خدایا، اس بندہ عاجز کا مواخذہ مت کرنا
محمد آصف ریاض
کل مارچ 2015 کی 23 تاریخ تھی۔ رات دیرسے بسترپرگیا
توایک خیال دل میں گزرا۔ میں سوچنے لگا کہ جب میں دنیا میں آیا تھا تواپنی خوشی سے
نہیں آیا تھا۔ یہاں روتے ہوئے بہت ہی بے بسی کےعالم میں آیا تھا، اوراب زندگی کا
ایک حصہ گزارلیا تو جانے کی تیاری ہے۔
میں اس دنیا سے جانا نہیں چاہتا، یہاں کی
رونقیں، بچوں کی سرگوشیاں، رشتہ داروں کا پیار، احباب کی بھیگی آنکھیں مجھے جانے
سے روک رہی ہیں، لیکن جانا تو بہرحال پڑے گا۔ جب میں یہاں آیا تھا تب بھی میرے بس
میں کچھ نہیں تھا اوراب جبکہ جانے کی تیاری ہے تب بھی میرے بس میں کچھ نہیں ہے۔
پہلا حکم بھی خدا کا تھا اورآخری حکم بھی خدا کا ہے۔
میں اپنی اس عجزکو سوچ کررونے لگا۔ اسی درمیان
میرے منھ سے ایک چیخ نکلی؛ خدایا، تواپنے بندہ عاجزکا مواخذہ مت کرنا۔ یہ تیرا
بندہ بے بسی کےعالم میں یہاں آیا اوراسی بے بسی کے عالم میں یہاں سے جا رہا ہے۔
خدا یا، اس بندہ کے بس میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا اوراب بھی کچھ بھی نہیں ہے، پہلا
حکم بھی آپ ہی کا تھا اورآخری حکم بھی آپ ہی کا ہے۔ خدایا تو اپنے اس بندہ عاجز کو
بھلا دے، معاف فرما۔
اوراس کے بعد مجھے ابراہیم کی یہ دعا یاد آگئی: خدایا،
"مجھے اس دن رسوانہ کرجبکہ سب لوگ زندہ کرکے اٹھائےجائیں گے، جبکہ نہ مال
کوئی فائدہ دے گا اورنہ اولاد، بجزاس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئے اللہ کے
حضورحاضر ہوا ہو۔" (سورہ الشعرا 26:87-89 )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں