بدھ، 31 اگست، 2016

اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدار خدا کی جنت میں داخل نہیں ہوگا


اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدار خدا کی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا

محمد آصف ریاض


انجیل میں ہے کہ ایک شخص نے مسیح سے پو چھا؛ استاذ مجھےبتا ئیے کہ وہ کون سے بھلے کام ہیں جن کے ذریعہ میں ہمیشگی کی زندگی پالوں؟

مسیح نے جواب دیا یہی کہ " قتل نہ کرو، زنا اور بدکاری سے بچو، چوری نہ کرو، جھوٹی گواہی سے بچو، اور یہ کہ اپنے ماں باپ کا احترام کرو، اور اپنے پڑوسیوں سے اسی طرح سلوک کرو جس طرح کا سلوک تم خود اپنے ساتھ کرتے ہو ۔"

“‘Do not murder, do not commit adultery, do not steal, do not bear false witness, honor your father and mother, and love your neighbor as yourself.

یہ سن کر اس شخص نے جواب دیا؛ استاذ، یہ وہ کام ہیں جو میں پہلے سے ہی کرتا ہوں! تب مسیح نے کہا کہ جائو، جو کچھ تمہارے پاس ہے انھیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔ یہ سن کر وہ شخص بہت اداس ہوا اور اداسی کے ساتھ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا کیونکہ اس کے پاس بہت سا مال تھا۔ 

تب مسیح نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو میں کہتا ہوں " مالدارکا خدا کی جنت میں داخلہ بہت مشکل ہے۔ دیکھو؛ میں پھر کہتا ہوں کہ ایک اونٹ سوئیں کے ناکے سے گزر سکتا ہے، لیکن مالدار خدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔"

23Then Jesus said to His disciples, “Truly I tell you, it is difficult for a rich man to enter the kingdom of heaven. 24Again I tell you, it is easier for a camel to pass through the eye of a needle than for a rich man to enter the kingdom of God.” 

انجیل میں یہ الفاظ پڑھ کر مجھے حیرانی ہوئی ۔ مجھے لگا کہ مالدار ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اورکسی شخص کے غیر جنتی ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ مالدار ہے۔ یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ آخر مالدار ہونا اتنا بڑا گناہ کیوں ہے کہ ایک "اونٹ تو سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدارخدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا"! بہت غورو خوض کے بعد میں ایک نتیجے پر پہنچا۔

انجیل میں جو بات بیان ہوئی ہے بلا شبہ الفاظ کے اعتبار سے وہ ایک پر اسرار بات معلوم پڑتی ہے لیکن اپنی روح کے اعتبار سے وہ حقیقت پر مبنی ایک بیان ہے۔ وہ حقیقت واقعہ کا ایک تمثیلی اعلان ہے۔

سب جانتے ہیں کہ کوئی شخص خود بخود مالدار نہیں ہوجاتا۔ مالدار بننے کے لئے آدمی کو بہت زیادہ مشقت کر نی پڑتی ہے۔ مالداری کےحصول کے لئے آدمی کو رات دن محنت کرنی پڑتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنا تن من دھن لگا دیتا ہے تب جاکر وہ صورت پیدا ہوتی ہے جسے ہم مالداری کہتے ہیں۔

اب ذرا غور کیجئے؛ آدمی کے پاس محدود توانائی ہے۔ اس کے پاس سوچنے سمجھنے کے لئے ایک ہی دل اور دماغ ہے۔ آدمی اگر ایک کام کرے تو وہ دوسرا کام نہیں کر سکتا، آدمی اگر ایک بات سوچے تو اسی وقت وہ دوسری بات نہیں سوچ سکتا۔ انسان کی اس محدودیت کا اعلان قرآن میں ان الفاظ میں ہوا ہے" خدا نے کسی سینے میں دو دل نہیں رکھا"۔

آدمی کے پاس محدود وسائل ہوتے ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص اپنےسارے وسائل کو دنیا کی طلب پر صرف کردے تو ظاہر ہے کہ اس کے پاس جنت کے حصول کے لئے کوئی اثاثہ نہیں بچے گا، تب خود بخود وہ صورت پیدا ہوگی جو کسی شخص کو جنت سے محروم کردے گی۔ اسی صورت حال کا اظہار انجیل میں ان الفاظ میں ہوا ہے کہ "اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن مالدارخدا کی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا"!

قرآن میں اسی بات کا اعلان ان الفاظ میں ہوا ہے

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿١٦﴾ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٧﴾

"مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔"

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾

"زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے"

آدمی اگر دنیا سے دل لگا لے اور اسی کے بارے میں سوچے اور محنت کرے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آدمی جنت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے، اور جو شخص جنت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو جو اس کے لئے مشقت نہ اٹھائے اسے جنت ملنے والی نہیں ہے۔ 

انجیل کے اس بیان کو آپ انجیل کے ایک دوسرے بیان سے سمجھ سکتے ہیں۔ انجیل میں ہے:

"No one can serve two masters. Either you will hate the one and love the other, or you will be devoted to the one and despise the other. You cannot serve both God and money.
Matthew 6:24

"کوئی بھی شخص اپنے دو مالکان کو خوش نہیں کر سکتا۔ یا تو تم ایک سے نفرت کرو گے اور دوسرے سے محبت؛ یا تم ایک کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دو گے اور دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھو گے۔ تم خدا اور مال دونوں سے محبت نہیں کر سکتے۔"

منگل، 16 اگست، 2016

زندگی دھارے سے نہیں، بھائی چارے سے چلتی ہے

زندگی دھارے سے نہیں، بھائی چارے سے چلتی ہے

محمد آصف ریاض

ایک روز میں ایک وکیل کے گھرٹھہرا، تو دیکھا کہ گھر والوں کے درمیان ان کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ باہر جیتے ہوئے انسان معلوم پڑتے تھے لیکن گھر والوں میں وہ ہارے ہوئے انسان معلوم پڑ رہے تھے۔ میں نے بہت غور کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک شخص جو دوسروں کے معاملات ٹھیک کرانے کی گارنٹی لیتا ہے، وہ خود اپنے معاملات میں بے ٹھیک بنا ہوا ہے؟
مجھے تجسس ہوا۔ میں نے یہ جاننا چاہا کہ ایک کامیاب وکیل اپنے گھر والوں میں ناکام کیوں ہے؟ وہ جو باہر سب کے معاملات ٹھیک کرانے کی گارنٹی لیتا ہے، وہ اپنے معاملات میں اس قدر بےٹھیک کیوں ہے؟
اس حقیقت کے ادراک کے لئے میں نے ایک اور وکیل سے ملاقات کی ۔ میں اس کے گھر ٹھہرا تو دیکھا کہ گھروالوں اوراحباب کے درمیان اس کے معاملات بہت بہتر ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک وکیل اپنے گھر والوں میں ہارا ہوا، انسان معلوم پڑتا ہے اور دوسرا جیتا ہوا انسان۔
تھوڑی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ پہلا وکیل ہرچیزکو قانون کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ ہر چیز میں 'دھارا' تلاش کرتا ہے جبکہ دوسرا وکیل ہرمسئلہ کا عملی (pragmatic)  حل چاہتا ہے۔
دوسرے وکیل کی کامیاب زندگی کا رازاس حقیقت کے ادراک میں پوشیدہ تھا: " زندگی دھارے سے نہیں ، وہ محبت، حسن سلوک، اور بھائی چارے سے چلتی ہے۔"
اسی بات کوایک معروف امریکی مفکرمارک ٹیون نے ان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے:
" کمترانسان قانون کے ذریعہ قابو میں کیا جا تا ہے، جبکہ برتر لوگ حسن سلوک سے جیتے جاتے ہیں" مارک ٹیون
Laws control the lesser man... Right conduct controls the greater one.”

ہفتہ، 13 اگست، 2016

آخر کار خدائی عذاب کا کوڑا برسا

آخر کار خدائی عذاب کا کوڑا برسا

محمد آصف ریاض

تیرہویں صدی میں جب مسلمان ان عیسائی ممالک میں داخل ہوئے جنھیں آج یوروپ کہاجا تا ہے تو اس وقت وہاں کے حالات کیا تھے؟ یوروپ میں اس وقت کے حالات کو جاننے کے لئے ایک روسی مبصر کا تبصرہ پڑھئے۔
 اس تبصرہ کو پروفیسرتھامس آرنالڈ نےاپنی کتاب دی اسپریڈ آف اسلام (Spread of Islam in the world) میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔
" قانون کے خوف کے بغیر کسی سلطنت کی حالت اس گھوڑے کی طرح ہے جو بے لگام ہو۔ قسطنطین اوراس کےاسلاف نے اپنے امرا اور رئوسا کو اس بات کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ رعایا کو دبائیں اور ان کا استحصال کریں، ان کی عدالت میں انصاف نام کی کوئی چیزنہیں تھی۔ ان کے قلوب عزم اور حوصلے سے خالی تھے۔ ان کے ججوں کا حال یہ تھا کہ وہ بے گناہوں کے خون پسینہ کی کمائی پراپنا خزانہ بھرتے تھے۔ یونانی فوج صرف اپنی پوشاک میں عظیم الشان نظرآتی تھی۔ عوام اپنی حکومت سے بغاوت کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتےتھے۔ فوجیوں کا حال یہ تھا کہ وہ میدان جنگ سے بھاگنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔ آخرکاران نا اہل حکمرانوں پرخدانےعذاب کا کوڑا برسایا اور محمد کواٹھا جن کے سپاہ  میدان جنگ میں مسکراتے تھےاور جن کی عدالت میں انصاف کا خون نہیں بہا یا جا تا تھا۔      
   “ Without the fear of the law an empire is like a steed without reins. Constantine and his ancestors allowed their grandees oppress the people, there was no more justice in their law courts, no more courage in their hearts,  the judges amassed treasures from the tears and blood of the innocent,  the Greek soldiers   were proud only of the magnificent of their dresses. The citizens did not blushed of being traitors , the soldiers were not ashamed to fly.
At length  the Lord poured out  his thunder on these unworthy rulers, and raised up Mohammad whose warriors delight in battle, and whose judges do not betray  their trust.”
Spread of Islam in the world : page No 148   

اب جبکہ یوروپی طاقتیں مسلم دنیا میں داخل ہوچکی ہیں تو وہاں کے حالات جاننے کے لئے روسی وزیر اعظم دیمتری میدودیوکا یہ تبصرہ پڑھیں۔
روسی وزیراعظم دیمتری میدودیو نے 12 فروری 2016 کو ایک اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا: " اس طرح کی جنگ میں فوری کامیابی ناممکن ہے۔ خاص طور سےعرب دنیا میں جہاں ہر شخص ہر شخص کے خلاف لڑ رہا ہے۔"


“It would be impossible to win such a war quickly, especially in the Arab world, where everybody is fighting against everybody."

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ جب مسلمان اچھے تھے تو ان کے حالات بھی اچھے تھے، جب وہ یہود اور نصاریٰ کی طرح بگڑ گئے تو ان کے حالات بھی بگڑ گئے۔ روسی مبصر کے الفاظ میں " آخر کار ان نا اہل حکمرانوں پرخدائی عذاب کا کوڑا برسا"۔ حقیقت ہے کہ آدمی ہمیشہ اپنے اعمال کا ہی نتیجہ پاتا ہے جب مسلمانوں کے اعمال بھلے تھے تو اس کے نتائج بھی بھلے تھے جب ان کے اعمال بگڑ ے تو نتائج بھی بگڑ گئے۔ ٹھیک کہا گیا ہے جیسا عمل ویسا نتیجہ!  

جمعرات، 11 اگست، 2016

یہ پتھر کے ہاتھی ہیں جو بیٹھ جاتے ہیں تو کبھی اٹھتے نہیں

یہ پتھر کے ہاتھی ہیں جو بیٹھ جاتے ہیں تو کبھی اٹھتے نہیں
محمد آصف ریاض
دسمبر2015 کو ہندوستان ٹائمزلیڈرشپ سمٹ میں این ڈی ٹیوی کی صحافیہ برکھا دت نے ملائم سنگھ یادوکے بیٹے اوراتر پردیش کے وزیراعلیٰ جناب اکھلیش یادوکا انٹرویولیا۔ انھوں نے مسٹریادو سے پوچھا کہ کیا آپ بھی بہارکی طرح مایا وتی کے ساتھ کوئی اتحاد قائم کرسکتے ہیں؟
جناب اکھلیش یادو نے برکھا دت کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ " مایا وتی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ ان کی پسند یہ ہے کہ شہرمیں ہر طرف پتھرکے ہاتھی لگ جائیں۔ وہ ہر طرف ہاتھی لگا رہی ہیں۔ ان ہاتھیوں کا حال یہ ہے کہ " جوکھڑے ہیں وہ کبھی بیٹھے نہیں، اورجو بیٹھے ہیں وہ کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔"
ہاتھیوں سے متعلق اکھلیش یادو کا جواب سن کرسا معین ہنسنے لگے اورانھوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ درحقیقت اکھلیش یادو یہ کہنا چاہ رہے تھےکہ مایاوتی کوریاست کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ہے،انھیں صرف ہاتھی لگانے سے مطلب ہے اوروہ بھی پتھر کے ہاتھی، جو کسی کام کے نہیں ہوتے۔
یہ تو ہوا یوپی کے اکھلیش یادوکا بیان، اب ذرا گجرات کے ہاردیک پٹیل کا بیان لیجئے۔ ہاردک پٹیل نے اپنے ایک بیان میں  وزیراعظم مودی پرنشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ " پھترکے پٹیل بناتے ہو، ذرا دیکھو کہ پٹیل دل میں بھی کہیں بستا ہے؟"
اکھلیش یادواورہاردیک پٹیل کا بیان سن کرمیں سوچنے لگا کہ آدمی سیاسی باتوں کی وضاحت میں کتنا ہوشیارہے۔ وہ اپنی بات کہنے کےلئے ٹھیک وہی الفاظ چن لیتا ہے جوحقائق سے بالکل قریب ہوں۔ لیکن وہی آدمی الہامی سچایوں کے ادراک میں ایسا بودا بن جاتا ہے جیسے اسے کوئی سمجھ ہی نہ ہو۔
مثلا اگرآپ ان سے پوچھیں کہ یہ بت جنھیں آپ پوجتے ہیں ان کا معاملہ بھی تو پھتر کے ہاتھیوں جیسا ہے، جھنیں ایک بار بیٹھا دیا جائے تو وہ کبھی کھڑے نہیں ہوتے، اورجنھیں کھڑا کردیا جائے تو وہ کبھی بیٹھتے نہیں تو پھر وہ دیوتا کس طرح ہوسکتے ہیں؟ وہ پھتر کی مورتیں قابل پرستش کس طرح ہو سکتی ہیں؟
اس قسم کے سوال پرآپ بہت ہوشیارآدمی کو بھی بہت بودا پائیں گے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ آدمی وہی سمجھتا ہے جو اس کا کنسرن ہو، چونکہ انسان کا کنسرن دنیا ہے اس لئے وہ دنیا کی باتوں کو خوب سمجھ لیتا ہے، وہ آخرت کی باتوں کو نہیں سمجھ پاتا کیونکہ وہ اس کا کنسرن نہیں ہے۔
آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ آسمان دیکھ کربتا دیتا ہے کہ آج بارش ہوگی، اوربارش ہوتی ہے، وہ ہوائوں کے رخ کو دیکھ کربتا دیتا ہے کہ آج گرمی پڑے گی، اورگرمی پڑتی ہے۔ آدمی اپنی سمجھ کےاعتبارسے اتنا ہوشیارہے کہ وہ آسمان و زمین میں چھپی سچائیوں کوسمجھنے میں ذرا بھی دیرنہیں کرتا، لیکن وہی آدمی آخرت کی کھلی نشانیوں کوسمجھنے میں ایسا بودا بن جا تا ہے، جیسے اسے کوئی سمجھ ہی نہ ہو۔       
کاش انسان جانتا کہ فیصلے کے دن انسان اپنے علم کی کمی کے لئے خدا کے آگے جواب دہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ خدائی معاملات میں اپنی غیرسنجیدگی کے لئے پکڑا جائے گا۔