اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدار خدا کی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا
محمد آصف ریاض
انجیل میں ہے کہ ایک شخص نے مسیح سے پو چھا؛ استاذ مجھےبتا ئیے کہ وہ کون سے بھلے کام ہیں جن کے ذریعہ میں ہمیشگی کی زندگی پالوں؟
مسیح نے جواب دیا یہی کہ " قتل نہ کرو، زنا اور بدکاری سے بچو، چوری نہ کرو، جھوٹی گواہی سے بچو، اور یہ کہ اپنے ماں باپ کا احترام کرو، اور اپنے پڑوسیوں سے اسی طرح سلوک کرو جس طرح کا سلوک تم خود اپنے ساتھ کرتے ہو ۔"
“‘Do not murder, do not commit adultery, do not steal, do not bear false witness, honor your father and mother, and love your neighbor as yourself.
یہ سن کر اس شخص نے جواب دیا؛ استاذ، یہ وہ کام ہیں جو میں پہلے سے ہی کرتا ہوں! تب مسیح نے کہا کہ جائو، جو کچھ تمہارے پاس ہے انھیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔ یہ سن کر وہ شخص بہت اداس ہوا اور اداسی کے ساتھ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا کیونکہ اس کے پاس بہت سا مال تھا۔
تب مسیح نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو میں کہتا ہوں " مالدارکا خدا کی جنت میں داخلہ بہت مشکل ہے۔ دیکھو؛ میں پھر کہتا ہوں کہ ایک اونٹ سوئیں کے ناکے سے گزر سکتا ہے، لیکن مالدار خدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔"
23Then Jesus said to His disciples, “Truly I tell you, it is difficult for a rich man to enter the kingdom of heaven. 24Again I tell you, it is easier for a camel to pass through the eye of a needle than for a rich man to enter the kingdom of God.”
انجیل میں یہ الفاظ پڑھ کر مجھے حیرانی ہوئی ۔ مجھے لگا کہ مالدار ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اورکسی شخص کے غیر جنتی ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ مالدار ہے۔ یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ آخر مالدار ہونا اتنا بڑا گناہ کیوں ہے کہ ایک "اونٹ تو سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدارخدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا"! بہت غورو خوض کے بعد میں ایک نتیجے پر پہنچا۔
انجیل میں جو بات بیان ہوئی ہے بلا شبہ الفاظ کے اعتبار سے وہ ایک پر اسرار بات معلوم پڑتی ہے لیکن اپنی روح کے اعتبار سے وہ حقیقت پر مبنی ایک بیان ہے۔ وہ حقیقت واقعہ کا ایک تمثیلی اعلان ہے۔
سب جانتے ہیں کہ کوئی شخص خود بخود مالدار نہیں ہوجاتا۔ مالدار بننے کے لئے آدمی کو بہت زیادہ مشقت کر نی پڑتی ہے۔ مالداری کےحصول کے لئے آدمی کو رات دن محنت کرنی پڑتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنا تن من دھن لگا دیتا ہے تب جاکر وہ صورت پیدا ہوتی ہے جسے ہم مالداری کہتے ہیں۔
اب ذرا غور کیجئے؛ آدمی کے پاس محدود توانائی ہے۔ اس کے پاس سوچنے سمجھنے کے لئے ایک ہی دل اور دماغ ہے۔ آدمی اگر ایک کام کرے تو وہ دوسرا کام نہیں کر سکتا، آدمی اگر ایک بات سوچے تو اسی وقت وہ دوسری بات نہیں سوچ سکتا۔ انسان کی اس محدودیت کا اعلان قرآن میں ان الفاظ میں ہوا ہے" خدا نے کسی سینے میں دو دل نہیں رکھا"۔
آدمی کے پاس محدود وسائل ہوتے ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص اپنےسارے وسائل کو دنیا کی طلب پر صرف کردے تو ظاہر ہے کہ اس کے پاس جنت کے حصول کے لئے کوئی اثاثہ نہیں بچے گا، تب خود بخود وہ صورت پیدا ہوگی جو کسی شخص کو جنت سے محروم کردے گی۔ اسی صورت حال کا اظہار انجیل میں ان الفاظ میں ہوا ہے کہ "اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدارخدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا"!
قرآن میں اسی بات کا اعلان ان الفاظ میں ہوا ہے
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿١٦﴾ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٧﴾
"مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔"
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾
"زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے"
آدمی اگر دنیا سے دل لگا لے اور اسی کے بارے میں سوچے اور محنت کرے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آدمی جنت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے، اور جو شخص جنت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو جو اس کے لئے مشقت نہ اٹھائے اسے جنت ملنے والی نہیں ہے۔
انجیل کے اس بیان کو آپ انجیل کے ایک دوسرے بیان سے سمجھ سکتے ہیں۔ انجیل میں ہے:
"No one can serve two masters. Either you will hate the one and love the other, or you will be devoted to the one and despise the other. You cannot serve both God and money.
Matthew 6:24
"کوئی بھی شخص اپنے دو مالکان کو خوش نہیں کر سکتا۔ یا تو تم ایک سے نفرت کرو گے اور دوسرے سے محبت؛ یا تم ایک کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دو گے اور دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھو گے۔ تم خدا اور مال دونوں سے محبت نہیں کر سکتے۔"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں