منگل، 5 فروری، 2013

How they won


چونکایئے اور جیتئے

محمد آصف ریاض
جنگ ہمیشہ بہترحکمت عملی سے جیتی جاتی ہے۔ جنگ جیتنے کے لئے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کے پاس بہترتکنا لوجی ہو یا ہتھیار وں میں آپ اپنے دشمنوں پر سبقت رکھتے ہوں۔ دنیا میں ایسی بہت سی قومیں گزری ہیں جو طاقت میں اپنے حریف سے زیادہ تھیں لیکن بالآخر انھیں شکست اورہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ بہترحکمت عملی کے ذریعہ دشمن کو چونکا دیا جائے۔
 627 میں جنگ خندق کا واقعہ پیش آیا۔ ابوسفیا ن10ہرازکا لشکر لے کرمدینہ کونیست ونابود کر نے کے لئے بڑھا۔ پیغمبراسلام کو جب کفارمکہ کی پیش رفت کا علم ہواتوآپ نے اپنے لوگوں جمع کیا۔ 10ہزار لڑاکوﺅں پرمشتمل لشکرکا مقابلہ کرنے کے لئے پیغمبر اسلام کے پاس صرف 3000 کا لشکر تھا جس میں کئی منافقین بھی تھے جن پر کسی طرح بھی بھروسہ نہیں کیاجا سکتا تھا۔
آپ نے مسلمانوں کو اکٹھا کر کے انھیں صحیح صورت حال سے واقف کرایا اوران سے مشورہ طلب کیا۔ پورے معاملہ کو سن کرسلمان فارسی نے کہا: " جب ایرانی فوج کو اپنے مضبوط دشمن سے دفاعی جنگ لڑنی پڑتی ہے تو وہ اپنے ارد گرد خندق کھود دیتی ہے۔ کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ ایرانی فارمولہ کا استعمال کر تے ہوئے ہم بھی اپنے ارد گرد خندق کھود دیں۔"
پیغمبر اسلام کو یہ مشورہ پسند آیا۔ آپ نے لوگوں کو خندق کھود نے کا حکم دیا اور خود بھی خندق کھودنے لگے۔
ادھرابوسفیان10ہزارکا لشکر لے کربڑھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس بار مسلمانوں کا خاتمہ کر دیا جا ئے گا اوراسلام کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے گا، اسی خیال میں گم وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے مدینہ کی طرف بڑھا۔
لیکن راستے میں وہ خندق آگیا جسے مسلمانوں نے کئی دنوں کی مشقت کے بعد تیار کیا تھا ۔ خندق دیکھ کرابوسفیان کے ہوش اڑگئے۔ اس کے منصوبہ پر پانی پھر گیا تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ خندق دیکھ کر وہ اس قدرحیران ہوا کہ اس کی زبان سے یہ جملہ نکل آیا "واللہ ،یہ عربوں کا طریقہ نہیں ہے"
 مسلمانوں نے اپنی حکمت عملی کا استعمال کر کے کفار کے تمام منصوبوں کو خندق میں دفن کر دیا تھا۔ ابوسفیان خندق دیکھ کراس قدر گھبرا یا کہ اس کا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ 23 دنوں تک مدینہ کا محاصرہ کئے بیٹھا رہا اور بالآخرمایوسی کی حالت میں خالی ہاتھ واپس لوٹا۔ مسلمانوں نے اپنی حکمت عملی کا استعمال کر کے دشمن کاحو صلہ توڑ دیا تھا اوران کے منصوبوں پر پانی پھیردیا تھا ۔
ابوسفیان کو اچانک ایک ایسی صورت حال کا سامنا تھا جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے آپ جس صورت حال کا تصور نہیں کرتے اس سے نمٹنے کا منصوبہ بھی آپ کے پاس نہیں ہوتا اورتب آپ کی ناکامی یقینی ہوجا تی ہے،جیسا کہ ابو سفیان کے ساتھ ہوا۔ کسی جنگ کی کامیابی کا انحصاراس بات پر ہوتا ہے کہ آپ اپنے دشمن کو کس قدرچونکا دیتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے دشمن کو عین وقت پرچونکا دیتا ہے تو گو یا وہ اس سے اس کا حوصلہ اورشعور چھین لیتا ہے۔ اورکسی شخص کاحوصلہ اورشعورچھیننے کے بعد کچھ بھی چھیننے کے لئے نہیں بچتا کیونکہ کسی انسان کا سب سے بڑا ہتھیاراس کا حوصلہ اوراس کا شعور ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جا تا ہے" چونکایئے اور جیتئے"۔
روس نے 1979میں افغانستان پرحملہ کردیا۔ روس اس وقت کا سوپرپاورتھا۔ روس کے خلاف کھل کر سامنے آنے کی جرئت امریکہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ روس کو افغانستان میں نہایت شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخروہ کیا چیز تھی جس نے سوپر پاورکوہلا کر رکھ دیا تھا؟
 جنگ کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی فارمولہ تھا جسے "چونکایئے اور جیتئے" کا نام دیا جا تا ہے۔
افغانستان میں روس کی پیش رفت جاری تھی کہ تبھی اسے ایک ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑاجو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مجاہدین نے ایک ایسے میزائیل کا استعمال شروع کردیا تھا جس سے بچنا ممکن نہ تھا۔ اس میزائیل کا نام "اسٹرنگر میزائیل"ہے۔ اسے امریکہ نے تیار کیا تھا۔ یہ heat seeking میزائل تھا۔ ہیٹ کو کھوج کر وہ اس پر حملہ کردیتا تھا۔ چونکہ حملہ آورایئرکرافٹ کافی گرم ہو تا تھا اس لئے وہ بہت آسانی سے اسٹرنگرکے نشانہ پرآجا تا تھا۔ مجاہدین نے صرف 340میزائل کا استعمال کرکے 269ایئر کرافٹ کومار گرا یا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کرروسی کمانڈرابوسفیان کی طرح پکار اٹھا! "واللہ، یہ طریقہ افغانیوں کا طریقہ نہیں ہے۔" اوربالآخرمیدان چھوڑنے پرمجبورہوا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں