اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے
محمد آصف ریاض
انیس فروری 1981 کوہندوستان جب سو کراٹھا تو اسے یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ میناکشی
پورم میں 300 فیملی پرمشتمل 800 افراد مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس واقعہ پرپورے ملک میں کھلبلی
مچ گئی۔ بی جے پی، ہندو منانی سبھا، وشو ہندو پریشد اورآرایس ایس جیسی ہندووادی
تنظیمں بے چین ہو اٹھیں۔ بے جے پی کے لیڈراٹل بہاری واجپئی بھاگے ہوئے میناکشی
پورم پہنچے۔
اتنی بڑی تعداد میں دلتوں کو مسلمان ہوتا ہوا
دیکھ کرہندو وادی تنظموں میں کھلبلی مچ گئی ۔ وہ اس کوشش میں لگ گئیں کہ کسی طرح
ان مسلمانوں کی گھرواپسی کرائی جائے۔ اس مہم کے تحت آریہ سماج نے وہاں ایک کیمپ
اورایک اسکول قائم کیا۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ کیا لوگ واپس ہندو دھرم میں
آگئے؟
انڈیا ٹیوی نے 12 دسمبر 2014 کوایک اسٹوری کی۔
اس اسٹوری میں بتایا کہ ہرچند کہ ہندووادی تنظیموں نےمیناکشی پورم کے دلتوں کی گھر
واپسی کی بڑی کوشش کی لیکن ان میں سے ایک بھی ہندو دھرم میں واپس نہیں لوٹا۔ انڈیا
ٹیوی کے الفاظ یہ ہیں:
"آریہ سماج نے
دلتوں کی گھرواپسی کے لئے میناکشی پورم میں ایک کیمپ قائم کیا اورایک اسکول بھی
کھولا۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آج یہ اسکول کھنڈربنا ہوا ہے اورکوئی بھی
دلت اسلام دھرم کوچھوڑ کرہندو دھرم میں واپس نہیں لوٹا۔"
The
Arya Samaj set up a mandapam and a school building in the hamlet in 1981 soon
after the mass conversions, in order to re-convert the Dalits, but these buildings
now remain abandoned and dilapidated. There was no re-conversion in reality.
یہ ایک واقعہ ہےجواسلام
کی داخلی قوت کوبتا رہا ہے۔ یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ انسان اسلام کےخلاف پروپگنڈہ
کا طوفان تواٹھا سکتا ہے لیکن وہ اسلام کے چراغ کو بجھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اسلام
دوسرے مذاہب کی طرح محض چند رسم و رواج کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک اسٹرانگ آئیڈیا
لوجی کا نام ہے۔ اسلام معرفت حق کا نام ہے اور یہ معرفت جسے حاصل ہوجاتی ہے وہ کسی
دوسری چیزکا خریدار نہیں بنتا۔ اس کی مثال موسی اورجادو گروں کے واقعہ میں ہمیں
ملتی ہے۔
موسیٰ ، جادو گر اور
اصحاب الاخدود
جادو گروں پرجب یہ سچائی
کھل گئی کہ موسیٰ اللہ کے رسول ہیں تو انھوں نے فرعون کی دھمکی پرصاف کہہ دیا کہ
تم کوجوکرنا ہے کرگزرو ہم تو موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے اورہم اپنے ایمان سے کسی
بھی طرح دستبردارنہیں ہو ں گے۔ سورہ الاعراف
اسی طرح قرآن کی سورہ البروج
میں خندق والوں کا ذکرہوا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ
اگلے زمانے میں ایک باشاہ تھا اس کے یہاں ایک جادو گرتھا۔ جب وہ جادو گر بوڑھا
ہوگیا تواس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اورمیری موت کا وقت آرہا
ہے، مجھے کسی بچے کو سونپ دو تو میں اسے جادو سکھا دوں۔ چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو
وہ تعلیم دینے لگا۔ لڑکا اس کے پاس جا تا تو راستے میں ایک راہب کا گھرپڑتا جہاں
وہ عبادت میں اورکبھی وعظ میں مشغول رہتا۔ یہ بچہ بھی وہاں کھڑا ہو جا تا اوراس کے
طریقہ عبادت کو دیکھتا اوراس کی باتوں کو سنتا۔ وہ آتے جاتے یہیں رک جا تا تھا۔
ایک دن جب گھر واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ راستے میں ایک شیرکھڑا ہے اوراس نے آنے
جانے والوں کا راستہ روک رکھا ہے۔ لوگ خوفزدہ ہیں اورادھرادھر بھاگ رہے ہیں۔ بچے نے ایک پتھر اٹھا یا اورکہا خدایا، اگرراہب
کا دین سچ ہے تواس پتھرسے یہ شیرمارا جائے ۔ پتھر لگتے ہی وہ شیر ماراگیا اور
لوگوں کا آنا جا نا شروع ہو گیا۔
اس واقعہ کے بعد لوگوں میں بچے کا چرچہ ہوگیا
۔ کہا جا تا ہے کہ بادشاہ کا وزیر نابینا تھا ۔ وہ بچہ کے پاس آیا اور کہنے لگا تم
میری آنکھ ٹھیک کردو۔ بچے نے کہا میں کچھ نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر تم خدا پر ایمان لائو تو میں خدا سے
دعا کروں گا اور وہ تمہاری آنکھیں ضرور ٹھیک کر دے گا۔ نابینا ایمان لے آیا اور
آنکھوں والا ہوکر لوٹا ۔ اس نے اس واقعہ کا ذکربادشاہ سے کیا۔
بادشاہ نے کہا کہ تمہیں اس بچے نے ٹھیک کردیا۔
وزیرنے جواب دیا، نہیں اس بچے کے رب نے مجھے
ٹھیک کیا ہے اور ہم اس کے رب پرایمان لے آئے ہیں ۔ بادشاہ بھڑک اٹھا، اس نے حکم
دیا کہ اس بچے کو پہاڑ سے ڈھکیل کر ماردیا جائے۔ جب لوگ اسے پہاڑکی چوٹی پرلے گئے تو
بچے نے خدا سے دعاکی چنانچہ زلزلہ آگیا اورسارے لوگ پہاڑ سے گرکرمرگئے اوربچہ واپس
بادشاہ کے پاس آگیا۔
اب بادشاہ نے حکم دیا کہ بچے کو دریا میں غرق
کردیا جائے۔ چنانچہ لوگ بچے کو دریا میں غرق کر نے لئے گئے۔ دریا میں طوفان آیا
اوربچہ بچ گیا اور باقی لوگ مارے گئے۔ بچہ لوٹ کر بادشاہ کے پاس آیا۔
بادشاہ نے ایک بارپھربچے کو مارنے کی کوشش کی
تو بچے نے کہا تم مجھے اس طرح نہیں مار سکتے۔ میں تمہیں تدبیر بتاتا ہوں ۔ اس
تدبیر کے ذریعہ تم مجھے مار سکتے ہو ۔ بچے نے بتا یا کہ شہر کے تمام لوگوں کو جمع
کر لو اور مجھے کھجورکی شاخ سے لٹکا دو اورپھر یہ کہہ کر تیر مارنا " بسم
اللہ رب ھذا الغلام "یعنی اس بچے کے رب کے نام سے تیر مارتا ہوں۔ وہ تیر مجھے
لگے گا اورمیں مرجائوں گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا ۔ بھیڑ جمع کی گئی اوربسم اللہ
رب ھذالغلام پڑھ کراسے تیر مارا گیا۔ اور
بچہ مرگیا۔
یہ دیکھ کرسارا مجمع پکار اٹھا کہ ہم سب بچے
کے رب پر ایمان لا ئے ۔ بادشاہ بہت زیادہ برہم ہوا۔ اس نے سمجھ لیا کہ بچہ اپنے
مشن میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے شہر بھر میں خندقیں کھداوئیں اور ان میں آگ بھڑکا دیا
اور تمام اہل ایمان کو چن چن کر دہکتی ہوئی آگ میں جلانا شروع کردیا۔ بادشاہ اوراس
کے لوگ خندق کے کنارے بیٹھ کراہل ایمان کی چیخ و پکار کا تماشا دیکھ رہے تھے ۔ کہاجاتا
ہے کہ آخر میں ایک بڑھیا لائی گئی ۔ وہ خوفزدہ تھی تواس کے ننھے بچے نے کہا ماں،
صبر کر، تو حق پر ہے، یہ کہہ کر وہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ آگ میں کود گیا۔
دہکتی ہوئی آگ سے بھری
ہوئی خندق اہل ایمان کے اندر بھڑکنے والی ایمانی آگ کو ٹھنڈا نہ کر سکی۔ لوگ یکے
بعد دیگرے آگ میں کودتے رہے اوراہل ایمان ہونے کا ثبوت دیتے رہے۔ انھوں نے ثابت
کیا کے اہل ایمان کے پاس ایک ہی متاع ہے اور وہ ہے متاع دین ۔ اب ایک اورمثال
لیجئے۔
اتر پردیش کے میرٹھ ضلع
کے سردھنہ میں ایک چرچ ہے۔ اس چرچ کا نام ہے بیگم سمرو۔ بیگم سمرو ایک مسلم خاتون
تھیں۔ اٹھارہویں صدی کی اس خاتون نے ایک
عیسائی مشنری سے شادی کر لی تھی ۔ بعد میں اپنے شوہر کے مرنے پرانھوں نے ایک چرچ
بنوایا تھا۔ آج بھی سردھنہ میں یہ چرچ موجود ہے اور 'بیگم سمرو چرچ' کے نام سے جا
نا جا تا ہے۔
مولانا وحید الدین خان
نے اپنے سفر نامہ میرٹھ میں لکھا ہے کہ جب میں وہاں گیا تو میں نے یہ معلوم کرنے
کی کوشش کی کہ عیسائی مشنریوں کی کوششوں سے کتنے مسلمان عیسائی ہوئے ۔ مقامی لوگوں
نے انھیں بتایا کہ چار مسلمان عیسائی بنے۔ کتنی مدت میں؟ تقریباً چار سو سال کی
مدت میں ۔ چارسو سال کی مدت میں صرف چار لوگ۔ یہ ہے اسلام کی طاقت۔ اسلام کوئی پھول نہیں ہے
کہ کڑی دھوپ اسے کمہلا دے یا کوئی بچہ اٹھے اوراسے توڑ کر لے جائے۔ اسلام کی مثال
ایک عظیم درخت کی سی ہے جس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں اور جڑیں بہت گہری
زمین میں پھیلی ہیں۔ وہ درخت آسمان سے انرجی لیتا ہے اور زمین سے پانی۔ اورسب سے
اہم بات یہ ہے کہ اس پر خدائی تحفظ کا کوچ بھی چڑھا ہوا ہے کوئی کٹار اسے کاٹ بھی
نہیں سکتا۔ اسلام دین محفوظ ہے۔
یہاں مجھے ایک کرسچن مصنف
کا قول یاد آ رہا ہے۔ اس نے ہندوستان کے پس منظر میں لکھا ہے کہ ہندوستانی
عیسائیوں کو آپ ہندو یا بدھسٹ بنا سکتے ہیں۔ آپ ان سے ان کا مذہب بدلوا سکتے ہیں
لیکن یہی کام آپ مسلمانوں کے ساتھ نہیں کر سکتے۔ مسلمان اپنے بچوں کی نگرانی اس طرح کرتے ہیں جس طرح
مرغی اپنے بچوں کی نگرانی کرتی ہے۔
مسلمانوں کے لئے سبق
ان واقعات میں مسلمانوں
کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بارے میں اندیشہ ہائے
دوردراز میں مبتلا ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں یہ نہیں سوچنا ہے کہ کوئی ان
کے مذہب کو ختم کر دے گا۔ خدا کا مذہب غالب ہونے کے لئے آیا ہے وہ مغلوب ہونے کے
لئے نہیں آیا ہے۔
شرک اب سر نہیں اٹھائے
گا
دوسری بات یہ ہے کہ
پیغمبراسلام اوران کے اصحاب نے دنیا سے شرک کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا ہے۔ اب جو
شرک باقی ہے وہ مردہ شرک ہے اوراس سے کوئی نقصان ہونے والا نہیں ہے۔ مثلا ہندوئوں
کا کیس لے لیں ۔ کوئی بھی ہندو اپنے مذہب کو جسٹیفائی نہیں کر پاتا۔ وہ صرف یہ
کہتا ہے کہ ایسا اس کے ماں باپ کرتے آئے ہیں یا ایسی دھارنا ہے یا یہ ہندو کلچر ہے
وغیرہ۔ تو پتہ چلا کہ دنیا میں کہیں زندہ شرک موجود نہیں ہے البتہ مردہ شرک باقی
ہے اور یہ مردہ شرک ہمیشہ باقی رہے گا کیونکہ اسی میں انسان کا امتحان ہے۔ اگرایسا
ہو کہ سارا دین ایک ہی ہوجائے تو پھر امتحان کا موقع ہی ختم ہوجائے گا اوراگر ایسا
ہو تو خدا کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ خدا نے اسی امتحان کی غرض سے اولاد آدم کو فکرو
عمل کی آزادی دی ہے۔ خدا کو اولاد آدم کا امتحان اتنا زیادہ مطلوب ہے کہ وہ اس بات
کا بھی رسک لے رہا ہے کہ لوگ اس کی دنیا میں رہیں اوراس کا نام نہ لیں۔ لوگ اس کا کھائیں
اور پیئں اورنام غیرخدا کا لیں ۔ خدا یہ سب برداشت کر رہا ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس
نے ایک دن فیصلے کا مقرر کر رکھا ہے اور اس سے پہلے قول عمل کی آزادی دے رکھی ہے۔
آگرہ کا کیس
اب آپ سوال کریں گے کہ اترپردیش
کے آگرہ میں جو کچھ ہوا وہ کیا تھا ۔ اترپردیش کے آگرہ میں دسمبر 2015 کو ایک
حیران کن واقعہ پیش آیا ۔ لوگ جب سوکر اٹھے تو معلوم ہوا کہ آگرہ میں 60 مسلمان ہندو بن گئے ہیں۔ سارے قومی اخباروں میں اس
کی رپورٹنگ ہوئی لیکن پھر تین دن کے بعد ہی یہ خبر آئی کہ کچھ ہندو وادی تنظیموں
نے ان سادہ مسلمانوں کو ہندو نہیں بلکہ بیوقوف بنا یا تھا۔ انھیں آگ کے سامنے بیٹھا
کر تصویریں اتار لی گئی تھیں اوریہ شورکیا گیا تھا کہ وہ اسلام دھرم کو چھوڑکر ہندو
بن گئے ہیں۔ لیکن بہت جلد ہی مطلع صاف ہوگیا اور تمام لوگوں نے اعلان کیا کہ وہ
مسلمان تھے اور مسلمان ہیں۔ تو پھر یہ ڈرا مہ کیوں پیش آیا؟
دراصل آگرہ کے اس واقعہ
کی کڑی میناکشی پورم سے ملتی ہے۔ میناکشی پورم میں 1981 میں جو واقعہ پیش آیا تھا
وہ آج بھی نام نہاد ہندو وادی تنظیموں کے نزدیک قومی شرم کا واقعہ سمجھا جا تا ہے اورآگرہ
میں اسی قومی شرم کے دھبے کو دھونے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس واقعہ کا حقیقت سے کوئی
تعلق نہیں ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں