے ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی۔" (2:176)
جب کوئی مچھورا اپنی جال پانی سے نکالتا ہے تو وہ مچھلی کو چن کر الگ کر لیتا ہے اوردوسرے کیڑے مکوڑوں کو الگ پھینک دیتا ہے۔
اسی طرح قران انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ قران برائی کو بھلائی سے چھانٹ کر الگ کردیتا ہے۔ قرآن انسان کومچھلی اور کیڑے مکوڑوں کے درمیان فرق کرنا سکھاتا ہے۔ وہ پانی اور جھاگ کو الگ کرتا ہے۔ وہ چھوٹ کو سچ سے الگ کر تاہے۔ وہ دانےاور بھونس کو چھانٹتاہے۔
ہرایمان والے پر فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کوقران کے سانچے میں ڈھالے۔ وہ قرآن کی روشنی میں وراثتی گندگیوں کو اپنی زندگی سے چھانٹ چھانٹ کر الگ کرے۔
وہ صرف ایک اللہ کو اپنا مولی بنائے۔ وہ شرک کی اس بیماری میں مبتلا نہ ہو جس میں یہود و نصاری مبتلا ہیں۔
سچے دین کی دریافت کی ذمہ داری ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ہرانسان کو اپنی موت خود مرنا ہے کوئی دوسرا اس کے لئے نہیں مرے گا۔ اسی طرح ہر انسان کو اپنے ایمان کی حفاظت خود کرنی ہے، کوئی دوسرا اس کے ایمان کی حفاظت نہیں کر سکتا۔

Everybody has to do his own believing,because everybody has to die his own dying
ہر انسان کو خدا وند کے نزدیک اپنے اعمال کے لئے خود جوابدہ ہونا ہے کوئی دوسرا اس کے لئے جواب دہ نہیں ہوگا۔ نہ اس کا باپ نہ اس کا کنبہ اورنہ اس کا قبیلہ۔ ہر انسان پر فرض ہے وہ حق کے معاملہ میں کسی کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرے۔ وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ کر دین کو دریافت کرے۔ وہ ہرقسم کی وراثتی گندگیوں کو اپنی زندگی سے چن چن کر نکال دے۔ 

بدھ، 14 نومبر، 2012

What is the creative writing?

کریٹیو رائٹنگ کیا ہے؟
محمد آصف ریاض

کریٹیو رائٹنگ کے لئے کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے۔ کریٹو رائٹنگ ہمیشہ کریٹیو تھنکنگ کے ذریعہ آتی ہے۔ چند خوبصورت الفاظ کےلکھ دینے سے کوئی رائٹر کریٹو نہیں بن جاتا۔ کریٹیو رائٹنگ کے لئے ضروری ہے کے آدمی بہت زیادہ پڑھے۔ وہ کتابوں کی قبر میں اپنے آپ کو دفن کردے ۔

لیکن صرف بہت زیادہ پڑھنا ہی کافی نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ رائٹر کے پاس بہت سارے تجر بات ہوں۔ لیکن صرف تجربات و مشاہدات ہی کریٹو رائٹنگ کے لئے کافی نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی بہت زیادہ تفکر کرنے والا ہو، اور اس کے ساتھ ہی اس کے اندر یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ ان تجربات و مشاہدات سے اپنے لئے کوئی حکمت کی بات نکال سکے۔ وہ شعوری طور پر اتنا بیدار ہوچکا ہو کہ ہر ناکامی سے کامیابی کو نچوڑ سکے۔ وہ ’رنگ سکسز آٹ آف فیلیور ( Wring success out of failure )کے آرٹ کو جانتا ہو۔

جس طرح درخت فضاﺅں سے کاربن ڈائی آکسائڈ اٹھاکر اسے آکسیجن میں کنورٹ کر دیتے ہیں، اسی طرح ایک کریٹیو رائٹر کو یہ کرنا ہے کہ وہ ہر نگیٹو چیز سے اپنے لئے ایک پوزیٹو چیز پیدا کر ے۔ وہ ہر No سے اپنے لئے Yes پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ ہر واقعہ سے لوگوں کے لئے ایک سبق اخذ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہو۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنے میںکامیاب ہو گیا تو یہی وہ شخص ہے جسے کریٹیو رائٹر کہا جائے گا۔کریٹیو رائٹر مکھی پر مکھی نہیں مارتا اور ناہی وہ لگے بندھے اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔

 کریٹیو رائٹنگ آٹ آف باکس آئیڈیاز  (Out of box ideas) کے ساتھ آنے کا نام ہے۔ کر یٹیو رائٹر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے بہاﺅ کے ساتھ چل سکے ۔ وہ اپنے سمندر کے پانی کو ٹھہرنے نہ دے کیونکہ ٹھہرا ہوا پانی کسی کام کا نہیں ہوتا ۔ اسی طرح ٹھہرے ہوئے آئیڈیاز آئیڈیاز تو ہوتے ہیں لیکن وہ کسی کام کے نہیں ہوتے ۔

کریٹیو رائٹر کو زبان کی ڈی کوڈنگ کا ہنر بھی آنا چاہے۔ اپنی زبان میں ہر چیز کچھ نہ کچھ بولتی ہے۔ پتھر بھی کچھ بولتا ہے۔ پھول بھی کچھ بولتے ہیں، اسی طرح آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے بھی اپنی زبان میں کچھ پولتے ہیں، سمندر میں مچھلیاں بھی کچھ بولتی ہیں۔ کریٹو رائٹر ان کی زبان کو ڈی کوڈ کرتا ہے۔ وہ چھپے ہوئے الفاظ کے معنی لوگوں کے سامنے کھولتا ہے ۔ جس شخص کے اندر ڈی کوڈنگ کی یہ صلاحیت ہو،یہی وہ شخص ہے جسے لوگ کریٹو رائیٹر کہتے ہیں۔

اسی طرح کریٹیو رائٹر کوحذف و اضافہ کے اصول سے بھی واقف ہوناچاہئے۔ اگر وہ حذف و اضافہ کے فن کو نہیں جانتا تو وہ خود بھی کنفیوزن کا شکار ہوگا اور دوسروں کو بھی کنفیوزڈ کر دے گا۔ وہ بے معنی الفاظ کا جنگل اگائے گا اور کوئی قیمتی بات نہیں کہہ سکے گا۔

حذف کیا ہے؟ نیوٹن نے دیکھا کہ درخت سے پھل گر کر نیچے زمین پر آگیا تو اس کا یہ یقین پختہ ہوا کہ زمین میں قوت کشش ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی دیکھا کہ درخت کی جڑیں اوپر نہ جاکر نیچے جا رہی ہیں ۔اس کے بر عکس شاخیں اوپر کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ یعنی ایک درخت جتنا اندر ہے اتنا ہی باہر بھی ۔ تاہم یہ باتیں نیو ٹن کو کنفیوزڈ نہ کر سکیں ۔ اس نے جڑ کے نیچے جانے اور شاخوں کے اوپر بڑھنے کو حذف کر کے محض پھل کے گرنے کو لیا ، تبھی جا کراس کے لئے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ کسی خاص نظریہ تک پہنچ سکے۔

بات یہ ہے کہ آدمی جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے سامنے بہت ساری چیزیں بیان کر نے کے لئے ہوتی ہیں۔ اگر وہ ایسا کرے کہ سب کو بیان کرنا شروع کردے تو وہ خود بھی کنفیوزن کا شکار ہوگا اور دوسروں کو بھی کنفیوزڈ کردے گا۔ وہ الفاظ کے جنگل کے سوا کچھ بھی نہیں نہ اگا سکے گا۔ ایسے وقت میں انسان کو حذف و اضافہ کے اصول پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اسے کچھ چیز لینا ہو تا اور کچھ چیزوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر آدمی حذف و اضافہ کے اس اصول سے واقف نہ ہو تو وہ کچھ اور ہوسکتا ہے، وہ کریٹیو رائٹر نہیں ہو سکتا۔

کریٹیو رائٹر کے اندر یہ صلاحیت بھی ہونی چاہئے کے وہ کائنات کی آفاقی زبان کو سمجھ سکے۔ وہ یونیورس میں پھیلی ربانی کتاب کے اوراق کو پڑھ سکے۔ وہ شعوری طور پر اتنا بلند ہو چکا ہو کہ وہ اپنے خالق سے کلام کر سکے۔

 جب کوئی شخص اپنے آپ کو اتنے ا علیٰ مقام پرپہنچانے میں کامیاب ہو جائے گا تو وہ الہامی زبان میں کلام کرنے لگے گا۔ اور یہی وہ کلام ہے، جسے جدید اصطلاح میں کر یٹیو رائٹنگ کہا جا تا ہے۔

کریٹیو رائٹنگ دل کی پاکیزگی کا نام ہے۔ صرف پاکیزہ دل ہی کوئی معنی خیز بات کہنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ با ئبل میں ہے:
You brood of snakes! How could evil man like you speak what is good and right? For a man heart determines his speech. A good man's speech reveals the rich treasures within him. An evil hear-ted man is filled with venom and his speech reveals it
Mathew 12: 33-36

پیر، 12 نومبر، 2012

A story of two boys

دو بچوں کی کہانی

محمد آصف ریاض
کل 11  اکتوبر 2012 کو میں دہلی جامع مسجد گیا ہوا تھا۔ اس سفر میں میرا چار سالہ بیٹا " محمد یحی"  بھی میرے ساتھ تھا۔
ہم لوگ جامع مسجد کے قریب پہنچ چکے تھے، لیکن مسجد کا راستہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میں نے نزدیک کے ایک دکاندار سے مسجد کا راستہ پوچھا۔ دکاندار ابھی کچھ بولتا کہ اس سے پہلے وہاں موجود ایک لڑکا بول پڑا۔ "مسجد جائیے گا ؟ چلئے میں آپ کو وہاں پہنچا تا ہوں ۔ میں بھی اسی طرف جا رہا ہے۔"
اس لڑکے کی عمرتقریباً چھ سال کی رہی ہوگی۔ وہ اسٹریٹ بوائے معلوم پڑ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ بیٹے آپ کیا کرتے ہیں؟ اس نے جواب دیا میں یہاں "نگ" کا کام کرتا ہوں اور ساتھ میں پڑھائی بھی کرتا ہوں۔ وہ ترکمان گیٹ سلم ایریا کا رہنے والا تھا۔ وہ کرکرے ٹائپ کی کوئی چیز کھا رہا تھا اور بہت کنفی ڈنس کے ساتھ ہمارے آگے آگے چل رہا تھا۔
لیکن میرا بیٹا اس کے ساتھ چلنے کے لئے راضی نہ تھا۔ وہ بار بار میرے پائوں پکڑ کر مجھے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ احتجاً باربار پیچھے رک جاتا تھا۔ میں نے کہا آجائو بیٹا۔ جواب میں  اس بچے کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے وہ بولنے لگا، وہ، وہ! یعنی اس کے ساتھ میں نہیں جائوں گا۔ اب اس بچے نے کہا کہ آجائو، بابو، آجائو، یہ کہتے ہوئے اس نے میرے بیٹے کو کرکرے کا ایک ٹکڑا دیا۔ میرے بیٹے نے اسے لے لیا اور پھر اس کے ساتھ چلنے پر کسی طرح راضی ہوا۔
اس اسٹریٹ بوائے کہ اندر مجھے شیئرنگ کیپاسٹی نظر آئی۔ وہ بہادر اور فیئر لیس تھا۔ اس کے اندر ایجسٹ کرنے کی پوری صلاحیت موجود تھی۔ مجھے لگا کہ وہ دنیا کے کسی بھی نقشے میں اپنے آپ کو ایجسٹ کر سکتا ہے۔
اس کے بر عکس مجھے لگتا ہے کہ شاید میرا بیٹا ایسا نہ کرسکے۔ وہ بڑا ہوکر شاید اپنی دنیا الگ بنائے۔ شاید وہ ہر دوسرے کی بنائی ہوئی دنیا میں اپنے آپ کو فٹ نہ کر سکے۔ وہ اپنی زندگی کا نقشہ خود تیار کرے۔ اور اپنے انداز میں اپنی زندگی گزارے۔
ایک لحاظ سے دیکھئے تووہ اسٹریٹ بوائےاچھا تھا، دوسرے لحاظ سے دیکھئے تومیرابیٹا۔ ایک ٹرینڈ سیٹر(Trend setter) تھا تو دوسرا ٹرینڈ فولورTrend follower) (
 حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر آدمی کے اندر کوئی نہ کوئی یونک صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ خواہ وہ اسٹریٹ پر رہنے والا ہو خواہ وہ محل میں رہے۔   

جمعہ، 9 نومبر، 2012

The fire flare up before it extinguishes

ہر آگ بجھنے سے پہلے بھبھکتی ہے

محمد آصف ریاض
سیریا میں مارچ 2011 سےاسد حکومت کے خلاف بغاوت جاری ہے۔ اس بغاوت میں اب تک تقریباً 40,000  لوگ مارے جا چکے ہیں اور پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ملک چھوڑ کر ترکی، اردن اور دوسرے پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پرمجبور ہیں۔ حلب سمیت ملک کے مختلف علاقوں پرجمہوریت پسند باغیوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ اسد حکومت دمشق کے اطراف تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے رسیا ٹوڈے ٹیوی نیٹورک کوایک انٹر ویو دیتے ہوئے یہ دھمکی دی ہے:
" مجھے نہیں لگتا کہ مغربی ممالک سیریا میں مداخلت کریں گے، اگر انھوں نے ایسا کیا تو کوئی نہیں جانتا کہ پھر کیا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مجھ پرحملہ ہوا تو دنیا کو اتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی کہ دنیا اس کا تحمل نہیں کر سکتی۔"
"I do not think the West is going to intervene,but if they do so, nobody can tell what is next. I think the price of this invasion if it happened is going to be more than the whole world can afford"
Press TV 9, 2012

اسد کی یہ دھمکی در اصل سعودی عرب، ترکی اور قطر سمیت ان ممالک کے لئے ہے جو سیریا میں جمہوری حکومت کے خواہاں ہیں۔
ایک دانشور نےاسد کی مذکورہ دھمکی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
ہر آگ بجھنے سے پہلے بھبھکتی ہے۔ اور وہ صرف اس لئے بھبھکتی ہے تاکہ اس کا بجھنا یقینی ہوجائے۔ اس معاملہ میں اسد کا کوئی استثنا نہیں ہے۔ وہ بھی بجھنے کے لئے بھبھبک رہے ہیں۔

جمعرات، 8 نومبر، 2012

Every stone will be thrown down


بر تر زندگی کا کمتر استعمال

محمد آصف ریاض
فتح اللہ گولن ترکی کے ایک عظیم مصلح اور اسلامی اسکالر ہیں۔ دعوہ اسلامی اور انسانی  بہبود کے میدان میں انھوں نے ہمالیائی کارنامہ انجام دیا ہے۔ گولن تحریک کے تحت وہ دنیا بھر میں تقریباً آٹھ سو تعلیمی ادارے چلاتے ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اسلام، امن، اور اسپریچولیٹی پر ان کے سینکڑوں مضامین قومی اور بین القوامی زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ وہ ترکی میں نئی نسل کے لئے اسلامی ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔
فتح اللہ کی انگریزی تصنیف پرلس آف وزڈم  { Pearls of wisdom } میرے ہاتھوں میں ہے۔  یہ ایک قابل قدر کتاب ہے۔ یہ اس لائق ہے کہ ہر شخص اسے پڑھے۔ اس کتاب میں گولن کے حکیمانہ اور فلسفیانہ کلمات بھرے پڑے ہیں۔ اس کتاب میں زندگی کے تمام پہلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ گولن نے اپنی اس کتاب میں پوری زندگی کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔
تاہم اس میں چند باتیں وہ بھی ہیں جن سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ مثلاً گولن نے ایک جگہ لکھا ہے:
" عظیم ممالک میں درویش کی کٹیا اور یہاں تک کہ قبورپر آویزاں کتبے بھی اس طرح سجے سجائے ہوتے ہیں کہ کوئی دیکھ کر ان کا گرو ویدہ ہو جائے۔عظیم الشان قوم کے شاندار عبادت خانے اور قبور بھی ان کی عظمت اور ان کے لطیف احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔"
“In great and magnificent nations dervish lodges and even gravestone are ornamented. One can read a nation’s concepts of beauty and art on its places of worship and its tombstone.”
Pearls of wisdom— page 190
By Fethullah Gulen
میں ان خیالات کو صحیح نہیں سمجھتا۔ عالیشان کھنڈرات اورعالیشان قبور اس لئے نہیں ہوتے کہ آپ ان سے اپنے لئے کبریائی اور عظمت کی غذا حاصل کریں۔  عالیشان قبوراور کھنڈرات صرف اس بات کی علامت  ہیں کہ قوم نے اپنی عظیم الشان زندگی پتھر پر پتھر جمع کرنے میں ضا ئع کردی۔
قبور اس لئے نہیں ہوتے کہ آپ انھیں سجائیں اور لوگ اس سے آپ کے لطیف احساسات و جذبات کی خبر پائیں۔ قبور تو اس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں۔ وہ یہ جانیں کہ کل جو شخص زمین پر انہی کی طرح سر گرم عمل تھا آج کیسا بے بس ہوگیا ہے۔
آدمی عظیم الشان محل کو جانتا ہے، لیکن وہ اپنی عظیم الشان زندگی کو نہیں جانتا۔ اگر وہ اپنی عظیم الشان زندگی کو جانتا تو اسے پتھر پر پتھر جمع کرنے میں ضائع نہ کرتا۔ بائبل میں انسان کی اس نفسیات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
  "اورجب وہ ہیکل سے نکلا تو اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا استاذ دیکھ کیسے کیسے پتھر ہیں اور کیسی  کیسی عمارتیں۔ مسیح نے جواب دیا، تو ان عمارتوں کو دیکھتا ہےسن کوئی پتھرپر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرا یا نہ جائے گا۔" (Mark 13)

بدھ، 7 نومبر، 2012

Arise to help me; look on my plight!


دعا کیا ہے
محمد آصف ریاض
کل شب کو میں خوشونت سنگھ کی کتاب دی انڈ آف انڈیا  (The end of India)پڑھ رہا تھا۔ میں اس کے لاسٹ چیپٹرمیں تھا۔ میری بیٹی مدیحہ جو ابھی صرف دوسال کی ہے وہ میرے پاس بیٹھی تھی۔ وہ پہلے مجھ سے "ابو" کہہ کر گویا ہوئی لیکن چونکہ میں پڑھنے میں مصروف تھا،اسے نظر اندازکیا۔ اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور پھر" ابو، ابو" کہہ کر مخاطب ہوئی اس بار بھی میں نے اسے نظر اندازکیا۔
اب اس نے اپنا لہجہ بدل دیا۔ اب وہ "باپ" کہہ کر گویا ہوئی لیکن اس بار بھی میں نے اسے نظر انداز کیا۔ اب اس نے ایک اور انداز اختیار کیا اور اس بار وہ اس طرح مجھ سے مخاطب ہوئی۔ " آصف ریاض، آصف ریاض"---
اس باراس نے مجھے میرے نام سے پکاراتھا۔ اس بارمیں اسے نظر انداز نہیں کر سکا۔ میں ہنس پڑا اوراسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔
دعا کیا ہے؟
دعا کسی لگے بندھے الفاظ کی ادائیگی کانام نہیں ہے۔ خدا سے والہانہ احساسات و جذبات کے اظہار کا نام ہے دعا۔  دعا یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کو ایک نام سے پکارے اور جب اس کی مراد پوری نہ ہوتو وہ اپنے رب کو ایک اور انداز میں پکارے اور جب اس سے بھی اس کی مراد پوری نہ ہو تو اپنے رب کو ایک اورانداز میں پکارے۔
حضرت آدم کی دعا کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:
"آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیں اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔" }البقرہ {38
وہ دعا کیا تھی؟ قرآن میں یہ دعا اس طرح وارد ہوئی ہے: ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم یقیناً نقصان والے ہوجائیں گے۔"
ابن کثیر نے حضرت آدم کی دعا سے متعلق کئی روایات نقل کی ہیں۔ ان میں ایک روایت اس طرح ہے۔
ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت آدم نے فرمایا کہ خدا یا، کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہ کیا؟ اور مجھ میں اپنی روح نہ پھوکی؟ میرے چھینکنے پر یر حمک اللہ نہ کہا؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہ لے گئی؟ کیا میری پیدائش سے قبل یہ خطا میری تقدیر میں نہ لکھی تھی؟
جواب ملا ہاں۔ یہ سب میں نے کیا ہے، تو فرمایا خدا یا، میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے؟ جواب ملا ہاں۔ یہی وہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے خدا سے سیکھ لیں۔
} تفسیر ابن کثیرصفحہ {103  
دعا اپنے رب کے آگے آہ و زاری کا نام ہے۔ دعا اپنے رب کو اس انداز میں پکارنے کا نام ہے کہ وہ اپنے بندے کو نظر انداز نہ کر سکے۔ دعاخدا کو اس کی پوری خدائی کے ساتھ پکارنے کا نام ہے۔ دعا خدا کی رحمت کو پرووک (Provoke) کرنے کا نام ہے۔
مجھے اپنا ایک تجربہ یاد آتا ہے؟ اس وقت میں بنارس میں رہتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ میں ظہر کی نمازپڑھ کرفا رغ ہوا تو خدا سے اس طرح گویا ہوا۔
خدایا، تیرا بندہ آج بھوکا رہے گا کیونکہ تو نے آج اس کے لئے کھانے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
نمازکے بعد میں مسجد سے نکل رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص پیچھے دوڑا ہوا آتاہے۔ وہ اپنے بیٹے کی فیس جمع کرنے آرہا تھا۔ میں اس کے بیٹے کو پڑھا تا تھا لیکن کئی ماہ سےاس نے ٹیوشن فیس جمع نہیں کیا تھا۔ نماز کے بعد اس نے مجھے ٹیوشن فیس دیا۔
یہ ہے دعا۔ دعا یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کو اس والہانہ انداز میں پکارے کہ اس کا رب اسے اگنور نہ کر سکے۔ خدا کے آگے مکمل خود سپردگی کانام ہےدعا۔ اسی لئے حدیث میں دعا کو مخ العبادہ کہا گیا ہے۔
بائبل میں حضرت دائود کی دعا اس طرح نقل ہوئی ہے۔
خدا یا مجھے میرے دشمن سے نجات د ے، ان لوگوں سے میری حفاظت فرما جو میرے خلاف کھڑے ہیں۔ مجھے بدکاروں سے نجات دے،اور خون کے پیاسوں سے میری حفاظت فرما۔ دیکھ میرے معاملہ میں وہ کس طرح جھوٹ گڑھتے ہیں۔ یہ متشدد لوگ میرے خلاف سازش رچتے ہیں،حالانکہ خدا یا، میں نے ان کا کچھ بگاڑا نہیں اور نہ ہی کوئی گناہ کیا۔ میں نے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا یا پھر بھی وہ مجھے مارنے کے لئے تیار ہیں۔ خدایا،آپ میری مدد کو اٹھئے، مصیبت میں میری دستگیری کیجئے۔  
Deliver me from my enemies, O God;
protect me from those who rise up against me.
2Deliver me from evildoers
and save me from bloodthirsty men.
3See how they lie in wait for me!
Fierce men conspire against me
for no offense or sin of mine, O Lord.
4I have done no wrong, yet they are ready to attack me.
Arise to help me; look on my plight!
Psalm 59
New International Version 1984         

منگل، 6 نومبر، 2012

The hereafter


آخرت کی دنیا

محمد آصف ریاض
سقراط نے جب دیوتاﺅں پر ایمان لانے سے انکار کردیا تو اسے زہردے کر مار دیا گیا۔ اسی طرح جب گلیلیو نے
 (Geocentric View) کی جگہ   (heliocentric) نظریہ پیش کیا تو اسے نظر بند کردیا گیا یہاں تک کہ 1642میں وہ اسی حالت میں مرگیا ۔
 گلیلیو نے دنیا کو پہلی بار بتا یا کہ زمین جامد نہیں ہے بلکہ یہ سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے۔ گلیلیو کے اس نظریہ پر مذہبی طبقہ بھڑک اٹھا۔ کلیساﺅں اور یہود کے معبد خانوں میں زلزلہ برپا ہو گیا کیونکہ (Psalms)زبور داو میں لکھا ہوا تھا کہ زمین جامد ہے۔ اس نے زمین کی بنیاد ڈالی اور اب یہ کبھی بھی حرکت نہیں کر سکتی
 He set the earth on its foundations; it can never be moved.
Psalm 104:5
New International Version (NIV)
گلیلیو دنیا کو ایک گریٹر دنیا کی خبر دے رہے تھا لیکن دنیا نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لوگوں نے گلیلیو کو ہلاک کردیا لیکن کیا اس کی ہلاکت سے وہ سچائی بھی ہلاک ہوگئی جس کی وہ تبلیغ کر رہا تھا؟
بڑے بڑے سائنسدانوں کو دنیا نے صرف اس لئے مار دیا کیوں کہ وہ دنیا کو ایک ایسی خبر دے رہے تھے جس سے دنیا نا آشنا تھی۔ عربی کا ایک قول ہے الناس اعدا ماجہلو” لوگ ہر اس چیز کے دشمن بن جاتے ہیں جسے وہ نہیں جانتے۔
لوگوں کا حال یہ تھا کہ لوگ کسی بھی نئی خبر پر بھڑک جاتے تھے۔ سائنسداں حضرات چونکہ اپنے وقت سے اوپر اٹھ کر سوچتے تھے اس لئے لوگ یا تو انھیں مار دیتے تھے یا ان کی بات ماننے سے انکار کر دیتے تھے۔
سائنس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ توہمات  کی دنیا تھی۔  لوگ تہمات میں پڑ کر زمین ،آسمان، سورج اور چاند کی پوجا کرتے تھے۔ اسلام نے آکر اسے ختم کیا اور سائنس کا وہ دروازہ جوتوہمات کی وجہ سے صدیوں سے بند پڑا تھا اسلام نے اسے سبھوں کے لئے چوپٹ کھول دیا۔
 تہمات کی وجہ سے ریسرچ کا سا را کام ٹھپ پڑگیا تھا کیونکہ جو چیز آبجکٹ آف ورشپ بنی ہوئی تھی وہی چیز آبجکٹ آف انوسٹیگیش نہیں بن سکتی تھی۔
 جب کوئی چیز دیوتا ہوجائے تو پھر لوگ اس پر تجربہ کس طرح کر سکتے تھے؟ مثلاً اگر گائے پر تجربہ کرنا ہو تو آپ اس پر تجربہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہندو سماج میں گائے پوجنی ہے۔
اسلام نے آکر ان توہمات کو توڑا لوگ چاند ،سورج زمین اور آسمان کی پوجا کرتے تھے اسلام نے ان کی عظمت کو توڑ دیا اور بتا یا کہ تمہارا خدا ایک ہے اور باقی تمام چیزیں تمہارے لئے بنائی گئی ہیں تا کہ تم انہیں کام میں لاﺅ اور خدا کا شکر ادا کرتے رہو۔ اب یہ ہوا کہ لوگ چاند پر پاﺅ رکھنے لگے زمین کو انوسٹیگیٹ کر نے لگے دریاﺅں میں دوڑنے لگے۔ اسلام نے سائنٹفک ریسرچ کا دروازہ پوری طرح کھول دیا۔ رفتہ رفتہ دنیا ترقی کرتی گئی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ آدمی چاند پر جا رہا ہے، ہواﺅں میں اڑ رہا ہے، اور پانی پر سواری کر رہا ہے۔
اسلام نے دنیا کو یہیں پرلاکر روک نہیں دیا بلکہ دنیا کو ایک اور دنیا کی بشارت دی۔ اسلام نے بتا یا کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جس کی خوبصورتی ہماری اس دنیا سے بلین ٹائمز زیادہ ہے۔ جہاں کا پانی ہماری دنیا کے پانی سے بلین ٹائمز زیادہ شفاف ہے۔ جہاں کی ہوائیں آلودہ نہیں ہیں۔ جہاں کسی کو غم نہیں ہوگا جہاں انسان ہمیشہ رہے گا۔ جہاں کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ اس دنیا کا نام آخرت ہے۔
آخرت کی دنیا
اسلام لگاتار ایک نئی دنیا کی بشارت سنا رہا ہے تاکہ اہل علم آگے آئیں اور اس نئی دنیا کی تیاری میں لگ جائیں۔ لیکن لوگ اسلام کی اس آواز پر کان بند کئے ہوئے ہیں۔ لوگ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لوگ اس طرح کی خوشخبری سنانے والوں کو پاگل دیوانہ کہہ رہے ہیں۔ لوگ اس آواز پر اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔ لیکن کیا ان کے اندھے اور بہرے بن جانے سے وہ دنیا برپا نہ ہوگی؟
کیا گلیلیو کو ماردینے سے اس کی سچائی کو بھی ماردیا گیا ؟ کیا لوگوں کے انکار کرنے سے زمین نے گردش کرنا چھوڑ دیا؟ نہیں ہر گز نہیں

پیر، 5 نومبر، 2012

You have only mother


میری ایک ماں ہے !

محمد آصف ریاض
اگر کسی بچے کو یہ بتا یا جائے کہ اس کی کئی مائیں ہیں۔ کوئی ایک عورت اس کی ماں نہیں ہے، تو اس کا  رد عمل کیا ہوگا؟
بلا شبہ وہ بچہ ان تمام ماﺅں سے بے تعلقی کا اظہار کرے گا۔ اس کے اندر کسی ایک کے لئے بھی پیار کا وہ دریا ابال نہیں کھائے گا جو کسی ایک ماں کے لئے کسی انسان کے دل میں فطری طور پر موجزن ہوتا ہے۔ وہ کئی ماﺅں کی موجودگی میں کسی سنٹرل پوائنٹ تک نہیں پہنچ پائے گا۔ وہ ایک ماں کے غائبانے میں اس چیز کو کھو دے گا جسے مرکزیت "سنٹرل پوائنٹ" کہا جا تا ہے۔
ماں کیا ہے؟
ماں کسی آدمی کی زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ماں کسی انسان کے لئے سنٹرل پوائنٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ ماں کو کھو دینے کا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی مرکزیت کو کھودیا۔
 ہر مرد اورعورت کو اللہ نے ایک ماں دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے ایک سنٹرل پوائنٹ دیا ہے۔ اسی مرکزی محور کے درمیان انسان کی زندگی ناچتی ہے۔ انسان اپنے دکھ تکلیف میں اسی کی طرف پلٹتا ہے۔ اپنے بھائیوں اور اہل خاندان کے درمیان تنازعات کے دوران وہ اسی مر کز کی طرف لوٹتا ہے۔ انل امبانی اور مکیش امبانی کے درمیان تنازعات کا خاتمہ ان کی ماں کوکیلا بن امبانی نے کرا یا تھا۔ کسی انسان کو اپنی ماں کے پاس وہ سب کچھ ملتا ہے جو اسے کسی دوسری جگہ نہیں مل سکتا۔ ماں کے ساتھ انسان کا رشتہ اتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اس کے لئے اپنی جان کی بازی بھی لگا سکتا ہے۔ اور یہی صورت کسی بچے کے لئے کسی ماں کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن اگر کسی انسان کو یہ بتا یا جائے کہ اس کی کئی مائیں ہیں تو وہ اس جذبہ کو کھو دے گا جو وہ اپنی حقیقی ماں کے لئے  وہ اپنے اندر فطری طور پر پاتا ہے۔
ایک خدا اور کئی خدا
جو نفسیاتی فرق ایک ماں والے اور کئی مائوں والے بچوں کے درمیان ہوتا ہے، وہی فرق ایک خدا اور بہت سارے خداﺅں کے ماننے والوں کے درمیان ہوتا ہے۔ کئی خداﺅں کو ماننے والوں کے دل میں کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی خدا کے لئے اپنی اندر پیار اور احترام کا جذبہ نہیں پاتا۔ وہ ان سے بے تعلق بنا رہتا ہے۔ وہ کئی خداﺅں میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لا تا۔ کئی خدا ﺅں کو ماننے کے بعد انسان اس چیز کو کھو دیتا ہے جسے سنٹرل پوائنٹ  کہا جا تا ہے، جس کے گرد انسان کی زندگی چکر کاٹتی ہے اور جسے انسان اپنا سب کچھ سمجھتا ہے۔
جس طرح کوئی بچہ کئی ماﺅں کو قبول نہیں کرتا اور وہ ان سے بے تعلق ہوجاتا ہے، اسی طرح انسان کئی خداﺅں کو قبول نہیں کرتا۔ وہ ان کے لئے اپنے دل میں کوئی فیلنگ نہیں رکھتا۔
ہر مرد اور عورت کو خدا نے ایک ماں دیا ہے اور ہر شخص اپنی اس ماں کو پہچانتا ہے۔ اسی طرح ہر مرد اور عورت کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے، اسے ہر حال میں اپنے اس خدا کو پہچاننا ہے۔
آدمی پر فرض ہے کہ جب اسے عقل ہو تو وہ سماج سے کٹ کر اپنے ایک خدا کی تلاش میں نکل جائے۔ وہ حقیقی خدا کی تلاش میں کوئی عذر قبول نہ کرے۔ وہ یہ جانے کہ جس طرح کسی شخص  کی کئی مائیں نہیں ہو سکتیں اسی طرح کسی انسان کے لئے کئی خدا نہیں ہو سکتے۔

اتوار، 4 نومبر، 2012

A shift in priorities

ترجیحات کا بدلنا

محمد آصف ریاض
اکتوبر 2012 کو میں دہلی کے اوکھلا واقع جماعت اسلامی ہند کے دفتر گیا ہواتھا۔ جماعت اسلا می ہند نے اپنے دفاتر کے لئے محل نماں، نہایت عالی شان عمارت تعمیر کی ہے۔ لوگ اس عمارت کو وھا ئٹ ہائوس کہتے ہیں۔ اس عمارت کو دیکھ کر مجھے بائبل کے یہ الفاظ یاد آگئے۔
"اورجب وہ ہیکل سے نکلا تو اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا استاذ دیکھ کیسے کیسے پتھر ہیں اور کیسی  کیسی عمارتیں۔ مسیح نے جواب دیا، تو ان عمارتوں کو دیکھتا ہےسن کوئی پتھرپر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرا یا نہ جائے گا۔"
As he was leaving the temple, one of his disciples said to him, “Look, Teacher! What massive stones! What magnificent buildings!”
 “Do you see all these great buildings?” replied Jesus. “Not one stone here will be left on another; everyone will be thrown down.”
Mark 13
بائبل کے ان الفاظ کے ساتھ ہی مجھے قرآن کی وہ آیات یاد آگئیں جس میں قوم عاد اور ثمود کی تباہی کا ذکر ہے، جو زمین پر اور پہاڑوں پر بڑے بڑے محل تعمیر کیا کرتی تھیں۔
"اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں بھی عطا کیں، تاہم وہ ان سے رو گردانی ہی کرتے رہے۔ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے تھے بے خوف ہوکر۔ آخر انھیں بھی صبح ہوتے ہوتے چنگھاڑ نےدبوچ لیا۔ "  {15: 81-83}
زمین پر محل نماں عمارتوں کی تعمیر کوئی سادہ واقعہ نہیں ہوتا۔
 اس کا مطلب ہوتا ہے {A shift in priorities} یعنی ترجیحات کا بدل جانا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم نے تقوی کے محل کی تعمیر سے اپنا فوکس ہٹا لیا ہے۔ اب اس کا فوکس اینٹ اور پتھر کا محل ہوگیا ہے۔ اس نے جنت کو بھلا دیا ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی ایک قیمت ہے اور خدا کی جنت کی قیمت یہ دنیا ہے۔
جنتی انسان جنت کے اندر پیدا نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ اسی دنیا میں پیدا کیا جائے گا۔ ہر انسان جو اس زمین پر بسا یا گیا ہے اسے اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دینا ہے کہ وہ جنت میں بسائے جانے کا استحقاق رکھتا ہے۔ ہر شخص کو یہاں ٹسٹ سے گزرنا ہے۔ اس ٹسٹ میں کامیاب ہونے والوں کو خدا ابدی جنت میں بسائے گا۔ اور جو ناکام رہا، جس نے اپنی زندگی اینٹ اور پتھر جمع کر نے میں صرف کر دی خدا اسے جہنم میں ڈال دے گا جہاں وہ ابد تک کے لئے روتا اور دانت پیستا رہے گا۔
زمین پر اینٹ اور پتھر کے محل کی تعمیر کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو خدا نے جو زندگی کا نقشہ دیا تھا انسان نے اسے رد کر کے اس کے مقابلہ میں اپنا ایک الگ نقشہ تیار کیا۔ اس نے خدائی گائڈ لائن کو چھوڑ کر خود اپنا گائڈ لائن تیار کیا۔
اس کا مطلب ہے خدا سے بغاوت کرنا اور کوئی قوم خدا سے بغاوت کر کے خدا کی زمین پر نہیں بس سکتی۔ چنانچہ عاد کو مٹا دیا گیا، ثمود  اور اہل مدین کو مٹا دیا گیا۔ اور انھیں ایسا مٹا یا گیا جیسے وہ کبھی بسے ہی نہ تھے۔
"اور ان کے بڑوں نے جنھوں نے اس کی قوم میں سے انکار کیا تھا، کہا کہ شعیب کی پیروی کرو گے تو برباد ہوجائوگے۔ پھر ان کو زلزلہ نے پکڑ لیا، پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے منھ پڑے رہ گئے، جنھوں نے شعیب کو جھٹلا یا تھا گویا وہ کبھی اس بستی میں بسے ہی نہیں تھے۔ جنھوں نے شعیب کو جھٹلا یا وہی گھاٹے میں رہے۔  اس وقت شعیب ان سے منھ موڑ کر چلا اور کہا، "اے میری قوم میں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچا چکا اور تمہاری خیر خواہی کر چکا۔ اب میں کیا افسوس کروں منکروں پر۔" {7:88-93}