لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا چاہتے ہیں
محمد آصف ریاض
علامہ اقبال (9 November 1877 – 21
April 1938) اردو کے بہت مشہورشاعرہیں۔ تحریک پاکستان کے
بانیوں میں شمارکئے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے بارے میں ان کا خیال بہت جارحانہ تھا ۔ اقبال
کا ایک شعر ہندوستان کے بارے میں ان کی سوچ کواجا گرکرتا ہے۔
ملا کوجو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
یعنی یہ کہ ہندوستان
میں لوگوں کو نماز کی اجازت ہے تو یہ نادان لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام آزاد ہے۔
اقبال کی نظر میں ہندوستان دارالحرب تھا۔ ان کے ذہن میں جونمازتھی وہ سادہ معنوں
میں نماز نہ تھی بلکہ وہ اپنے ذہن میں نماز پلس قتال کا خاکہ رکھتے تھے۔ اس لئے اس
بات پر مطمئن نہ تھے کہ انھیں سادہ طور پرنمازکی اجازت حاصل ہو۔ وہ ہندوستان میں
قتال اورخوں ریزی کی آزادی چاہتے تھے اوراسی لئے پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے
کیوں کہ یہاں انھیں اپنی خود ساختہ نماز کی آزادی ملتی ہوئی نظرآرہی تھی۔
بہرحال اقبال وہ آزادی
دیکھنے کے لئے زندہ نہ رہے، اور1938 میں یعنی قیام پاکستان سے ٹھیک 9 سال پہلے وہ
اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد پاکستان بن گیا اوراسلام آباد وجود میں آگیا۔
اقبال کی موت سے 7 سال
قبل یعنی 1931 میں پاکستان میں ایک اورشاعر پیدا ہوا۔ اس کانام احمد فراز تھا۔
احمد فراز 2008 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں اپنا دل
دہلا دینے والا تجربہ پیش کیا۔ وہ لکھتے ہیں:
میرا اس شہرعداوت میں
بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی
لوگوں کا برا چاہتے ہیں
کاش اقبال اپنے پاکستان
کو دیکھنے کے لئے زندہ ہوتے؛ جہاں قتال تو موجود ہے لیکن نماز کا کہیں وجود نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں