کمزوری آپ کو تباہ نہیں کرتی، یہ آپ کی طاقت ہے جو آپ کو تباہ کر دیتی ہے
محمد آصف
ریاض
فرید زکریا
معروف انڈین اسکالررفیق زکریا کے بیٹے ہیں ۔ وہ عالمی شہرت یافتہ سیاسی
مبصراورتجزیہ نگارہیں۔ وہ امریکہ میں رہتے ہیں۔ 2014 تک وہ ٹائم میگزین کے
ایڈیٹررہے، اس کے ساتھ ہی وہ ایشیا سے متعلق اوبامہ کی صلاح کارٹیم میں بھی کام کر
چکے ہیں۔ انھوں نے سن جرنل (Sun Journal) میں ایک مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے:
"ہماری
توجہ سے دور چین اپنی کامیابی کی راہ پر گامزن ہے۔"
(Outside
our focus, China marches on)
مسٹرزکریا
نے لکھا ہے کہ جنوری 2007 میں جبکہ جارج ڈبلیو بش عراق میں مزید فوجی کمک بھیجنے
کا حکم صادر فرما رہے تھے، میں ایک چینی کمیونسٹ دوست کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔
کھانے کے دوران میں نے پوچھا کہ عراق میں مزید فوج بھیجنے کے امریکی فیصلے کوچین
میں کس طرح لیا جا رہا ہے تواس کا جواب بہت ہی اثر دار تھا۔ اس نے کہا:
"
ہم تو یہ چاہیں گے کہ تم اپنی ساری فوج عراق بھیج دو اور وہاں اگلے 10 سال تک
مصروف جنگ رہو۔ اس درمیان ہمیں اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کا موقع مل جائے گا۔"
"We would hope that you would send the entire American Army
into Iraq and stay for another 10 years. Meanwhile, we will keep building up
our economy."
مسٹرزکریا نے لکھا ہے کہ مجھے یہ بات اس ہفتے اس وقت یاد
آگئی جبکہ میں جنوبی ایشیا کےدورے پرتھا ۔ میں نے دیکھا کہ " مغربی دنیا آئی ایس،
ایران اور یونان کے معاملہ میں مصروف رہی۔ اس درمیان چین نہ صرف اپنی معیشت کو
مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگیا بلکہ اس نے خطے میں نئے
قسم کی جغرافیائی سیاسیات کا آغاز بھی کردیا۔"
ایک اورمصنف نے اپنے مضمون میں چینی
پہل جیسےایشیا ڈیولپمنٹ بینک، ایشیا انفراسٹرکچرانوسٹمنٹ بینک اورسنگھائی کوآپریشن
آرگنائزیشن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ (non-West ) یعنی غیر مغرب کا عروج ہے۔
یوروپ
اورامریکہ کی تباہی بتا رہی ہے کہ ہرجنگ دو طرفہ تباہی پرختم ہوتی ہے۔ کوئی بھی
جنگ یکطرفہ تباہی پرختم نہیں ہوتی۔ جنگ کے بارے میں یہ کہا جا تا ہے کہ آپ اپنی
منشا کے مطابق اسے شروع کر سکتے ہیں لیکن آپ اپنی منشا کے مطابق اسے ختم نہیں کر
سکتے۔ یعنی جنگ کا آغاز آدمی کے اپنے ہاتھوں میں ہے لیکن اس کا انجام اس کے ہاتھوں
میں نہیں۔
افغانستان
برباد ہوا تواس کے ساتھ روس بھی کئی ٹکڑوں میں منقسم ہو کربکھر گیا۔ عراق برباد
ہوا تو اس کے ساتھ ہی امریکہ اوریوروپ بھی برباد ہوگیا۔ یونان، اسپین ، اٹلی اور
یوروپ کے دوسرے ممالک میں آج جو اتھل پتھل ہے اس کی تاریں کہیں نہ کہیں عراق
اورافغانستان جنگ سے جڑی ہوئیں ہیں۔
تاریخ کا
دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ تما بڑی طاقتیں اس وقت تباہ ہوئیں جبکہ وہ اپنے شباب پر تھیں۔
مثلاً فرعون اس وقت تباہ ہوا جبکہ اس کی حکومت شباب پرتھی۔ رومن اورایرانی ایمپائراس
وقت تباہ ہوئے جبکہ وہ طاقت کے نشے میں تھے۔ روس اس وقت ٹوٹا جبکہ وہ عہد شباب پر
تھا۔ یوروپ اور امریکہ اس وقت ٹوٹ رہا ہے جبکہ یہ طاقتیں عہد شباب میں ہیں۔
یاد
رکھئے" کمزوری آپ کو تباہ نہیں کرتی، یہ آپ کی طاقت ہے جو آپ کو تباہ کر دیتی
ہے۔" اگر آپ کمزور ہیں تو یہ بہت خطرے کی بات نہیں، خطرہ اس وقت ہے جبکہ آپ
طاقت میں ہوں۔ تو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم زمین پرطاقت حاصل ہے اس لئے ہمیں کوئی
خطرہ نہیں، انھیں جاننا چاہئے کہ قومیں ہمیشہ اپنی طاقت کے ساتھ ختم ہوئی ہیں، وہ
بے طاقتی کے ساتھ ختم نہیں ہوئیں۔
عاد ، ثمود
اور میخوں والے، سب طاقت کے ساتھ ختم ہوئے ، ان میں سے کوئی بے طاقتی کے ساتھ ختم
نہیں ہوا۔ تو اگر آپ طاقت والے ہیں تو سنبھل کر چلئے کہ آپ کے گرنے کا اندیشہ
زیادہ ہے۔
معروف اردو
شاعرمیرتقی میراپنے اشعار میں شاید اسی نکتے کی وضاحت کرنا چاہ رہے تھے:
کل پاؤں ایک کاسۂ
سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان
شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ
کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو
کا سرِ پُر غرور تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں