متقیوں کا سردار
محمد آصف ریاض
آج صبح قرآن کی تلاوت کے بعد دوسری
کتابوں کا مطالعہ کررہا تھا تبھی بچوں نے 'کرکرے' کا مطالبہ کردیا۔ تینوں بچے
یحییٰ، مدیحہ اورانیقہ نےاسرارکیا کہ ابوآج بلکہ ابھی ہم لوگوں کو 'کرکرے' دلائیے۔
میں انھیں لے کر قریب کی ایک دکان میں گیا اور تین پیکٹ کرکرے لے کرسبھی کو ایک
ایک پیکٹ دے دیا۔ تینوں بچے بہت خوش ہوئے ۔ میں بستر پرتکیہ لگاکر بیٹھ گیا اوردوبارہ
پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔
میرے بچے بھی میرے قریب ہی بیٹھ گئے اورکرکرے کھانے لگے۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ
ان کی طرف بڑھا دیا۔ بیٹی نے اس میں کچھ کرکرے رکھ دیا پھربیٹے نے اپنے پیکٹ سے کر
کرے نکال کرمیرے ہاتھوں میں رکھ دیا، پھر چھوٹی بیٹی نے بھی ایسا ہی کیا۔ میں نے
اپنا ہاتھ واپس نہیں کھینچا۔ بچوں نے دوبارہ میرے ہاتھوں میں کرکرے رکھنا شروع
کردیا یہاں تک کہ میرا ہاتھ بھرگیا۔ اب بچوں نے کہا کہ ابواسے کھالیں۔ میں نے اس
میں سے تھوڑا لیا اورپھرانھیں واپس کردیا۔
بچوں کے اس عمل کو دیکھ کرمیرے دل
سے یہ دعا نکلی کہ خدایا تو میرے بچوں کو دنیا داری سے بچا اورانھیں ان کی فطرت پرقائم
رکھ ۔ کیونکہ آدمی جب تک اپنی فطرت پرقائم رہتا ہے وہ لوگوں کے لئے اورخود اپنے ماں
باپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا رہتا ہے لیکن جیسے ہی وہ دنیا داری کی زد میں آتا
ہے اس میں بھی وہی خرابی پیدا ہوجاتی ہے جو برو بحرمیں پھیلی ہوئی ہے اورجسے قرآن
میں فساد فی البروالبحر کہا گیا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میری زبان پرقرآن کی یہ آیت آگئی
:" اے ہمارے رب ہمیں اپنی
اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اورہمیں متقیوں کا سرداربنا" 25: 72) (
بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ہرصاحب
اولاد سردارہے۔ اب اگراس کی اولاد ناخلف ہے تو وہ زمین پرنا خلفوں کا سردار ہوگا اوراگر
اس کی اولاد متقی ہے تو وہ زمین پر متقیوں کا سردار کہلائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں