جمعرات، 29 مئی، 2014

دو وزرا (نجمہ ہپت اللہ اور جوال اورم ) کی کہانی


محمد آصف ریاض

نجمہ ہپت اللہ کومودی سرکارمیں اقلیتی امورکا وزیربنا یا گیا ہے۔ انھوں نے 26 مئی 2014 کوعہدے اوررازداری کا حلف اٹھا یا۔ 28 مئی کوانھوں نے میڈیا سے بات چیت کی ۔ بات چیت کے دوران انھوں نے کہا کہ" مسلمان اقلیت نہیں ہیں۔ اصل اقلیت  تو پارسی ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ "میری وزارت مسلم وزارت نہیں ہے بلکہ اقلیتی وزارت ہے۔"

اپنی ترجیحات کا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے کہا:

"اگرآپ کے پاس چھہ بچے ہوں توآپ ہمیشہ یہی دیکھیں گے کہ آپ سب سے کمزوربچے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ جہاں تک میری وزارت کا تعلق ہے تو میں دیکھتی ہوں کہ پارسی سب سے کمزور ہیں۔ اس لئے ان پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

If you have six children it is always important to see what you can do “If you have six children it is always important to see what you can do for the weakest of them. So far as my ministry is concerned, of the six minority communities the weakest is clearly the Parsis. They are a minuscule minority that is so  ‘ Muslims too many to be called minority, it’s Parsis who need special attention’ precariously placed that one needs to take care of their survival. Muslims really are too large in number to be called a inority community,” the minister told The Indian Express.
May 28, 2014

مسلمانوں کو ریزر ویشن دینے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا:
 “There is no provision in the Constitution for religion-based reservation”.
" آئین میں مذہب کی بنیاد پر ریزر ویشن دینے کا کوئی بندو بست نہیں ہے۔"

ملک کے مسلمان آئینی طورپراقلیت تسلیم کئے جاتے ہیں۔ 23 اکتو بر1993  کو مسلم کرسچن، سکھ اوربودھسٹوں کو آئینی طور پراقلیت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ لیکن اقلیتی وزیرجو کہ خود مسلم اقلیت  ہیں ان کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اقلیت ہونے کی بنیاد پرمراعات فراہم کرا نے کے بجائے الٹے ان سے اقلیت ہونے کا حق بھی چھین لیں گی۔

اب ایک اور وزارت کا ذکر سنئے۔

جوال اورم کو نجمہ ہپت اللہ ہی کی طرح مودی سرکارمیں قبائلی امورکا وزیربنایا گیا ہے۔ انھوں نے چارج سنبھالنے کے بعد ٹائمز آف انڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ نکسلزم کے خاتمہ کے لئے طاقت کے استعمال کے خلاف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ"نکسلزم ایک سوشل پروبلم ہے اوراس کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ قبائلوں کے دل ودماغ جیتے جائیں۔"

"The tribals have been cheated, oppressed by police, forest department, excise department, by the administration. They have lost faith. That is helping the Naxalites. We have to woo them back,"

یہ دو وزرا جوال اورم اور نجمہ ہپت اللہ کے دو مختلف بیانات ہیں۔ جوال اورم چونکہ قبائل کے وزیر ہیں اس لئے وہ قبائل کے موقف کو بہت ہی زور دار انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی کمیو نٹی کے تئیں اپنی خیرخواہی اور وفاداری کا  برملا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اسی کمیونٹی کے نام پرانھیں وزیر بنا یا گیا ہے۔ اس سچائی کے با جود کہ نکسلواد ملک کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اوراب تک ملک کو جتنا جانی و مالی نقصان نکسلواد سے ہوا ہے اتنا کسی اورواقعہ سے نہیں ہوا پھربھی قبائل وزیرکا عزم اورحوصلہ دیکھئے کہ وہ ان کا  دفاع کر رہے ہیں کیونکہ انھیں  قبائلیوں کی نمائندگی کے لئے وزیر بنایا گیا ہے۔

اب اقلیتی امورکے وزیرکا حال دیکھئے کہ جس مسلم اقلیت کے نام پرانھیں اقلیتی وزارت ملی ہے وہ اس کا پاس و لحاظ رکھنے کے بجائے ان کے خلاف کی موقف اختیار کر رہی ہیں۔ انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ اگرمسلمان اقلیت نہ ہوتے توانھیں کبھی اقلیتی وزارت بھی نہیں ملتی۔ وہ اس حقیقت کو بھول رہی ہیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہی انھیں اقلیتی وزیربنایا گیا ہے۔

یہ زندہ قوم اورمردہ قوموں کا فرق ہے۔ صحیح بات یہ ہےکہ دوسری قومیں زندہ ہیں اس لئے وہ زندہ دلی کے ساتھ  کسی معاملہ میں اپنا موقف رکھتی ہیں اور بہت ہی نازک مسائل کو بھی بحسن و خوبی حل کرلیتی۔ وہ نازک مواقع پر بھی اپنی قوم کا دفاع کرتی ہیں جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے وہ بحیثت قوم مردہ ہوچکے ہیں اس لئے وہاں بھی اپنا دفاع نہیں کر پاتے جہاں اپنا دفاع کرنا ان کا اخلاقی فرض بن جاتا ہے۔ نجمہ ہپت اللہ اس کی ایک زندہ مثال ہیں اور ایسی مثالیں پچھلی حکومت میں بھی موجود تھیں۔

نجمہ ہپت اللہ کا بیان پڑھ کرمجھے قارون کی یاد آگئی ہے۔ قارون یہود میں سے تھا اورفرعون کی مصاحبت کی وجہ سے اسے بہت سے خزانے ملے ہوئے تھے لیکن وہ انھیں اپنی قوم یہود پرخرچ نہیں کرتا تھا اس لئے وہ اپنے آپ کوموسیٰ کی قوم کے بجائے فرعون کی قوم سے سمجھتا تھا۔ اس کی موجود گی میں یہود پرمظالم  ڈھا ئے جاتے تھے اور وہ ان سے غیر متعلق

 ( indifferent)  بنا رہتا تھا۔ مسلم لیڈران کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔  

2 تبصرے:

  1. Bahot sahi analysis ..achcha artical ..janab yeh MOHTARMA bahot padhi likhi hai hai tab hi inhe use kiya ja raha hai ... 10 sal se zayda CONGRESS ne use ki ab BJP use kar rahi hai ... kahrak hongi FIROAN ki traha ...

    جواب دیںحذف کریں