منگل، 14 جولائی، 2015

افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ سبت کے انجام کو خوب جانتے ہیں اورصوم کے انجام سے غافل ہیں


افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ سبت کے انجام کو خوب جانتے ہیں اورصوم کے انجام سے غافل ہیں
محمد آصف ریاض
خدا نے یہود کو سبت کا دن دیا تھا۔ یہ دن ان کے لئے بہت ہی محترم اورمقدس تھا۔ ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ اس دن کے تقدس کو پامال نہ کریں اوراسے خدا کی عبادت کے لئے خالص کرلیں اور خدا سے ڈرتے رہیں۔
لیکن یہود نے اس دن کے تقدس کو پامال کیا اورسبت کے دن بھی دنیا داری میں اسی طرح سرگرم رہے جس طرح اوردنوں میں رہا کرتے تھے۔
یہود ساحل سمندر پر رہتے تھے اورمچھلیوں کا شکارکرتے تھے۔ ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ سبت کے دن مچھلی مت پکڑنا، یہ ان کی آزمائش تھی ۔ لیکن ان کے بگڑے ہوئے لوگوں نے یہ راستہ نکالا کہ بنسی جمعہ کے دن لگا دیتے اورجب سنیچرکو مچھلیاں ان میں آکر پھنس جاتیں تو وہ انھیں اتوارکے دن پکڑ لیتے اورجب کوئی منع کرنے والا انھیں منع کرتا تو وہ کہتے کہ وہ سبت کے دن یعنی سنیچرکے دن کہاں مچھلی پکڑتے ہیں، وہ تواتوارکے دن مچھلی پکڑتے ہیں۔
یہود نے سبت کے تقدس کو پامال کیا تو ان پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ عین سبت کے دن جبکہ وہ اپنی حیلہ بازیوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑ رہے تھے تو خدا نے انھیں بندر بنا دیا۔ قرآن میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:
" جنھوں نے سبت کا قانون توڑا تھا تو ہم نے انھیں کہہ دیا کہ بندر بن جائو اوراس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے" (البقرہ 2: 65 )
جس طرح یہود کو ہفتے میں ایک دن برکت والا اوررحمت والا دیا گیا تھا اوران سے کہہ دیا گیا تھا کہ اس دن کے تقدس کو پامال نہ کرنا اوراس دن کو خدا کی عبادت کے لئے خالص کرلینا اورحد سے تجاوز نہ کرنا کہ کہیں تم نقصان اٹھانے والے نہ بن جائو۔ اسی طرح خدا نے مسلمانوں کو بھی سال میں ایک مہینہ دیا ہے ۔ وہ مہینہ رمضان کا ہے۔ اوران سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اس ماہ کے تقدس کا خیال رکھیں۔ وہ اس مہنے میں روزہ رکھیں ، زیادہ سے زیادہ نماز کا اہتمام کریں ، صدقہ ، فطرہ اور زکواۃ ادا کرتے رہیں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ اسی مہنے میں خدا نے انھیں اپنا کلمہ قرآن کی شکل میں دیا ہے وہ اس کی تلاوت کرتے رہیں اوراس مہنیہ کو خدا کی عبادت کے لئے خالص کرلیں اوراس کے تقدس کا پورا خیال رکھیں۔ اسی مہنے میں ایک رات ہے جو ہزارراتوں سے بہتر قرار دی گئی ہے مسلمانوں سے مطلوب ہے کہ وہ اس رات کی جستجو میں رہیں۔
قرآن میں ہے:
" رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو انسانوں کے لئے سراسرہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پرمشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اورحق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھےاورجو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو ، تو وہ دوسرے دنوں میں روزے کی تعداد پوری کرے ۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا، اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفرازکیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی بیان کرو اور اس کا شکرادا کرو۔" (سورہ البقرہ 2:185)
دوسری جگہ فرمایا : " اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پرروزے فرض کر دئے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروئوں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔" سورہ البقرہ
سبت اور صوم
یہود کو سبت دیا گیا تھا اورمسلمانوں کو صوم دیا گیا ہے اور دونوں کو خبردار کردیا گیا کہ وہ اس مبارک دن اور مہنے کے تقدس کا پورا خیال رکھیں۔ یہود نے سبت کی عظمت کو پامال کیا تو خدا نے انھیں بندر بنا دیا اورکہا کہ اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار اور پھٹکار ہو۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ  شکلاً بندرنہیں بنائے گئے تھے بلکہ اپنی فطرت اور عادت کے لحاظ سے بندر بنا دئے گئے تھے۔ اب یہود کا حال یہ تھا کہ کوئی بھی لاٹھی لے کر اٹھتا اور جس طرح بندر کو ادھر سے ادھر منتشر کر دیا جا تا ہے وہ یہود کو ادھر سے ادھر بھگا دیتا۔ مثلاً یہود کو پہلے بیبیلونیا کے بادشاہ بخت نصر نے مار بھگایا اوریروشلم کو پوری طرح تباہ کردیا۔  پھرروم کا بادشاہ ٹائٹس اٹھا اوراس نے یہود کو منتشر کردیا اوریروشلم کو پوری طرح تباہ کردیا، اسی طرح ہٹلراٹھا اوریہود کی آدھی سے زیادہ آبادی کو قتل کرنے اور انھیں بے گھر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہردور میں کوئی قوم اٹھتی اور یہود کو ڈنڈا لے کر اس طرح ہنکا دیتی جس طرح بندر کو ہنکا یا جاتا ہے ۔
یہود کے معاملہ میں مسلمانوں کے لئے عبرت ہے۔ وہ یہ کہ اگر مسلمان بھی یہود کی طرح صوم کا احترام قائم کرنے میں ناکام رہے، اور صوم کے ساتھ بھی وہی کیا جو یہود نے سبت کے ساتھ  کیا تھا تو بعید نہیں کہ انھیں بھی خدا یہ کہہ دے کہ  "جا، بندر ہوجا" یعنی یہ کہ تیری خصلت بند کی طرح ہوجائے اورجس طرح بندر پیٹ بھر نے کے لئے ایک ڈال سے دوسری ڈال پر چھلانگ لگاتے رہتے ہیں، تو بھی ایک شہر سے دوسرے شہر کا چکر کاٹتا رہ ۔ اور جس طرح بندر کی محنت کار گر نہیں ہوتی اسی طرح تیری بھاگ دوڑ بھی بے کار ثابت ہوگی۔ اورذرا فلسطین سے برما اور نائجیریا سے عراق و شام اور افغانستان تک نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ آج مسلمانوں کا حال بھی وہی ہوگیا ہے جو یہود کا ہے۔ آج مسلمان دنیا بھر میں دوسری قوموں کے ذریعہ اس طرح ہانکے جا رہے ہیں جیسے کہ وہ بندر ہوں اور کوئی لاٹھی وا لا انھیں ادھر سے ادھر منتشر کر رہا ہو۔
افسوس ہے مسلمانوں پر اور ان کےعلما پر جو یہود کے سبت کے انجام کو تو خوب جانتے ہیں لیکن اپنے صوم کے انجام سے غافل ہیں۔       

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں