پیر، 20 جولائی، 2015

تبدیلی مذہب کی ایک دوسری کہانی

تبدیلی مذہب کی ایک دوسری کہانی

محمد آصف ریاض
جب وہ بچہ تھا تو اس کے ماں باپ نے اس کا نام ابھینندن رکھا تھا۔ ابھینندن ہندی کا لفظ ہے جس کے معنی ہوتا ہے استقبال یا خیرمقدم۔ ابھینندن اب بڑا ہو چکا ہے، اب اس نے اپنا نام ابراہیم رکھ لیا ہے۔ کیونکہ اب وہ دین ابراھیم میں داخل ہوچکا ہے۔ ابھینندن بہارضلع کے بھا گلپورکے ایک گائوں کا رہنے والا ہے۔ ایک ملاقات میں اس نے بتا یا کہ جب وہ مذہب اسلام میں داخل ہوا توگھرکےسارے لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ یہ اس کے لئے سخت مرحلہ تھا۔ اس نے گھرچھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی اس کے ساتھ جانے پرراضی نہ ہوئی کیونکہ اس پراس کے والدین اورساس سسرکا دبائوتھا۔ ابھینندن اپنی بیوی بچے کوچھوڑ کرگھرسے نکل گیا۔ پھرایک سال کے بعد گھر واپس آیا ۔ بیوی سے چپکے سے پوچھا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہو گی؟ اس نے کہا؛ ہاں۔ تب اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ بھاگنے کے لئے تیار ہوجائو۔ وہ اپنی بیوی بچے کولے کرشہر کی طرف بھاگ نکلا۔ اب اس کی بیوی بھی دین ابراہیم میں داخل ہوچکی ہے۔ ابھینندن کے تین بچے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ شہرمیں رہتے ہیں۔ بعد میں انھوں نے اپنے بھائی منڈل کو بھی شہرمیں بلا لیا، انھیں دین کی تعلیم دی، کچھ دنوں کے بعد وہ بھی مسلمان ہوگئے۔
مسٹرابھینندن نے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ ابھی حال ہی میں وہ اپنے گائوں گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے گائوں والوں کو اللہ اوررسول کا پیغام سنایا اورانھیں دین کی تعلیم دی۔ انھوں نے گائوں والوں کوجب بتایا کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے تو گائوں کے کچھ لوگ بھڑک اٹھے۔ "وہ مجھ سے جھگڑا کرنے لگے تومیری طرف سے میرے تائو کا بیٹا یعنی میرے بڑے باپ کا بیٹا لکشمن کھڑا ہوا اوراس نے پکار کرکہا کہ " تم لوگ میرے رہتے ہوئے میرے بھائی کو نہیں مار سکتے۔ وہ مسلمان ہوگیا تو کیا ہوا وہ میرا بھائی ہے"
ابھینندن بتاتے ہیں کہ گائوں کے لوگوں سے بات چیت ختم کرکے وہ اپنے گھرچلےآئے۔ " گھرمیں پتا جی نے کہا کہ بیٹا تمہارے مسلمان ہونے سے کسی کو تکلیف نہیں ہے لیکن بات یہ ہے کہ تم ہرکسی کو اللہ اوررسول کی بات سنانے لگتے ہو یہی سب سے بڑی دقت ہے، اسی بات پر لوگ بھڑک جاتے ہیں۔" ہم نے جواب دیا ۔ " پتا جی مسلمان ہو نے کے بعد تو یہ میرا فرض بن جا تا ہے کہ میں لوگوں کو اللہ کی بات سنائوں ۔ میں اس کام سے ہرگزباز نہیں آسکتا ۔ یہ کہہ کروہ اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ گھر سے شہرکے لئے روانہ ہوگئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ راستے میں بیوی نے انھیں بتایا کہ " گائوں والے ہمیں نکال رہے ہیں لیکن ہم نے سنا ہے کہ اس گائوں میں کچھ مسلمان زمینیں خرید رہے ہیں، وہ یہاں بسنے والے ہیں، اگر وہ یہاں بس گئے تو ہم لوگ بھی یہاں آکرآباد ہوجائیں گے۔"
لکشمن کی یہ بات سن کرکہ " میرے رہتے ہوئے تم میرے بھائی کو نہیں مار سکتے" مجھے پیغمبر اسلام کا ایک واقعہ یاد آگیا۔
یہ واقعہ بہت مشہور ہے اورسیرت کی تقریباً تمام کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں دین کی دعوت دے رہے تھے۔ اسی دوران ابوجہل کا اس طرف سے گزرہوا۔ ابوجہل جو پیغمبر اسلام کا چچا تھا اور پیغبر اسلام سے سخت عداوت رکھتا تھا اس نے پیغمبر اسلام کو زودو کوب کیا اورانھیں پتھر سے مارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوجہل کے ظلم و ستم پرخاموش رہے اوراس کی اذیت پرصبرکیا۔
 ایک عورت اپنے گھرمیں بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اچانک اس نے حضرت حمزہ کو ادھر سے گزرتے ہوئے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔ وہ دوڑی ہوئی حضرت حمزہ کے پاس آئی اور کہنے لگی : "کاش آپ تھوڑی دیر پہلے یہاں ہوتے اوراپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ  کیسا برا سلوک کیا، اس نے انہیں گالیاں دیں اوراُن پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ اورآپ کے بھتیجے محمد نے اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔"
حضرت حمزہ یہ سن کرسخت غضبناک ہوئے اورکہنے لگے : ابوجہل کی یہ جرات کہ اُس نے میرے بھتیجے محمد پرہاتھ اٹھایا۔ یہ کہتے ہوئے تیزتیز قدم اٹھاتے ہوئے خانہ کعبہ میں پہنچے۔ ابوجہل کو دیکھا کہ وہ روسا ئےقریش کی ایک مجلس میں بیٹھا ہے۔ اسے دیکھ کرحمزہ کا غصہ مزید بھڑک اٹھا اورآپ نے ابوجہل کو یہ کہتے ہوئے کہ تیری یہ ہمت کہ تو میرے بھتیجے محمد کوگالی دے اوران سے بدسلوکی کرے، اپنی کمان سے اس کے سر پراس زور سے ماراکہ اس کا سر پھٹ گیا۔ اس پراس کے ساتھیوں نے حضرت حمزہ کوجوکہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے پکڑنا چاہا، توابوجہل نے کہا کہ ابوعمارہ کو چھوڑ دو، اسے کچھ نہ کہو، واللہ، ہم نے اس کے بھتیجےمحمد کوآج  بہت برا بھلا کہا ہے۔
ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 2129
پیغمبراسلام کا یہ واقعہ آج  اکیسویں صدی میں بھی کس تسلسل کے ساتھ  دہرایا جا رہا ہے اس کی ایک جھلک آپ نے اوپر ابھینندن کے واقعہ میں دیکھی، کہ کس طرح اس کا چچا زاد بھائی لکشمن اس کے اور اس کے مخالفین کے درمیان حمزہ بن کر کھڑا ہوگیا۔ اب میں آپ کو ایک اور واقعہ سنا تا ہوں ، یہ واقعہ خود میرے ساتھ گزراہے۔
2014 میں جب ہندوستان میں لوک سبھا کا انتخاب ہو رہا تھا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ مسلمانوں کے بارے میں طرح طرح کے بھڑکائو بیانات جاری کررہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا مسلمانوں کو پاکستان بھگا دیا جائے گا۔ کوئی کہہ رہا تھا انھیں دریا میں ڈھکیل دیا جائے گا۔ کوئی ان کے وجود کو مٹا دینے کی بات کر رہا تھا وغیرہ۔
اس درمیان ایک دن میں پٹنہ کے سفر پر تھا۔ آرہ اوربکسر کے درمیان ایک ہندو جوڑا ٹرین میں سوارہوا۔ دونوں میری سیٹ پر بیٹھ گئے۔ وہ مجھ سے بات چیت کرنے لگے۔ عورت خاموش تھی لیکن مرد بول رہا تھا۔ اس نے گفتگو کے دوران ایک ایسی بات کہی جو میرے لئے غیر متوقع تھی ۔ آج تک ہم نے کہیں کسی ہندو کی زبان سے اس طرح کی بات نہیں سنی تھی۔
اس نے کہا کہ " کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کواس ملک سے نکال دیں گے، ان کو مار دیں گے، ان کو دریا میں ڈھکیل دیں گے، کون ماں کا لال ہے، جو مسلمانوں کو مارے، یا ان کو اس ملک سے نکال دے! مسلمان کون ہیں؟ یہ میرے بھائی ہیں۔ ہم دو بھائی تھے، ہم میں سے ایک کواسلام دھرم پسند آیا اوروہ مسلمان بن گیا، اورہم ہندو رہ گئے، تو اب اسے کوئی نکالے گا یا مارے گا تو کیا ہم چپ بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں گے؟ کیا ہم اپنے بھائی کو چھوڑ دیں گے؟
کتنی عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے ہندو آج  بھی مسلمانوں کو اپنا خونی  بھائی سمجھتے ہیں۔ کاش مسلمانوں کو بھی اس کا شعورہوتا۔ کاش وہ بھی ہندوئوں کو اپنا بھائی سمجھتے۔ کاش ان کا دل بھی اپنے بھائی کی خیر خواہی میں تڑپتا۔ کاش وہ بھی اپنے بھائی کی تکلیف دہ باتوں پرخاموش رہنے اورصبرکرنے کا سلیقہ جانتے، یہاں تک کہ کوئی رام یا لکشمن اٹھ کران کی طرف سے بولنے لگتا۔
میناکشی پورم سے رحمت نگر
میناکشی پورم تمل ناڈو کے ضلع ترونیلویلی  Tirunelveli کا ایک گائوں ہے۔ یہاں 19 فروری 1981 کو ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ترونیویلی ضلع کے لوگ صبح جب سوکراٹھے توخبر پڑھی کے میناکشی پورم گائوں کے زیادہ تر لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ ایک خبر یہ تھی کہ 800 سو لوگ مسلمان ہوئے۔ دوسری خبر یہ تھی کہ تین سو لوگ مسلمان ہوئے۔ جب یہ خبرملک میں پھیلی تو ہر طرف گویا بھونچال آگیا۔ بی جے پی لیڈراٹل بہاری واجپئی بھاگے ہوئے میناکشی پورم پہنچے، اس وقت کی مرکزی حکومت نے بھی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اپنا وفد میناکشی پورم روانہ کیا ۔ معلوم ہوا کہ وہاں کے دلت اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے برتائو سے تنگ آکراسلام میں داخل ہوچکے ہیں ۔ اب وہ کسی بھی حالت میں اسلام مذہب چھوڑنے کے لئے تیارنہ تھے۔2014 میں جبکہ اقتدار کی باگ ڈوربی جے پی کے ہاتھوں میں آئی تو ملک بھر میں 'گھر واپسی' کا معاملہ اٹھا۔
تبدیلی مذہب کی ایک دوسری کہانی
ٹائمزآف انڈیا کی ایک خاتون رپورٹرجیا مینن نے 4 جنوری 2015 کویہ جاننے کے لئے کہ میناکشی پورم میں جو لوگ
81 19میں مسلمان ہوئے تھےآج ان کا کیا حال ہے وہاں کا دورہ کیا۔ وہاں سے لوٹ کرانھوں نے ٹائمز آف انڈیا میں ایک اسٹوری کی۔ اس اسٹوری کا عنوان تھا 'تبیلی مذہب کی ایک دوسری کہانی' (The other conversion story) اس اسٹوری میں انھوں نے ایک انوکھے واقعہ کا ذکرکیا۔ انھوں نے بتا یا کہ میناکشی پورم جوکہ اب رحمت نگربن چکا ہے، وہاں ہم نے شام کی نمازکے وقت ایک مسجد کا دورہ کیا۔ یہ مسجد میناکشی پورم کے مسلمانوں نے تبدیلی مذہب کے فوراً بعد تعمیرکی تھی۔ یہاں انھوں نے دیکھا کہ مسجد کے اندربینچ پر 66 سالہ ایک شخص بیٹھا ہے۔ مینن نے ان سے پوچھا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اورآپ یہاں بیٹھے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہ ہندو ہیں۔ ان کا نام کروپیا ماداسامی  Karuppiah Madasamy,  ہے۔ وہ یہاں بیٹھ کراپنے پوتوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے پوتے اندرمسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتا یا کہ نماز ختم ہوجائے تووہ اپنے پوتوں کے ساتھ چائے پینے نکلیں گے۔ انھوں نے بتا یا کہ ان کا بیٹا مسلمان ہوگیا تھا اور وہ ہندو ہی رہے ۔ ان کے سارے پوتے مسلمان ہیں۔
مسلمانوں کے لئے سبق
ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ بڑھئے تومعلوم ہوگا کہ ان کا ہندوئوں کے ساتھ خونی رشتہ رہا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان باہرسے آئے ہوئے نہیں ہیں۔ مٹھی بھر لوگ باہرسے آئے تھے، مسلمانوں کی بڑی تعداد تبدیلی مذہب کے ذریعہ مسلمان ہوئی۔  پہلے مسلمانوں نے حسن سلوک، رواداری اوراسلامی شرافت کا نمونہ پیش کیا تو لوگ خاص کرملک کے ہندو ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔ کل کے مسلمانوں نے زیادہ شرافت ، زیادہ خیرخواہی اور زیادہ رواداری کا مظاہرہ کیا تو زیادہ لوگ اسلام کے سا ئے میں داخل ہوئے۔ آج کے مسلمان ایسا کرنے میں فیل ہوگئے تو رسوائی ہاتھ لگی۔ مسلمان جب تک شکربنے ہوئے تھے، جب تک وہ دوسروں کی زندگی میں مٹھاس گھول رہے تھے، تو وہ پوری دنیا پر چھا ئے ہوئے تھے لیکن جب انھوں نے لوگوں کی زندگی میں مٹھاس کی جگہ کھٹاس بھرنا شروع کردیا توخدا نے انھیں امامت کے منصب سے ہٹا دیا اورمسلمان آج اسی کا رونا رورہے ہیں۔
پارسیوں کا واقعہ
ویکی پیڈیا میں ہندوستان میں پارسیوں کی آمد کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ لکھا ہوا ہے۔ ہندوستان میں پارسی گجرات کے راستے سے داخل ہوئے۔ کہا جا تا ہے کہ جب پارسیوں کا پہلا جھتا گجرات میں داخل ہوا تو اس نے گجرات کے راجپوت راجا "جادھورانا" کے سامنے ملک میں ٹھہرنے کی درخواست پیش کی۔ اس کے جواب میں راجا نے دودھ سے بھرا ایک پیالہ پارسیوں کے سردارکوبھیج دیا۔ سردارہوشیارتھا، اس نے سمجھ لیا کہ راجا کہہ رہا ہے کہ جس طرح پیالہ دودھ سے بھرا ہے، اسی طرح اس کا ملک بھی بھرا ہوا ہے۔ یہاں باہری لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے جواب میں پارسی سردارنے دودھ  میں شکرملا کر راجا کوواپس کردیا کہ حضور ایک گھونٹ پی لیں۔ راجا نے دودھ کو چکھا تواسے بہت میٹھا معلوم ہوا۔ اس نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے ملک میں کوئی گڑبڑی پیدا کرنے نہیں آئے ہیں۔ ہم آپ کے ملک میں مٹھاس گھولنے آئے ہیں۔ راجا خوش ہوا اوراس نے پارسیوں کو اپنے ملک میں بسنے کی اجازت دے دی۔
مسلمان پچھلے ہزارسالوں میں پوری دنیا میں بسے۔ وہ صرف اسی مٹھاس کی طاقت پربسے ۔ جب تک وہ دودھ میں مٹھاس ملاتے رہے وہ دنیا پرحکمراں بنے رہے، جیسے ہی انھوں نے مٹھاس کی جگہ کھٹاس ڈال کر دودھ کو پھاڑنا شروع کیا توخدانے انھیں امامت کے منصب سے ہٹا دیا ۔ اب مسلمان اگر اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ ایک بار پھر دودھ میں شکر ملانے کا ہنرسیکھیں۔ وہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیداکریں، وہ لوگوں کے لئے مشکل کھڑی نہ کریں۔
حدیث میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " یسرو ولا تعسرو، وبشرو ولا تنفرو" یعنی تم لوگ آسانی پیدا کرنے والے بنوتم لوگ مشکل پیدا کرنے والے مت بنو، تم لوگ بشارت سنانے والے بنو تم لوگ نفرت پھیلانے والے مت بنو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں