پیر، 25 فروری، 2013

But this is not the Islamic way of proceeding

 

لیکن یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے

محمد آصف ریاض
فروری 2013 کو مصر کے ایک عربی ٹیلی ویزن چینل " دریم " پر ڈبیٹ   (debate)  چل رہاتھا۔ اس ڈبیٹ میں ایک طرف کمیونسٹ رجحان والے سیاسی لیڈراحمد دومہ بیٹھے تھے اوردوسری طرف مصرکے معروف سلفی عالم دین شیخ ابواسلام بیٹھےتھے۔ بات مصر کی سیاسی صورت حال پرہورہی تھی۔
احمددومہ بہت دیرتک بولتے رہے۔ وہ اسلام پسندوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے اورمصر کی موجودہ حکومت کی تنقید کررہے تھے۔ انھیں نظر انداز کر نے کے لئے شیخ ابو اسلام نے ٹیبل پررکھے کاغذ کواٹھا یا اوراس سےنائو بنانے لگے۔ جب وہ کئی نائو بنا چکے تو انھوں نے میزبان سے کہا کہ "پانی لائیے میں اس نائو کو چلا ناچاہتا ہوں۔ میرے نزدیک ڈیمو کریسی اسی کا نام ہے۔"
مصر میں خواتین کےاحتجاج پراپنےخیالات کا اظہار کرتے ہوئے شیخ ابواسلام نے کہا کہ "جو خواتین جانتی ہیں کہ احتجاج کی صورت میں ان کی عزت آبرودائو پرلگ سکتی ہےتوپھروہ احتجاج کے لئے کیوں نکلتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پاک دامن نہیں ہیں۔"
اس پردومہ بھڑک اٹھے۔ انھوں نے کہا: " ان حذاء سیدۃ فی مصر افضل من مئات الشیوخ" یعنی مصر کی عورتوں کی جوتیاں سینکڑوں شیوخ سےزیادہ افضل اورپاک ہیں۔
اس پرشیخ ابواسلام بھڑک اٹھے اورانھوں نے اپنا جوتا اتارکرٹیبل پررکھ دیا۔ اس کے بعد نشریہ کو تھوڑی دیرکے لئے روک دیا گیا۔
 کسی شخص کو نظر اندازکرنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بولے اور آپ اس کے سامنے بیٹھ کرکاغذ کانائو بنائیں۔ لیکن یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ اسلام میں ہےکہ جب کسی کی بات تمہیں نا پسند ہو تواس کے جواب میں تم وہ بات کہو جواس سے بہترہو۔
اسلام کا فارمولہ یہ ہے کہ آدمی کسی بات کے جواب میں اس سے بہتربات کہے اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو وہ احسن اندازمیں سلام کرکے بات کو ختم کردے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
"اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کوحکمت اوربہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔ یقیناً آپ کا رب راہ سے بھٹکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی بخوبی واقف ہے"
(16:125)
" رحمان کے (اصلی) بندے وہ ہیں جوزمین پرنرم چال چلتے ہیں اورجاہل ان کے منھ آئیں توکہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام" (25:63)
اسلام انسان کے اندر سنس آف رسپانسیبلیٹی جگاتاہے۔ جب کوئی داعی بولتا ہے تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ خداوند براہ راست اس کی باتوں کوسن رہا ہے۔ اس کی بات محض اس کے اورمدعو کے درمیان ہونے والی بات نہیں ہے بلکہ اس کی گفتگو میں خدا وند بھی شامل ہے۔ خداوند کی موجودگی داعی کوآخری حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اب جب داعی بولتا ہے تو وہ اس احساس کے ساتھ بولتا ہے کہ گویا وہ خدا وند سے ہم کلام ہے۔
" تم چاہے اپنی بات پکارکرکہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے بھی زیادہ مخفی بات کو جانتا ہے" (20:7)
شیخ ابو اسلام کے سامنے دوخدائی آپشنس موجود تھے۔ یعنی احسن انداز میں بات جاری رکھنے کا، یا احسن انداز میں بات ختم کر دینے کا۔ لیکن شیخ ابواسلام نے ایک تیسرے آپشن کو لیا جوخود ان کا اپنا پیدا کردہ تھا۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص ابواسلام اورشیخ الا سلام ہوسکتا ہے،پھربھی اس بات کا امکان باقی رہتا ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور جذبات کی رو میں آکر بہہ جائے۔

منگل، 19 فروری، 2013

Provoking the mercy of God


اس دن رونا اور دانت پیسنا ہوگا

محمد آصف ریاض
صبح جب بھی میں سوکراٹھتاہوں تومجھ پرشدید قسم کاخوف طاری رہتاہے۔ میں اس طرح ڈرارہتا ہوں جیسے کوئی شخص ابھی ابھی موت کے منھ سے نکل کرآیا ہو۔
نیند کیاہے؟ نیند وقتی موت ہے۔ یہ ایک چھوٹی موت ہےجوانسان کوہرروزبڑی موت کی یاد دلاتی ہے۔ میں ہرروز سونے سے پہلے سوچتا ہوں کہ ایک وقت آئے گاجب مجھے تنہا آسمان کی طرف سفرکرنا ہوگا۔ اس سفر میں کوئی میرے ساتھ نہ ہوگا۔ نہ میرے والدین، نہ میری بیوی، نہ میرے بچے اورنہ میراکنبہ اورقبیلہ۔

 
 میں اس سفر پرجا نا نہیں چاہوں گا لیکن مجھے ایک طاقت ورفرشتہ اٹھا کر لے جائے گا اور کوئی اس کے مقابلہ میں میری مدد نہ کرسکے گا۔ سب کے لئے رونا اوردانت پیسنا ہوگا۔ اس دن سارا معاملہ یکطرفہ طور پرخدا وند کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ سوچ کرمیں کانپ جاتا ہوں۔ ہرروزجب صبح سوکرجاگتا ہوں توایسا لگتا ہے کہ آج بچ گیا، لیکن کل؟ قرآن کا ارشاد ہے:
"وہ ایسا ہے جورات میں تمہاری روح کو قبض کردیتا ہے اورجوکچھ تم دن میں کرتے ہواس کوجانتا ہے، پھرتم کوجگا اٹھا تا ہےتاکہ معیاد معین تمام کردی جائے،پھراسی کی طرف تم کوجاناہے، پھروہ تم کوبتائے گاجوکچھ تم کیا کرتے تھے" }الانعام آیت   {60

7فروری   2013کی صبح جب میں سوکراٹھا، تومیں موت کی خوف سے سہما ہواتھا۔ میں باربارخدا وند سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا۔ اسی درمیان میراتین سالہ بیٹا محمد یحیٰ جاگ اٹھا۔ میں نے شدت جذبات میں اپنے بیٹے کوبھی اپنی دعا میں شامل کرلیا، اوراس سے کہا کہ بیٹا بول:  "اللہ تعالیٰ میرے باپ کے گناہوں کوبخش دیجئے، اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیجئے، اس کے علم میں اضافہ کردیجئے، اس کے گھروالوں کومعاف کردیجئے، آپ سب کومعاف کرنے والے ہیں۔ آپ کی رحمت آپ کے عذاب پرغالب ہے۔ پس آپ میری دعائوں کوسنئے اورآسمان سے میری دستگیری کو آئیے" میں دعا کے یہ الفاظ بولتا تھا اورمیرا بیٹا اپنی تتلاہٹ کے ساتھ ان الفاظ کودہراتا تھا۔
دعا کیا ہے؟ چند بندھےٹکےالفاظ کےاعادہ کا نام دعا نہیں ہے۔ اپنےخداوند کے سامنےدل کھول کررکھ دینےکا نام دعاہے۔ دعا یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کو ایک انداز میں پکارے اورجب اس کی پکار نہ سنی جائے تو وہ اسے ایک اور اندازمیں پرووک (Provoke) کرے۔
شدت عجزمیں جس طرح آنکھ پھاڑکرآنسونکل آتے ہیں اسی طرح شدت عجز میں زبان پردعا کےالفاظ جاری ہوتے ہیں۔ عجز اور بے بسی کے آنسئوں میں دھلے ہوئے انہی الفاظ و کیفیات کانام دعا ہے۔
دہلی میں ایک عورت کومیں نے دیکھا کہ وہ بھیک مانگ رہی تھی۔ وہ سب کو اپنا دکھڑا سنا رہی تھی لیکن کوئی اس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا، پھراس عوت نے یہ کیا کہ اپنے دودھ پیتے بچےکوسب کے سامنے زمین پر رکھ دیا۔ اب ایسا ہوا کہ کوئی بھی شخص اسے نظراندازنہیں کرسکا۔  
یہی حال اس دعا کا ہے جس میں انسان اپنے ساتھ اپنی آل اولاد کوبھی شامل کرلیتا ہے، ایسا کرکے گویا وہ اپنے خدا وند کو پرو ووک (Provoke) کرتا ہے کہ وہ اس کی پکارکو سنے اور آسمان سے اس کی دستگیری کے لئے آئے۔
حضرت آدم کی دعا کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:
"آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیں اوراللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔" البقرہ {38 {

وہ دعا کیا تھی؟ قرآن میں یہ دعا اس طرح وارد ہوئی ہے: "ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگرتوہمیں نہ بخشے گا اور ہم پررحم نہ کرے گا تو ہم یقیناً نقصان والے ہوجائیں گے۔"}    الاعراف ، 23{
ابن کثیر نے حضرت آدم کی دعا سے متعلق کئی روایات نقل کی ہیں۔ ان میں ایک روایت اس طرح ہے:
ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت آدم نے فرمایا کہ" خدا یا، کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہ کیا؟ اور مجھ میں اپنی روح نہ پھوکی؟ میرے چھینکنے پر یر حمک اللہ نہ کہا؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہ لے گئی؟ کیا میری پیدائش سے قبل یہ خطا میری تقدیر میں نہ لکھی تھی؟
جواب ملا ہاں۔ یہ سب میں نے کیا ہے، تو فرمایا خدایا، میری توبہ قبول کرکے مجھے پھرجنت مل سکتی ہے؟ جواب ملا ہاں۔ یہی وہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے خدا سے سیکھ لیں۔ تفسیر ابن کثیرصفحہ {103 {
دعا اپنے رب کے آگے آہ و زاری کا نام ہے۔ دعا اپنے رب کو اس انداز میں پکارنے کا نام ہے کہ وہ اپنے بندے کو نظرانداز نہ کر سکے۔ دعا خدا کی رحمت کو پرووک (Provoke) کرنے کا نام ہے۔ دعا کو حدیث میں مخ العبادہ کہا گیا ہے۔
بائبل میں حضرت دائود کی دعا اس طرح نقل ہوئی ہے:

"خدا یا مجھے میرے دشمن سے نجات د ے، ان لوگوں سے میری حفاظت فرما جو میرے خلاف کھڑے ہیں۔ مجھے بدکاروں سے نجات دے،اور خون کے پیاسوں سے میری حفاظت فرما۔ دیکھ میرے معاملہ میں وہ کس طرح جھوٹ گڑھتے ہیں۔ یہ متشدد لوگ میرے خلاف سازش رچتے ہیں،حالانکہ خدا یا، میں نے ان کا کچھ بگاڑا نہیں اور نہ ہی کوئی گناہ کیا۔ میں نے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا یا پھر بھی وہ مجھے مارنے کے لئے تیار ہیں۔ خدایا،آپ میری مدد کو اٹھئے، مصیبت میں میری دستگیری کیجئے۔"
Psalm 59
New International Version 1984
 

جمعہ، 15 فروری، 2013

And when man descends from heaven!

اورجب انسان آسمان سے اترتا

محمد آصف ریاض
خدا وند نے انسان کی تخلیق کی۔ لیکن اس کی تخلیق اچانک نہیں ہوئی۔ انسان کی تخلیق سے بہت پہلے خداوند نے زمین وآسمان کی تخلیق کی اوراس میں انسان کی زیست کا سارا سامان رکھ دیا۔ مثلاً اس نے زمین وآسمان کی تخلیق کی۔ سمندراورپہاڑوں کو بنا یا۔ اس نے درخت اورسبزے اگائےاورآسمان پرسورج چاند اورستاروں کوروشن کیا۔ جب انسان کی زیست کاساراسامان تیارہوگیا تب جاکرانسان کی تخلیق کی۔
خداوند نے پہلے انسان ) آدم (  کومٹی سے پیدا کیا۔ پھرماں ہوّا کو آدم کے گوشت سے پیدا کیا۔ پھران کی اولاد سے نسل انسانی کوپھیلایا۔ یہاں تک کہ آج زمین پر7  بلین انسان بستے ہیں۔ خداوند نے پہلے انسان کومٹی سے پیدا کیا دوسرے کوگوشت سے پھرمرد اورعورتوں کے ذریعہ ان کی نسلیں جاری کیں اورپھرایک وقت آیا جب اس نے تخلیق کے نظام کواستثنائی طورپربدل دیا اورحضرت عیسیٰ کو  بغیرباپ کےاپنے حکم سے پیداکیا۔ ایساکیوں؟
خداوند نے انسانی تخلیق کے نظام کواستثنائی طورپربدل کربندوں پریہ ظاہرکیا کہ تمہاراخالق کسی نظام کامحتاج نہیں ہے۔ وہ اتنا زیادہ عظیم اورقدرت والا ہےکہ جو چاہے اورجس طرح چاہے پیدا کرے۔ وہ ہرطرح کا پیدا کرناجانتا ہے۔
وہ مٹی سے زندہ لہلہاتے ہوئےپودوں کو نکالتا ہے۔ وہ آسمان سے کبھی پانی برسا تا ہے، کبھی برف کے پتھربرساتا ہے اورکبھی آگ۔ آسمان پرپتھرکہاں سے آجاتے ہیں؟ پانی کہاں سے آجاتا ہے اورآگ کہاں سے آجاتی ہے؟
جوخدا آسمان سے پانی برساتا ہے،آسمان سے پتھربرساتا ہے، آسمان سے آگ برساتا ہے، اس خدا کے پاس انسانی تخلیق کے لئے دوسرے آپشنس بھی موجود تھے۔ مثلاً وہ چاہتا توانسان کومٹی سے نکالتا۔ جس طرح زندہ پودے مٹی سے لہلہاتے ہوئے نکل پڑتے ہیں اسی طرح وہ ہنستے مسکراتے ہوئے انسان کو مٹی سے نکالتا یا پھروہ چاہتا تودوسرے آپشن کولیتا یعنی جس طرح وہ آسمان سے پانی برساتا ہے، پتھربرساتا ہے، آگ برساتا ہے، اسی طرح وہ ضرورت کے مطابق انسان کو زمین پراتارتا۔ لیکن خدا نے ان دونوں آپشن کو نہیں لیا! کیوں؟؟؟
اس لئے کہ اگروہ انسان کو مٹی سے نکالتا توایک انسان کے ساتھ دوسرے انسان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں نہ کوئی کسی کا باپ ہوتا اورنہ کوئی کسی کی ماں ہوتی اورنہ کوئی کسی کا شوہرہوتا اورنہ کوئی کسی کی بیوی ہوتی۔ نہ کسی کے پاس کوئی کنبہ اور قبیلہ ہوتا۔ ایسی صورت میں انسان اپنے باپ، بھائی، بہن، اور آل اولاد سے محروم ہوجا تا۔ کسی کے لئے کسی کے دل میں محبت کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔
خداوند نےانسان کوانسان کے ذریعہ پیداکیا تاکہ انسان کا ایک دوسرے سے والہانہ تعلق قائم ہوجائے۔ ماں باپ کے ذریعہ پیدا ہونے والا انسان ایک دوسرے کا اکسٹنشن ہوتا ہے۔ اب جب کوئی انسان اپنی آل اولاد کو دیکھتا ہے تو گویا وہ اپنے ہی توسیعی حصہ یعنی ایکسٹینسو پارٹ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اولاد کیا ہے؟ اولاد انسان کا ایکسٹینسو پارٹ ہے۔ وہ اسی کے گوشت پوشت کا حصہ ہے۔ اب جب انسان اپنی آل اولاد کو دیکھتا ہے تواسے ایسا معلوم پڑتا ہے کہ گویا وہ اپنے ہی گوشت پوست کو دیکھ رہاہے۔
خداوند کے سامنے انسان کی تخلیق کے لئے بہت سارے آپشنس تھے لیکن اس نے انسان کومرد اورعورت سے پیدا کرنے کے آپشن کو لیا۔ کیوں؟
اس لئے کہ یہی آپشن انسان کے فیورمیں تھا۔ خدا نے انسان پررحم فرمایا اوراس کے لئے اپنے تخلیقی منصوبہ کو بدل دیا۔ اس نےانسان کی تخلیق کے لئے اس منصوبہ کو لیا جوانسان کے لئے سب سے بہترتھا۔
ایسا اس لئے کیا تاکہ جب انسان اپنی آل اولاد کو دیکھے تووہ خدا کےاحسان کو یاد کرے اوراس کے شکر میں نہا جائے۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ زمین پر ناشکروں کی تعداد زیادہ ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
"خدا ہی نے تمہیں پیدا کیا اوراسی نے تمہارے لئے آنکھ، کان اور دل بنا ئے مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔" }المک  23- {67

بدھ، 13 فروری، 2013

Rain: A miracle of God


بارش : ایک عظیم خدائی معجزہ


محمد آصف ریاض

جنوری (2013) میں دہلی میں دوتین روزتک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ میں نے پٹنہ فون کر کے اپنی ماں کو بتا یا کہ دہلی میں بارش ہورہی ہے اوربارش کی وجہ ہے یہاں سردی بڑھ گئی ہے؟ میری ماں پٹنہ کے ایک گا ﺅں حضرت سا ئیں میں رہتی ہیں۔ انھوں نے بتا یا کہ یہاں بھی دو تین روز سے بارش ہو رہی ہے اور ٹھنڈ کافی بڑھ گئی ہے۔

میں سوچنے لگا کہ زمین پربارش کا ہونا کوئی سادہ واقعہ نہیں ہوتا۔ جب بھی بارش ہوتی ہے تو زمین پر خدا کا ایک عظیم معجزہ ظاہرہوتا ہے۔ اس معجزہ کے اظہار کے لئے خداوند نے پورا نظام قائم کررکھا ہے۔ بارش کا پانی آسمان سے نہیں اترتا بلکہ یہ زمین کا ہی پانی ہوتا ہے جوآسمان پراٹھایا جا تا ہے۔



سب جانتے ہیں کہ سمندرکا پانی سالٹی ہوتا ہے۔ وہ نمک کے ساتھ گھلا ہوتا ہے۔ یہ اتنا زیادہ نمکین ہوتا ہے کہ کوئی اس کو پی نہیں سکتا۔ خدا اسے ریفائن کرتا ہے۔ سورج زمین پراپنی ہیٹ مارتاہے،ہیٹ پانی کوبھاپ بنا تا ہے اورہوا اسے آسمان پراٹھا لے جاتی ہے۔ نمک بھاری ہونے کی وجہ سے سمندرکی تہہ میں بیٹھ جا تا ہےاورپانی ہلکا ہونے کی وجہ سے اوپراٹھ جاتاہے۔ اب بادل اسے آسمان پراٹھائے پھرتا ہے اورپھرخدا کے حکم سےزمین پربرسا دیتا ہے۔ یعنی پورایونیورس ایکٹیو ہوتا ہے تب جاکر بارش ہوتی ہے۔

بارش کے پانی کوزمین ضرورت کے مطابق جذب کرلیتی ہے، باقی پانی سمندراورتالاب میں چلاجاتا ہے، یا پھر بھاپ بن کربادل کی شکل میں آسمان پراٹھا لیا جا تا ہے، یا پھروہ برف کے تودے کی شکل میں محفوظ ہوجاتاہے۔

The water on earth goes through a cycle when it first exists as vapor in the atmosphere, then, when weather conditions are favorable, it condensates and form clouds which then in turn "break" apart in the form of rain drops. The liquid water on earth flows in rivers, forms lakes and oceans and eventually becomes either frozen in the ice of the poles or evaporates to form more clouds

بارش ایک عظیم خدائی معجزہ

جب بھی بارش ہوتی ہے تومیں سوچنے لگتا ہوں کہ بارش رم جھم رم جھم کیوں ہوتی ہے۔ یہ کسی اور انداز میں کیوں نہیں ہوتی؟

مثلاً ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ آسمان پرایک نالہ بن جا ئے اوراس سے پانی اس طرح گرے جیسے مشین سے گرتا ہے۔ نیچر کے سامنے بارش کے لئے کئی آپشن ہوتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ سب سے پرفکٹ آپشن کو ہی کیوں لیتا ہے؟ ایسا کیوں ہے ؟
ایسا اس لئے ہے کیوں کہ نیچرخود بخود کام نہیں کرتا، وہ خدا وند کے حکم کی اطاعت کرتا ہے،جو سارے نظام کو چلا رہا ہے اوراس کوسنبھالے ہوئے ہے۔ ذراسوچئے کہ اگر بارش کا پانی آسمان سے نالے کی شکل میں گرتا تو کیا ہوتا؟ جس علاقہ میں بارش ہوتی وہ پوراعلاقہ ڈوب جاتا۔ پھر بارش خدائی قہر کی علامت بن جاتی۔ لیکن خدا وندنے اپنے بندوں پررحم فرمایا اور بارش کو بوند بوند ٹپکایاتاکہ پیڑ پودے نباتات وحیوانات سب اس بارش میں نہا جائیں۔

قرآن کا ارشاد ہے:
بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپرسے برساتا ہے، پھراس کے ذریعہ زمین کو زندگی بخشتا ہےاوراپنےاس نظام کی ذریعہ زمین میں ہرقسم کی جاندارمخلوق پھیلاتا ہے۔ ہواﺅں کی گردش میں اوران بادلوں میں جوآسمان اورزمین کےدرمیان تابع فرمان بنا کررکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جوعقل رکھتے ہیں۔“  }البقرہ- آیت : 164}
 
پھرذرا انسان اپنی خوراک کودیکھے،ہم نے خوب پانی برسایا،پھرزمین کوعجیب طرح پھاڑا،پھراس کےاندراگائےغلے،اور انگوراورترکاریاں، اورزیتون اورکھجوریں، اورگھنے باغ اورطرح طرح کے پھل اور چارے، تمہارے لئے اورتمہارے مویشیوں کے لئے سامان زیست کے طورپر۔“ }عبس- آیت :24-32}

منگل، 5 فروری، 2013

How they won


چونکایئے اور جیتئے

محمد آصف ریاض
جنگ ہمیشہ بہترحکمت عملی سے جیتی جاتی ہے۔ جنگ جیتنے کے لئے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کے پاس بہترتکنا لوجی ہو یا ہتھیار وں میں آپ اپنے دشمنوں پر سبقت رکھتے ہوں۔ دنیا میں ایسی بہت سی قومیں گزری ہیں جو طاقت میں اپنے حریف سے زیادہ تھیں لیکن بالآخر انھیں شکست اورہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ بہترحکمت عملی کے ذریعہ دشمن کو چونکا دیا جائے۔
 627 میں جنگ خندق کا واقعہ پیش آیا۔ ابوسفیا ن10ہرازکا لشکر لے کرمدینہ کونیست ونابود کر نے کے لئے بڑھا۔ پیغمبراسلام کو جب کفارمکہ کی پیش رفت کا علم ہواتوآپ نے اپنے لوگوں جمع کیا۔ 10ہزار لڑاکوﺅں پرمشتمل لشکرکا مقابلہ کرنے کے لئے پیغمبر اسلام کے پاس صرف 3000 کا لشکر تھا جس میں کئی منافقین بھی تھے جن پر کسی طرح بھی بھروسہ نہیں کیاجا سکتا تھا۔
آپ نے مسلمانوں کو اکٹھا کر کے انھیں صحیح صورت حال سے واقف کرایا اوران سے مشورہ طلب کیا۔ پورے معاملہ کو سن کرسلمان فارسی نے کہا: " جب ایرانی فوج کو اپنے مضبوط دشمن سے دفاعی جنگ لڑنی پڑتی ہے تو وہ اپنے ارد گرد خندق کھود دیتی ہے۔ کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ ایرانی فارمولہ کا استعمال کر تے ہوئے ہم بھی اپنے ارد گرد خندق کھود دیں۔"
پیغمبر اسلام کو یہ مشورہ پسند آیا۔ آپ نے لوگوں کو خندق کھود نے کا حکم دیا اور خود بھی خندق کھودنے لگے۔
ادھرابوسفیان10ہزارکا لشکر لے کربڑھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس بار مسلمانوں کا خاتمہ کر دیا جا ئے گا اوراسلام کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے گا، اسی خیال میں گم وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے مدینہ کی طرف بڑھا۔
لیکن راستے میں وہ خندق آگیا جسے مسلمانوں نے کئی دنوں کی مشقت کے بعد تیار کیا تھا ۔ خندق دیکھ کرابوسفیان کے ہوش اڑگئے۔ اس کے منصوبہ پر پانی پھر گیا تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ خندق دیکھ کر وہ اس قدرحیران ہوا کہ اس کی زبان سے یہ جملہ نکل آیا "واللہ ،یہ عربوں کا طریقہ نہیں ہے"
 مسلمانوں نے اپنی حکمت عملی کا استعمال کر کے کفار کے تمام منصوبوں کو خندق میں دفن کر دیا تھا۔ ابوسفیان خندق دیکھ کراس قدر گھبرا یا کہ اس کا حوصلہ جواب دے گیا۔ وہ 23 دنوں تک مدینہ کا محاصرہ کئے بیٹھا رہا اور بالآخرمایوسی کی حالت میں خالی ہاتھ واپس لوٹا۔ مسلمانوں نے اپنی حکمت عملی کا استعمال کر کے دشمن کاحو صلہ توڑ دیا تھا اوران کے منصوبوں پر پانی پھیردیا تھا ۔
ابوسفیان کو اچانک ایک ایسی صورت حال کا سامنا تھا جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے آپ جس صورت حال کا تصور نہیں کرتے اس سے نمٹنے کا منصوبہ بھی آپ کے پاس نہیں ہوتا اورتب آپ کی ناکامی یقینی ہوجا تی ہے،جیسا کہ ابو سفیان کے ساتھ ہوا۔ کسی جنگ کی کامیابی کا انحصاراس بات پر ہوتا ہے کہ آپ اپنے دشمن کو کس قدرچونکا دیتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے دشمن کو عین وقت پرچونکا دیتا ہے تو گو یا وہ اس سے اس کا حوصلہ اورشعور چھین لیتا ہے۔ اورکسی شخص کاحوصلہ اورشعورچھیننے کے بعد کچھ بھی چھیننے کے لئے نہیں بچتا کیونکہ کسی انسان کا سب سے بڑا ہتھیاراس کا حوصلہ اوراس کا شعور ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جا تا ہے" چونکایئے اور جیتئے"۔
روس نے 1979میں افغانستان پرحملہ کردیا۔ روس اس وقت کا سوپرپاورتھا۔ روس کے خلاف کھل کر سامنے آنے کی جرئت امریکہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ روس کو افغانستان میں نہایت شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخروہ کیا چیز تھی جس نے سوپر پاورکوہلا کر رکھ دیا تھا؟
 جنگ کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی فارمولہ تھا جسے "چونکایئے اور جیتئے" کا نام دیا جا تا ہے۔
افغانستان میں روس کی پیش رفت جاری تھی کہ تبھی اسے ایک ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑاجو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مجاہدین نے ایک ایسے میزائیل کا استعمال شروع کردیا تھا جس سے بچنا ممکن نہ تھا۔ اس میزائیل کا نام "اسٹرنگر میزائیل"ہے۔ اسے امریکہ نے تیار کیا تھا۔ یہ heat seeking میزائل تھا۔ ہیٹ کو کھوج کر وہ اس پر حملہ کردیتا تھا۔ چونکہ حملہ آورایئرکرافٹ کافی گرم ہو تا تھا اس لئے وہ بہت آسانی سے اسٹرنگرکے نشانہ پرآجا تا تھا۔ مجاہدین نے صرف 340میزائل کا استعمال کرکے 269ایئر کرافٹ کومار گرا یا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کرروسی کمانڈرابوسفیان کی طرح پکار اٹھا! "واللہ، یہ طریقہ افغانیوں کا طریقہ نہیں ہے۔" اوربالآخرمیدان چھوڑنے پرمجبورہوا۔

جمعہ، 1 فروری، 2013

The price of the Universe


کائنات کی قیمت

محمد آصف ریاض
خد اوند نے انسان کی تخلیق کی۔اسے زمین پربسایا۔اس کے لئے زمین کے اندرسے رزق نکالا۔ انسان مٹی پرچلتا پھرتا ہے۔ مٹی کیا ہے؟
مٹی خداکی ایسی انمول نعمت ہے کہ اگرزمین پر بسنے والے تمام انس و جن مل جائیں، تب بھی وہ اپنے لئے ایک مٹھی مٹی پیدا نہیں کرسکتے ۔
یہ صرف خدا ہے جس نے انسان کے لئے مٹی پیدا کی ،اور اس کے اندر سے انسان کے لئے کھانے پینے کا سامان نکالا۔
قرآن کا ارشاد ہے ” یہ ہے اللہ کی تخلیق ،اب ذرا مجھے بتاو کہ دوسروں نے کیا پیدا کیا؟}سورہ لقمان آیت نمبر 11}
انسان اسی مٹی سے ہر قسم کی غذا حاصل کرتا ہے۔ اسی مٹی کے اندر انسان کے لئے پانی کا ذخیرہ موجود ہے۔ انسان کے لئے زمین پرہوائیں ہیں،آکسیجن ہے،لائف سپورٹ سسٹم ہے۔ انسان اگرزمین پر سنجیدہ نظر ڈالے تواحساس شکر سے اس کا سراپنے منعم حقیقی کے آگے جھک جائے۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کی زمین پرچلتا پھرتا ہے پھربھی وہ اس کی تخلیق پر غورنہیں کرتا۔ وہ زمین پر اندھا بہرا، اور گونگا بنا رہتا ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ خدا نے زمین کو کس طرح بچھادیا؟ آسمان کو کس طرح بلند کیا؟ پہاڑ وں کو کس طرح گاڑ دیا ؟اگر وہ ان چیزوں پر غور کرتا تو اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ خدا کیا ہے؟
سب جانتے ہیں کہ زمین کے گولے کے گرد ہوا کا غلاف ہے۔ ہماری پوری زمین ہواﺅں کے اندرڈوبی ہوئی ہے۔ ٹھیک یہی حال انسان کا ہے۔ انسان پوری طرح خدا کی نعمتوں کے اندرڈوبا ہوا ہے ،پھر بھی انسان کے اندھے پن کا عالم یہ ہے کہ وہ خدا ئی انعامات کے اندرڈوب کر بھی یہ پوچھتا ہے کہ خدا کہاں ہے؟
ایک صاحب ہیں ستیہ جیت دتا۔ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میںکام کرتے ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اورسنجیدہ انسان ہیں۔ وہ برابر مذہبی امور پرگفتگو کر تے ہیں ۔ایک بار وہ مجھ سے ملنے آئے اور کہنے لگے  لا الہ الااللہ ۔ پھر انھوں نے مجھ سے پوچھاکہ مسٹر آصف! میں نے کوئی پاپ تو نہیں کیا؟
میں نے کہا نہیں ! آپ نے کوئی پاپ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اس کائنات کی قیمت ادا کی ۔ میں نے انھیں بتا یا کہ جب کوئی بندہ خدا  لا الہ الاللہ  کہتا ہے تو گویا وہ اس کائنات کی قیمت ادا کرتا ہے۔ وہ اس بات کا ا قرار کرتا ہے کہ میں تو صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں ، جس نے مجھے پیدا کیا،جس نے میری صورت گری کی ،جس نے آنکھیں بنائیں، دل اور دماغ بنا ئے ، جس نے کائنات کو پیدا کیا، جس نے یونیورس کو وجود میں لایا، جس نے سورج چاند ،اورستارے بنائے، جس نے زمین پرسبزے اور جنگلات اگائے، جس نے نہریں جاری کیں۔ جس نے آسمان پر پرندوں کو اڑایااورجھیل میں مچھلیوں کو تیرناسکھایا۔
انسان کو اس زمین پر جو کچھ ملا ہوا ہے اس کی ایک قیمت ہے۔اور وہ قیمت ہے لا لہ الا اللہ محمد الر سول اللہ  یعنی نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، محمد اللہ کے رسول ہیں۔
خدا نے انسان کے لئے اس عظیم کائنات کی تخلیق کی۔ انسان سے مطلوب تھا کہ وہ اس کائنات پرتصرف کرنے سے پہلے اس کی قیمت چکاتا۔ لیکن اس عظیم کائنات کی قیمت چکانا کسی کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ لہذا خدانے بندوں پر احسان فرمایا ،اور انھیں ایک کلمہ سکھا یا۔ پھراسی کلمہ کو کائنات کی قیمت بنایا۔ پس جوشخص بھی اس کائنات پرتصرف کرنا چاہے، اس پر لازم ہے وہ پہلے اس خدائی کلمہ ’ لا الہ الا اللہ ‘ کو پڑھے،کہ یہی کلمہ اس کائنات کی قیمت ہے۔
پس جس شخص نے بھی کلمہ پڑھ کر اس کائنات کو ہاتھ لگایا، اس نے گویا اس کا جائز استعمال کیا۔ اس نے خدا کی نعمتوں کی قدرکی، اور خدا کی ابدی جنت میں بسائے جانے کا استحقاق ثابت کیا۔ خدا ایسے لوگوں کو اٹھائے گا اور جنت میں بسا دے گا۔ جہاں وہ ابد تک کے لئے عیش و آرام ہوگا ۔
اس کے بر عکس جس نے بغیر قیمت چکائے اس کائنات پر تصرف کیا، اس نے گویا خدا کی نعمتوں کو غصب کیا۔ اس نے ایک ایسی چیز کا استعمال کیا جس کے استعمال کا اس کو حق نہیں تھا۔ گویا اس نے زمین پر لوٹ پاٹ مچایا۔ خدا ان لٹیروں کو اٹھا کر جہنم میں ڈال دے گا،جہاں ابد تک کے لئے رونا اوردانت پیسناہوگا۔
یہی وہ وزڈم ہے جسے ایک حدیث میں اس طرح سمجھا یا گیا ہے: من قال لا الہ الا اللہ و دخل ا لجنہ یعنی جس نے بھی کہا لاالہ اللہ وہ جنت میں داخل ہوا۔