نرمی باقی رہنے والی چیز ہے اور سختی باقی نہیں رہتی
محمد آصف ریاض
جنوری 2016 کو نئی دہلی میں کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک معا ملہ پراپنی بے
چینی کا اظہار کررہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ صبرکیجئے کیونکہ اللہ تعا لیٰ صبرکرنے
والوں کے ساتھ۔ ہے۔ میں نے انھیں قرآن کی یہ آیت پڑھ کرسنائی۔ فصبركَمَا صَبَرَ أُولُو
الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ " پس اے نبی صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے
صبر کیا"۔ 46:34
میری اس بات پرایک صاحب بھڑک اٹھے اورکہنے لگے کہ آدمی کب تک صبر کرے
گا؟ وہ کب تک بچ بچ کرچلتا رہے گا؟ میں نے
جواب دیا کہ اسی کا نام تقویٰ ہے۔ پھرمیں نے انھیں حضرت عمرکا ایک واقعہ سنا یا
ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابی بن کعب سے تقویٰ کے بارے میں
پوچھا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے کعب تقویٰ کیا ہے؟ حضرت کعب نے جواب ديا امیرالمومنین
آپ کبھی خار دار وادیوں سے گزرے ہیں ؟ جواب ملا ہاں! أبی بن کعب نے پوچھا : کس طرح
گزرے ؟ حضرت عمرنے جواب دیا: دامن کوبالکل سميٹ لیا تھا اور بچ بچ کر چلتا تھا،
حضرت کعب نے فرمایا اے امیرالمومنین یہی تقویٰ ہے۔ ( تفسير ابن کثير : 1/43)
اصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا ناساز گار حالات سے بھری پڑی ہے اوران
ناساز گارحالات سے بچ بچ کر نکل جانے کا نام تقویٰ ہے۔ لیکن میری ان باتوں کا میرے
سامعین پر کوئی اثرنہیں پڑا۔ وہ اب بھی اپنی بے صبری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
اس دوران ایک بوڑھے شخص نے ایک اوربات کہی جو مجھے پسند آئی۔ اس نے کہا
کہ انسان کے پاس منھ ہے۔ اس میں زبان بھی ہے اور دانت بھی۔ زبان نرم ہوتی ہے اوردانت
سخت۔ لیکن جب انسان بوڑھا ہوکرمرجا تا ہے تو اس کے سارے دانت جھڑ جاتے ہیں لیکن اس
کی زبان باقی رہ جاتی ہے۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرمی باقی رہنے والی چیز ہے اور سختی
باقی نہیں رہتی۔
اس بوڑھے شخص کی بات سن کر مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آگئی۔
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا، إِنَّ مَعَ
الْعُسْرِ يُسْرًا : یعنی مشکل کے ساتھ آسانی ہے؛ پس یقیناً مشکل کے ساتھ
آسانی بھی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں