لیکن یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے
محمد آصف ریاض
فروری 2013 کو مصر کے ایک عربی ٹیلی ویزن چینل " دریم
" پر ڈبیٹ (debate)
چل رہاتھا۔ اس ڈبیٹ میں ایک طرف کمیونسٹ رجحان والے سیاسی لیڈراحمد
دومہ بیٹھے تھے اوردوسری طرف مصرکے معروف سلفی عالم دین شیخ ابواسلام بیٹھےتھے۔
بات مصر کی سیاسی صورت حال پرہورہی تھی۔
احمددومہ بہت دیرتک بولتے رہے۔ وہ اسلام پسندوں کو برا بھلا
کہہ رہے تھے اورمصر کی موجودہ حکومت کی تنقید کررہے تھے۔ انھیں نظر انداز کر نے کے
لئے شیخ ابو اسلام نے ٹیبل پررکھے کاغذ کواٹھا یا اوراس سےنائو بنانے لگے۔ جب وہ
کئی نائو بنا چکے تو انھوں نے میزبان سے کہا کہ "پانی لائیے میں اس نائو کو
چلا ناچاہتا ہوں۔ میرے نزدیک ڈیمو کریسی اسی کا نام ہے۔"
مصر میں خواتین کےاحتجاج پراپنےخیالات کا اظہار کرتے ہوئے
شیخ ابواسلام نے کہا کہ "جو خواتین جانتی ہیں کہ احتجاج کی صورت میں ان کی
عزت آبرودائو پرلگ سکتی ہےتوپھروہ احتجاج کے لئے کیوں نکلتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ
ہوا کہ وہ پاک دامن نہیں ہیں۔"
اس پردومہ بھڑک اٹھے۔ انھوں نے کہا: " ان حذاء سیدۃ فی
مصر افضل من مئات الشیوخ" یعنی مصر کی عورتوں کی جوتیاں سینکڑوں شیوخ سےزیادہ
افضل اورپاک ہیں۔
اس پرشیخ ابواسلام بھڑک اٹھے اورانھوں نے اپنا جوتا
اتارکرٹیبل پررکھ دیا۔ اس کے بعد نشریہ کو تھوڑی دیرکے لئے روک دیا گیا۔
کسی شخص کو نظر
اندازکرنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بولے اور آپ اس کے سامنے بیٹھ کرکاغذ
کانائو بنائیں۔ لیکن یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ اسلام میں ہےکہ جب کسی کی بات تمہیں نا پسند ہو تواس کے جواب میں تم وہ بات کہو جواس سے بہترہو۔
اسلام کا فارمولہ یہ ہے کہ آدمی کسی بات کے جواب میں اس سے
بہتربات کہے اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو وہ احسن اندازمیں سلام کرکے بات کو
ختم کردے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
"اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کوحکمت اوربہترین نصیحت
کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔ یقیناً آپ کا رب راہ سے
بھٹکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی بخوبی واقف ہے"
(16:125)
" رحمان کے (اصلی) بندے وہ ہیں جوزمین پرنرم چال چلتے
ہیں اورجاہل ان کے منھ آئیں توکہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام" (25:63)
اسلام انسان کے اندر سنس آف رسپانسیبلیٹی جگاتاہے۔ جب کوئی داعی
بولتا ہے تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ خداوند براہ راست اس کی باتوں کوسن رہا ہے۔
اس کی بات محض اس کے اورمدعو کے درمیان ہونے والی بات نہیں ہے بلکہ اس کی گفتگو
میں خدا وند بھی شامل ہے۔ خداوند کی موجودگی داعی کوآخری حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔
اب جب داعی بولتا ہے تو وہ اس احساس کے ساتھ بولتا ہے کہ گویا وہ خدا وند سے ہم
کلام ہے۔
" تم چاہے اپنی بات پکارکرکہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی
بات بلکہ اس سے بھی زیادہ مخفی بات کو جانتا ہے" (20:7)
شیخ ابو اسلام کے سامنے دوخدائی آپشنس موجود تھے۔ یعنی احسن
انداز میں بات جاری رکھنے کا، یا احسن انداز میں بات ختم کر دینے کا۔ لیکن شیخ ابواسلام
نے ایک تیسرے آپشن کو لیا جوخود ان کا اپنا پیدا کردہ تھا۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص ابواسلام اورشیخ الا سلام
ہوسکتا ہے،پھربھی اس بات کا امکان باقی رہتا ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ
سکے اور جذبات کی رو میں آکر بہہ جائے۔