مجھے جتنا ذلیل کیا جائے گا میرا عزم اتنا ہی جوان ہو کر ابھرے گا
محمد آصف ریاض
ہندوستان کی تاریخ میں
2014 کے لوک سبھا انتخاب کو یاد رکھا جائے گا۔ یہ انتخاب بہت ہی ہنگامہ آرائی اور
شوروغوغا کے درمیان 12 مئی کو ختم ہوا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا تھا
جب پورے انتخاب کو ایک آدمی کے ارد گرد گھومتے
ہوئے دیکھا گیا۔ یہ انتخاب مودی ورسس آل ہوگیا تھا۔ مودی کی تلخ کلامی سے ملک کا
ہر لیڈر پریشان تھا۔
مودی نے خاص طورسے
گاندھی گھرانے کو نشانہ بنا یا۔ انھوں نے سونیا
گاندھی راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی یہاں تک کے آنجہانی راجیو گاندھی کے
لئے بھی نازیبا الفاظ استعمال کئے۔
مودی کے جواب میں
پرینکا گاندھی میدان میں ا تریں اوررائے بریلی میں انھوں نے مودی اور ان کی پارٹی
بی جے پی کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بہت ہی سادہ جواب دیا۔ انھوں نے کہا:
" ہماری فیملی کو
رسوا کیا جا رہا ہے ۔ ہمیں گرانے کی کوشش
کی جا رہی ہے لیکن میں انھیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ مجھے جس قدر گرانے اور میرے
عزم کو جس قدر توڑنے کی کوشش کی جائے گی، میں اسی قدر عزم کے ساتھ حالات کا سامنا کروں گی۔ وہ لوگ ہمیں جتنا
گرانے کی کوشش کریں گے ہم اتنی ہی مضبوطی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہی میں نے
اپنی دادی اندرا گاندھی سے سیکھا ہے۔"
(They humiliate my family, they humiliate my
husband. I feel sad… I have learnt from Indiraji… The more they insult, more is
my determination to fight back… The truth will come out),” she said.
اگرآپ تاریخ کا مطالعہ
کریں تومعلوم ہوگا کہ تاریخ میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاریخ کا
ریکارڈ بتاتا ہے جب بھی کسی قوم یا فرد کواس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے تواس کی طرف سے
دو قسم کا رسپانس سامنے آیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ مشتعل ہوکراپنے حریف کو مٹانے کے
لئے اٹھ کھڑا ہو۔ دوسرا یہ کہ وہ سادہ الفاظ میں اپنے حریف کوآگاہ کردے کہ وہ
مجھے گرانے کی کوشش نہ کرے کیونکہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہ کہے کہ تم مجھے گرا نہیں سکتے اوراگرکسی طرح مجھے گرانے میں کامیاب ہوبھی گئے تب بھی تم مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ہم گرنے کے بعد مزید طاقتور ہوکراٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ ایک سادہ جواب ہے جو مشکل حالات میں کسی دانا
قوم یا فرد کی طرف سے آتا ہے۔
1947 میں جب ہندوستانی مسلمانوں
پربرا دن آیا ۔ جب انھیں ہر طرف سے ذلیل و رسوا کر نے کی کوشش کی گئی،تواس وقت ان کےدرمیان مولانا ابولکلام آزاد اٹھےاورانھوں نے جامع مسجد دہلی سے مسلمانان ہند کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
"اپنے دلوں کو
مضبوط بنائو اوراپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو۔عزیزو تبدیلی کے ساتھ چلو، یہ نہ کہو کہ ہم اس کے لئے تیار
نہیں تھے بلکہ اب تیار ہو جائو۔ ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے۔ اس سے
کرنیں مانگ لو اور ان کو اندھیری راہوں میں بچھا دو، جہاں اجالے کی سخت ضرورت
ہے۔"
یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ بہت زیادہ خراب حالات میں بھی بہت زیادہ چیخ و پکار کی ضرورت نہیں ہوتی،وہاں مولانا ابولکلام آزاد یا پرینکا گاندھی جیسے کسی
دانا آدمی کا سادہ کلام بھی پورے ماحول کو بدلنے کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں