حسن معاملہ
محمد آصف ریاض
قرآن کی سورہ بقرہ میں ہے" اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم
نے انھیں ہاتھ لگا یا ہواور تم نے اس کا مہر بھی مقرر کردیا ہوتو تم مقررہ مہر کا
آدھا دے دو۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردے یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ
میں نکاح کی گرہ ہو۔ تمہارا معاف کردینا تقوی سے بہت نزدیک ہے۔ اور آپس کی فضیلت
اور بزرگی کو فراموقش نہ کرو۔ یقیناً اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔"
{البقرہ 237}
قرآن کی اس آیت میں حسن معاملہ کو بتا یا گیا ہے۔ اس میں بتا یا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص شادی کرے اور
مہر بھی مقرر ہوگئی ہو لیکن کسی وجہ سے اس کے اندر سیکنڈ تھاٹ پیدا جائے اور وہ
ملاپ سے پہلے ہی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اس پر لازم ہے وہ مقررہ مہر کا
نصف حصہ اپنی بیوی کو ادا کرے۔
تاہم یہاں ایک گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ وہ یہ کہ دو نوں فرقیقن میں سے جو چاہے
اپنے حصہ کو معاف کردے۔ لڑکی کا معاف کرنا یہ ہے کہ وہ اپنا حصہ چھوڑ دے اور لڑکے
کا معاف کرنا یہ ہے کہ وہ مہر کا آدھا حصہ اپنے پاس بچا کر نہ رکھے بلکہ وہ مہر کی
پوری رقم اپنی بیوی کو دےدے۔ ہر چند کہ قانوناً اسے نصف ہی دینا تھا۔
خداوند کے نزدیک یہ تقوی اور فضیلت کی بات ہے کہ آدمی اپنا حصہ معاف کردے۔ خدا
وند نےفضیلت کا یہ موقع دونوں فریقین کو دیا۔ اگر صرف عورت کو معاف کرنے کا حق
ہوتا تو اخلاقی طور پر عورت کو مرد پر فضیلت حاصل ہوجاتی اور اگرصرف مرد کو معاف
کرنے کا حق ہوتا تو مرد کو عورت پر اخلاقی فضیلت حاصل ہوجاتی۔ خدا وند نے اپنے فضل
سےچا ہا کہ دونوں کو برابر کا موقع ملے، تاکہ دونوں فرقین میں سے جو چاہے اپنا حصہ
معاف کرکے اپنے آپ کو فضیلت اور تقوی کے مقام پر فائز کرے۔
آدمی ایک گھر میں رہتا ہے وہ ایک خاندان میں پر ورش پاتا ہے۔ وہ بھائی بہنوں
والا، کنبہ اور قبیلہ والاہوتا ہے پھر اس پر جدائی کا وقت آتاہے۔
جدائی کے اس وقت میں ایک صورت تو یہ ہوتی ہے ہر فریق قانون کے مطابق اپنا اپنا
حصہ مانگے اور ان میں کوئی بھی کچھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ ہر پراپرٹی
میں الگ الگ حصہ لینے پربضد ہوں۔ اس طرح وہ اپنی پراپرٹی بھی برباد کریں اور
دوسروں کی بھی۔ ان کا حال یہ ہو کہ ان میں ہر کوئی قانون کی زبان جانتا ہو کوئی
تقوی اور فضیلت سے واقف نہ ہو۔
ایسا ہر گھر چڈھا {
Chadha } کا گھر ثابت ہوگا۔ چڈھا برادران کا
بہت بڑا بزنس تھا۔ ان لوگوں نے ملک بھر میں چھہ ہزار کروڑ سے زیادہ کا
کاروبارپھیلا رکھاتھا۔ لیکن جب جدائی کا وقت آیا تو ان میں سے ہر ایک قانون کی
زبان جانتا تھا کوئی تقوی کی زبان نہیں جانتا تھا،اس لئے کوئی بھی کچھ چھوڑنے کے
لئے تیار نہ ہوا اور بلآ خر دہلی کے چھتر پور فارم ہائوس میں دونوں بھائیوں نے ایک
دوسرے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
Liquor and real-estate baron
Gurpreet Singh Chadha, known as ‘Ponty Chadha’, and his younger brother,
Hardeep, dies on Saturday after allegedly opening fire at each other during a
meeting to resolve their property dispute.
The Hindu Business Line۔
NEW
DELHI, NOV 17
جدائی کی ایک دوسری صورت بھی ہے۔ وہ ہے تقوی اور فضیلت کے
ساتھ جدا ہونا۔ اسلام میں معاملات صرف قانون تک پہنچ کر ہی ختم نہیں ہوجاتے بلکہ
اس کے آگے بھی فریقین کے لئے کھونے اور پانے کا موقع باقی رہتا ہے۔ اسی موقع کو
قرآن میں تقوی اور فضیلت کہا گیا ہے۔
لیکن عجیب بات ہے کہ انسان قانون کی زبان جانتا ہے، وہ تقوی
اور حسن معاملہ کی زبان نہیں جانتا۔ انسان اپنا حق لینا جانتا ہے وہ اپنا حق
چھوڑنا نہیں جانتا۔ وہ اپنے حق کے معاملہ میں قانون کے ہر دائو پیچ سے باخبر ہے لیکن
تقوی کے قانون کونہیں جانتا۔
انسان مرکرجب اپنے خدا وند کے سامنے حاضر کیا جائے گا تو وہ
معاملات کے بارے میں اپنے خدا وند سے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ خدا یا میں تیرے فرمان
کو نہیں جان سکا۔ خدا وند اس سے پوچھ گا کہ تو قانون کے دائو پیچ کو تو خوب جانتا تھا
لیکن قرآن کے واضح فرمان کے معاملہ میں اپنی ہوشیاری کا ثبوت کیوں نہ دے سکا؟
اپنے حق کو جاننے میں ہر آدمی ہوشیار ہے۔ اس میں ہندو مسلم
سکھ عیسائی کسی کا کوئی استثنا نہیں۔ اپنے مال کو جس قدر مضبوطی سےسیکولراور بے
دین لوگ پکڑتے ہیں، اتنی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوطی سےدینداری کا دعوی کرنے
والے لوگ پکڑتے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دیندار ہیں اس لئے وہ جو چاہیں کریں۔
حدیث میں اس بات کی پیشن گوئی اس طرح کی گئی ہے: ابن مردویہ کی ایک روایت میں
ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "لوگوں پرایک کاٹ کھانے
والا زمانہ آئے گا۔ یہاں تک کہ مومن بھی اپنے ہاتھوں کی چیز کو دانت سے پکڑ لے گا
اور فضیلت و بزرگی کو بھول جائے گا۔ حالانکہ اللہ پاک کا حکم ہے کہ اپنے آپس کے
فضل کو فراموش مت کرو۔"
} دیکھئے تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ صفحہ{114