جہالت کے ساتھ ذلت لگی رہتی ہے
محمد آصف ریاض
کل اتوارکا دن تھا اورمارچ 2015 کی 15 تاریخ تھی۔
میں معروف اسلامی اسکالر مولانا وحید الدین خان کا لکچر سننے کے لئے ویسٹ نظام
الدین دہلی گیا ہوا تھا۔ وہاں مولانا کی تقریرکے بعد گڈ ورڈس سے کچھ کتابیں خریدنے
لگا۔ یہاں گڈ ورڈس میں کچھ بہترین اورمعیاری کتابیں بہت کم قیمت پرمل جاتی ہیں۔ تویہاں
میں نے تین چارکتابیں خریدیں۔
کائونٹرپرسلیم احمد صاحب (تاجر) سے ملاقات ہوئی۔
انھوں نے مسلمانوں کی حالت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہے کہ مسلمان علم
کے خریدار نہیں بن رہے ہیں ۔ اتنی اچھی اچھی کتابیں بازاروں میں آتی ہیں لیکن میں
مسلمانوں کو بہت کم کتاب خریدتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ وہ کتابوں پر پیسہ خرچ کرنا
نہیں چاہتے۔
میں نے کہا کہ آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ لیکن اگر یہی
بات آپ مسلمانوں یا ان کے لیڈران سے کہیں تو وہ کہیں گے کہ غربت کی وجہ سے ایسا ہے۔
حالانکہ جس وقت وہ یہ بات کہہ رہے ہوں گے ان کے پان کی لالی ان کی غربت کو جھٹلا
رہی ہوگی۔ اصل بات غربت کی نہیں ہے ۔ اصل بات کنسرن کی ہے۔ مسلمانوں کا کنسرن
زیادہ کما نا اورزیادہ کھانا بن چکا ہے۔ چنانچہ وہ گدھے کی طرح کماتے ہیں اورگدھے
کی طرح کھالیتے ہیں۔
میں نے انھیں بیربل کا ایک واقعہ سنایا۔ کہا جا
تا ہے کہ ایک بار کسی وجہ سے ناراض ہوکراکبر نے بیربل کو ملازمت سے نکال دیا۔ بیربل
بے روزگارہو گیا تو روزگار کی تلاش میں شہر میں نکل پڑا۔ اسی دوران اس کی ملاقات
ایک نواب سے ہوئی۔ اس نے نواب کے یہاں ملازمت کی درخواست دی۔ نواب نے کہا کہ بربل
آپ تو بہت پڑھے لکھے اور ہوشیار آدمی ہیں آپ میرے بچے کو پڑھا ئیے! بیربل نے کہا
ٹھیک ہے لیکن یہ تو بتائے کہ میری تنخواہ کتنی ہوگی؟ نواب نے جواب دیا 20 درہم ۔ بیربل
نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ آپ اپنے کوچوان کوکیا دیتے ہیں۔ نواب نے
جواب دیا 100 درہم۔ اس پربیربل نے کہا کہ آپ اپنے بچے کو پڑھا کیوں رہے ہیں اسے
کوچوان بنائیے۔
یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان اپنے بچوں کو
پڑھانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کی قیمت (price) چکانے کے لئے تیار نہی ہیں۔ وہ عملاً اپنے بچوں کوکوچوان بنا نے پر راضی ہیں، اور اسی لئے ذلت کی زندگی گزارتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں