زندگی دھارے سے نہیں، بھائی چارے سے چلتی ہے
محمد آصف ریاض
ایک روز میں ایک وکیل کے گھرٹھہرا،
تو دیکھا کہ گھر والوں کے درمیان ان کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ باہر جیتے ہوئے
انسان معلوم پڑتے تھے لیکن گھر والوں میں وہ ہارے ہوئے انسان معلوم پڑ رہے تھے۔ میں
نے بہت غور کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک شخص جو دوسروں کے معاملات ٹھیک کرانے کی
گارنٹی لیتا ہے، وہ خود اپنے معاملات میں بے ٹھیک بنا ہوا ہے؟
مجھے تجسس ہوا۔ میں نے یہ جاننا
چاہا کہ ایک کامیاب وکیل اپنے گھر والوں میں ناکام کیوں ہے؟ وہ جو باہر سب کے
معاملات ٹھیک کرانے کی گارنٹی لیتا ہے، وہ اپنے معاملات میں اس قدر بےٹھیک کیوں ہے؟
اس حقیقت کے ادراک کے لئے میں نے
ایک اور وکیل سے ملاقات کی ۔ میں اس کے گھر ٹھہرا تو دیکھا کہ گھروالوں اوراحباب
کے درمیان اس کے معاملات بہت بہتر ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک وکیل
اپنے گھر والوں میں ہارا ہوا، انسان معلوم پڑتا ہے اور دوسرا جیتا ہوا انسان۔
تھوڑی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ
پہلا وکیل ہرچیزکو قانون کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ ہر چیز میں 'دھارا' تلاش کرتا
ہے جبکہ دوسرا وکیل ہرمسئلہ کا عملی (pragmatic) حل چاہتا ہے۔
دوسرے وکیل کی کامیاب زندگی کا
رازاس حقیقت کے ادراک میں پوشیدہ تھا: " زندگی دھارے سے نہیں ، وہ محبت، حسن
سلوک، اور بھائی چارے سے چلتی ہے۔"
اسی بات کوایک معروف امریکی مفکرمارک ٹیون نے ان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے:
" کمترانسان قانون کے ذریعہ
قابو میں کیا جا تا ہے، جبکہ برتر لوگ حسن سلوک سے جیتے جاتے ہیں" مارک ٹیون
“Laws control the lesser man... Right conduct
controls the greater one.”
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں