جمعہ، 1 فروری، 2013

The price of the Universe


کائنات کی قیمت

محمد آصف ریاض
خد اوند نے انسان کی تخلیق کی۔اسے زمین پربسایا۔اس کے لئے زمین کے اندرسے رزق نکالا۔ انسان مٹی پرچلتا پھرتا ہے۔ مٹی کیا ہے؟
مٹی خداکی ایسی انمول نعمت ہے کہ اگرزمین پر بسنے والے تمام انس و جن مل جائیں، تب بھی وہ اپنے لئے ایک مٹھی مٹی پیدا نہیں کرسکتے ۔
یہ صرف خدا ہے جس نے انسان کے لئے مٹی پیدا کی ،اور اس کے اندر سے انسان کے لئے کھانے پینے کا سامان نکالا۔
قرآن کا ارشاد ہے ” یہ ہے اللہ کی تخلیق ،اب ذرا مجھے بتاو کہ دوسروں نے کیا پیدا کیا؟}سورہ لقمان آیت نمبر 11}
انسان اسی مٹی سے ہر قسم کی غذا حاصل کرتا ہے۔ اسی مٹی کے اندر انسان کے لئے پانی کا ذخیرہ موجود ہے۔ انسان کے لئے زمین پرہوائیں ہیں،آکسیجن ہے،لائف سپورٹ سسٹم ہے۔ انسان اگرزمین پر سنجیدہ نظر ڈالے تواحساس شکر سے اس کا سراپنے منعم حقیقی کے آگے جھک جائے۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کی زمین پرچلتا پھرتا ہے پھربھی وہ اس کی تخلیق پر غورنہیں کرتا۔ وہ زمین پر اندھا بہرا، اور گونگا بنا رہتا ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ خدا نے زمین کو کس طرح بچھادیا؟ آسمان کو کس طرح بلند کیا؟ پہاڑ وں کو کس طرح گاڑ دیا ؟اگر وہ ان چیزوں پر غور کرتا تو اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ خدا کیا ہے؟
سب جانتے ہیں کہ زمین کے گولے کے گرد ہوا کا غلاف ہے۔ ہماری پوری زمین ہواﺅں کے اندرڈوبی ہوئی ہے۔ ٹھیک یہی حال انسان کا ہے۔ انسان پوری طرح خدا کی نعمتوں کے اندرڈوبا ہوا ہے ،پھر بھی انسان کے اندھے پن کا عالم یہ ہے کہ وہ خدا ئی انعامات کے اندرڈوب کر بھی یہ پوچھتا ہے کہ خدا کہاں ہے؟
ایک صاحب ہیں ستیہ جیت دتا۔ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میںکام کرتے ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اورسنجیدہ انسان ہیں۔ وہ برابر مذہبی امور پرگفتگو کر تے ہیں ۔ایک بار وہ مجھ سے ملنے آئے اور کہنے لگے  لا الہ الااللہ ۔ پھر انھوں نے مجھ سے پوچھاکہ مسٹر آصف! میں نے کوئی پاپ تو نہیں کیا؟
میں نے کہا نہیں ! آپ نے کوئی پاپ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اس کائنات کی قیمت ادا کی ۔ میں نے انھیں بتا یا کہ جب کوئی بندہ خدا  لا الہ الاللہ  کہتا ہے تو گویا وہ اس کائنات کی قیمت ادا کرتا ہے۔ وہ اس بات کا ا قرار کرتا ہے کہ میں تو صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں ، جس نے مجھے پیدا کیا،جس نے میری صورت گری کی ،جس نے آنکھیں بنائیں، دل اور دماغ بنا ئے ، جس نے کائنات کو پیدا کیا، جس نے یونیورس کو وجود میں لایا، جس نے سورج چاند ،اورستارے بنائے، جس نے زمین پرسبزے اور جنگلات اگائے، جس نے نہریں جاری کیں۔ جس نے آسمان پر پرندوں کو اڑایااورجھیل میں مچھلیوں کو تیرناسکھایا۔
انسان کو اس زمین پر جو کچھ ملا ہوا ہے اس کی ایک قیمت ہے۔اور وہ قیمت ہے لا لہ الا اللہ محمد الر سول اللہ  یعنی نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، محمد اللہ کے رسول ہیں۔
خدا نے انسان کے لئے اس عظیم کائنات کی تخلیق کی۔ انسان سے مطلوب تھا کہ وہ اس کائنات پرتصرف کرنے سے پہلے اس کی قیمت چکاتا۔ لیکن اس عظیم کائنات کی قیمت چکانا کسی کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ لہذا خدانے بندوں پر احسان فرمایا ،اور انھیں ایک کلمہ سکھا یا۔ پھراسی کلمہ کو کائنات کی قیمت بنایا۔ پس جوشخص بھی اس کائنات پرتصرف کرنا چاہے، اس پر لازم ہے وہ پہلے اس خدائی کلمہ ’ لا الہ الا اللہ ‘ کو پڑھے،کہ یہی کلمہ اس کائنات کی قیمت ہے۔
پس جس شخص نے بھی کلمہ پڑھ کر اس کائنات کو ہاتھ لگایا، اس نے گویا اس کا جائز استعمال کیا۔ اس نے خدا کی نعمتوں کی قدرکی، اور خدا کی ابدی جنت میں بسائے جانے کا استحقاق ثابت کیا۔ خدا ایسے لوگوں کو اٹھائے گا اور جنت میں بسا دے گا۔ جہاں وہ ابد تک کے لئے عیش و آرام ہوگا ۔
اس کے بر عکس جس نے بغیر قیمت چکائے اس کائنات پر تصرف کیا، اس نے گویا خدا کی نعمتوں کو غصب کیا۔ اس نے ایک ایسی چیز کا استعمال کیا جس کے استعمال کا اس کو حق نہیں تھا۔ گویا اس نے زمین پر لوٹ پاٹ مچایا۔ خدا ان لٹیروں کو اٹھا کر جہنم میں ڈال دے گا،جہاں ابد تک کے لئے رونا اوردانت پیسناہوگا۔
یہی وہ وزڈم ہے جسے ایک حدیث میں اس طرح سمجھا یا گیا ہے: من قال لا الہ الا اللہ و دخل ا لجنہ یعنی جس نے بھی کہا لاالہ اللہ وہ جنت میں داخل ہوا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں