منگل، 28 جولائی، 2015

کمزوری آپ کو تباہ نہیں کرتی، یہ آپ کی طاقت ہے جو آپ کو تباہ کر دیتی ہے

کمزوری آپ کو تباہ نہیں کرتی، یہ آپ کی طاقت ہے جو آپ کو تباہ کر دیتی ہے

محمد آصف ریاض
فرید زکریا معروف انڈین اسکالررفیق زکریا کے بیٹے ہیں ۔ وہ عالمی شہرت یافتہ سیاسی مبصراورتجزیہ نگارہیں۔ وہ امریکہ میں رہتے ہیں۔ 2014 تک وہ ٹائم میگزین کے ایڈیٹررہے، اس کے ساتھ ہی وہ ایشیا سے متعلق اوبامہ کی صلاح کارٹیم میں بھی کام کر چکے ہیں۔ انھوں نے سن جرنل (Sun Journal) میں ایک مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے:
"ہماری توجہ سے دور چین اپنی کامیابی کی راہ پر گامزن ہے۔"
 (Outside our focus, China marches on)
مسٹرزکریا نے لکھا ہے کہ جنوری 2007 میں جبکہ جارج ڈبلیو بش عراق میں مزید فوجی کمک بھیجنے کا حکم صادر فرما رہے تھے، میں ایک چینی کمیونسٹ دوست کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ کھانے کے دوران میں نے پوچھا کہ عراق میں مزید فوج بھیجنے کے امریکی فیصلے کوچین میں کس طرح لیا جا رہا ہے تواس کا جواب بہت ہی اثر دار تھا۔ اس نے کہا:
" ہم تو یہ چاہیں گے کہ تم اپنی ساری فوج عراق بھیج دو اور وہاں اگلے 10 سال تک مصروف جنگ رہو۔ اس درمیان ہمیں اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کا موقع مل جائے گا۔"
     "We would hope that you would send the entire American Army into Iraq and stay for another 10 years. Meanwhile, we will keep building up our economy."
مسٹرزکریا نے لکھا ہے کہ مجھے یہ بات اس ہفتے اس وقت یاد آگئی جبکہ میں جنوبی ایشیا کےدورے پرتھا ۔ میں نے دیکھا کہ " مغربی دنیا آئی ایس، ایران اور یونان کے معاملہ میں مصروف رہی۔ اس درمیان چین نہ صرف اپنی معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگیا بلکہ اس نے خطے میں نئے قسم کی جغرافیائی سیاسیات کا آغاز بھی کردیا۔"
ایک اورمصنف نے اپنے مضمون میں چینی پہل جیسےایشیا ڈیولپمنٹ بینک، ایشیا انفراسٹرکچرانوسٹمنٹ بینک اورسنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ (non-West ) یعنی غیر مغرب کا عروج ہے۔
یوروپ اورامریکہ کی تباہی بتا رہی ہے کہ ہرجنگ دو طرفہ تباہی پرختم ہوتی ہے۔ کوئی بھی جنگ یکطرفہ تباہی پرختم نہیں ہوتی۔ جنگ کے بارے میں یہ کہا جا تا ہے کہ آپ اپنی منشا کے مطابق اسے شروع کر سکتے ہیں لیکن آپ اپنی منشا کے مطابق اسے ختم نہیں کر سکتے۔ یعنی جنگ کا آغاز آدمی کے اپنے ہاتھوں میں ہے لیکن اس کا انجام اس کے ہاتھوں میں نہیں۔
افغانستان برباد ہوا تواس کے ساتھ روس بھی کئی ٹکڑوں میں منقسم ہو کربکھر گیا۔ عراق برباد ہوا تو اس کے ساتھ ہی امریکہ اوریوروپ بھی برباد ہوگیا۔ یونان، اسپین ، اٹلی اور یوروپ کے دوسرے ممالک میں آج جو اتھل پتھل ہے اس کی تاریں کہیں نہ کہیں عراق اورافغانستان جنگ سے جڑی ہوئیں ہیں۔
تاریخ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ تما بڑی طاقتیں اس وقت تباہ ہوئیں جبکہ وہ اپنے شباب پر تھیں۔ مثلاً فرعون اس وقت تباہ ہوا جبکہ اس کی حکومت شباب پرتھی۔ رومن اورایرانی ایمپائراس وقت تباہ ہوئے جبکہ وہ طاقت کے نشے میں تھے۔ روس اس وقت ٹوٹا جبکہ وہ عہد شباب پر تھا۔ یوروپ اور امریکہ اس وقت ٹوٹ رہا ہے جبکہ یہ طاقتیں عہد شباب میں ہیں۔
یاد رکھئے" کمزوری آپ کو تباہ نہیں کرتی، یہ آپ کی طاقت ہے جو آپ کو تباہ کر دیتی ہے۔" اگر آپ کمزور ہیں تو یہ بہت خطرے کی بات نہیں، خطرہ اس وقت ہے جبکہ آپ طاقت میں ہوں۔ تو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم زمین پرطاقت حاصل ہے اس لئے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، انھیں جاننا چاہئے کہ قومیں ہمیشہ اپنی طاقت کے ساتھ ختم ہوئی ہیں، وہ بے طاقتی کے ساتھ ختم نہیں ہوئیں۔
عاد ، ثمود اور میخوں والے، سب طاقت کے ساتھ ختم ہوئے ، ان میں سے کوئی بے طاقتی کے ساتھ ختم نہیں ہوا۔ تو اگر آپ طاقت والے ہیں تو سنبھل کر چلئے کہ آپ کے گرنے کا اندیشہ زیادہ ہے۔
معروف اردو شاعرمیرتقی میراپنے اشعار میں شاید اسی نکتے کی وضاحت کرنا چاہ رہے تھے:  
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا۔

پیر، 20 جولائی، 2015

تبدیلی مذہب کی ایک دوسری کہانی

تبدیلی مذہب کی ایک دوسری کہانی

محمد آصف ریاض
جب وہ بچہ تھا تو اس کے ماں باپ نے اس کا نام ابھینندن رکھا تھا۔ ابھینندن ہندی کا لفظ ہے جس کے معنی ہوتا ہے استقبال یا خیرمقدم۔ ابھینندن اب بڑا ہو چکا ہے، اب اس نے اپنا نام ابراہیم رکھ لیا ہے۔ کیونکہ اب وہ دین ابراھیم میں داخل ہوچکا ہے۔ ابھینندن بہارضلع کے بھا گلپورکے ایک گائوں کا رہنے والا ہے۔ ایک ملاقات میں اس نے بتا یا کہ جب وہ مذہب اسلام میں داخل ہوا توگھرکےسارے لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ یہ اس کے لئے سخت مرحلہ تھا۔ اس نے گھرچھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی اس کے ساتھ جانے پرراضی نہ ہوئی کیونکہ اس پراس کے والدین اورساس سسرکا دبائوتھا۔ ابھینندن اپنی بیوی بچے کوچھوڑ کرگھرسے نکل گیا۔ پھرایک سال کے بعد گھر واپس آیا ۔ بیوی سے چپکے سے پوچھا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہو گی؟ اس نے کہا؛ ہاں۔ تب اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ بھاگنے کے لئے تیار ہوجائو۔ وہ اپنی بیوی بچے کولے کرشہر کی طرف بھاگ نکلا۔ اب اس کی بیوی بھی دین ابراہیم میں داخل ہوچکی ہے۔ ابھینندن کے تین بچے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ شہرمیں رہتے ہیں۔ بعد میں انھوں نے اپنے بھائی منڈل کو بھی شہرمیں بلا لیا، انھیں دین کی تعلیم دی، کچھ دنوں کے بعد وہ بھی مسلمان ہوگئے۔
مسٹرابھینندن نے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ ابھی حال ہی میں وہ اپنے گائوں گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے گائوں والوں کو اللہ اوررسول کا پیغام سنایا اورانھیں دین کی تعلیم دی۔ انھوں نے گائوں والوں کوجب بتایا کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے تو گائوں کے کچھ لوگ بھڑک اٹھے۔ "وہ مجھ سے جھگڑا کرنے لگے تومیری طرف سے میرے تائو کا بیٹا یعنی میرے بڑے باپ کا بیٹا لکشمن کھڑا ہوا اوراس نے پکار کرکہا کہ " تم لوگ میرے رہتے ہوئے میرے بھائی کو نہیں مار سکتے۔ وہ مسلمان ہوگیا تو کیا ہوا وہ میرا بھائی ہے"
ابھینندن بتاتے ہیں کہ گائوں کے لوگوں سے بات چیت ختم کرکے وہ اپنے گھرچلےآئے۔ " گھرمیں پتا جی نے کہا کہ بیٹا تمہارے مسلمان ہونے سے کسی کو تکلیف نہیں ہے لیکن بات یہ ہے کہ تم ہرکسی کو اللہ اوررسول کی بات سنانے لگتے ہو یہی سب سے بڑی دقت ہے، اسی بات پر لوگ بھڑک جاتے ہیں۔" ہم نے جواب دیا ۔ " پتا جی مسلمان ہو نے کے بعد تو یہ میرا فرض بن جا تا ہے کہ میں لوگوں کو اللہ کی بات سنائوں ۔ میں اس کام سے ہرگزباز نہیں آسکتا ۔ یہ کہہ کروہ اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ گھر سے شہرکے لئے روانہ ہوگئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ راستے میں بیوی نے انھیں بتایا کہ " گائوں والے ہمیں نکال رہے ہیں لیکن ہم نے سنا ہے کہ اس گائوں میں کچھ مسلمان زمینیں خرید رہے ہیں، وہ یہاں بسنے والے ہیں، اگر وہ یہاں بس گئے تو ہم لوگ بھی یہاں آکرآباد ہوجائیں گے۔"
لکشمن کی یہ بات سن کرکہ " میرے رہتے ہوئے تم میرے بھائی کو نہیں مار سکتے" مجھے پیغمبر اسلام کا ایک واقعہ یاد آگیا۔
یہ واقعہ بہت مشہور ہے اورسیرت کی تقریباً تمام کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں دین کی دعوت دے رہے تھے۔ اسی دوران ابوجہل کا اس طرف سے گزرہوا۔ ابوجہل جو پیغمبر اسلام کا چچا تھا اور پیغبر اسلام سے سخت عداوت رکھتا تھا اس نے پیغمبر اسلام کو زودو کوب کیا اورانھیں پتھر سے مارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوجہل کے ظلم و ستم پرخاموش رہے اوراس کی اذیت پرصبرکیا۔
 ایک عورت اپنے گھرمیں بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اچانک اس نے حضرت حمزہ کو ادھر سے گزرتے ہوئے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔ وہ دوڑی ہوئی حضرت حمزہ کے پاس آئی اور کہنے لگی : "کاش آپ تھوڑی دیر پہلے یہاں ہوتے اوراپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ  کیسا برا سلوک کیا، اس نے انہیں گالیاں دیں اوراُن پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ اورآپ کے بھتیجے محمد نے اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔"
حضرت حمزہ یہ سن کرسخت غضبناک ہوئے اورکہنے لگے : ابوجہل کی یہ جرات کہ اُس نے میرے بھتیجے محمد پرہاتھ اٹھایا۔ یہ کہتے ہوئے تیزتیز قدم اٹھاتے ہوئے خانہ کعبہ میں پہنچے۔ ابوجہل کو دیکھا کہ وہ روسا ئےقریش کی ایک مجلس میں بیٹھا ہے۔ اسے دیکھ کرحمزہ کا غصہ مزید بھڑک اٹھا اورآپ نے ابوجہل کو یہ کہتے ہوئے کہ تیری یہ ہمت کہ تو میرے بھتیجے محمد کوگالی دے اوران سے بدسلوکی کرے، اپنی کمان سے اس کے سر پراس زور سے ماراکہ اس کا سر پھٹ گیا۔ اس پراس کے ساتھیوں نے حضرت حمزہ کوجوکہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے پکڑنا چاہا، توابوجہل نے کہا کہ ابوعمارہ کو چھوڑ دو، اسے کچھ نہ کہو، واللہ، ہم نے اس کے بھتیجےمحمد کوآج  بہت برا بھلا کہا ہے۔
ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 2129
پیغمبراسلام کا یہ واقعہ آج  اکیسویں صدی میں بھی کس تسلسل کے ساتھ  دہرایا جا رہا ہے اس کی ایک جھلک آپ نے اوپر ابھینندن کے واقعہ میں دیکھی، کہ کس طرح اس کا چچا زاد بھائی لکشمن اس کے اور اس کے مخالفین کے درمیان حمزہ بن کر کھڑا ہوگیا۔ اب میں آپ کو ایک اور واقعہ سنا تا ہوں ، یہ واقعہ خود میرے ساتھ گزراہے۔
2014 میں جب ہندوستان میں لوک سبھا کا انتخاب ہو رہا تھا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ مسلمانوں کے بارے میں طرح طرح کے بھڑکائو بیانات جاری کررہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا مسلمانوں کو پاکستان بھگا دیا جائے گا۔ کوئی کہہ رہا تھا انھیں دریا میں ڈھکیل دیا جائے گا۔ کوئی ان کے وجود کو مٹا دینے کی بات کر رہا تھا وغیرہ۔
اس درمیان ایک دن میں پٹنہ کے سفر پر تھا۔ آرہ اوربکسر کے درمیان ایک ہندو جوڑا ٹرین میں سوارہوا۔ دونوں میری سیٹ پر بیٹھ گئے۔ وہ مجھ سے بات چیت کرنے لگے۔ عورت خاموش تھی لیکن مرد بول رہا تھا۔ اس نے گفتگو کے دوران ایک ایسی بات کہی جو میرے لئے غیر متوقع تھی ۔ آج تک ہم نے کہیں کسی ہندو کی زبان سے اس طرح کی بات نہیں سنی تھی۔
اس نے کہا کہ " کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کواس ملک سے نکال دیں گے، ان کو مار دیں گے، ان کو دریا میں ڈھکیل دیں گے، کون ماں کا لال ہے، جو مسلمانوں کو مارے، یا ان کو اس ملک سے نکال دے! مسلمان کون ہیں؟ یہ میرے بھائی ہیں۔ ہم دو بھائی تھے، ہم میں سے ایک کواسلام دھرم پسند آیا اوروہ مسلمان بن گیا، اورہم ہندو رہ گئے، تو اب اسے کوئی نکالے گا یا مارے گا تو کیا ہم چپ بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں گے؟ کیا ہم اپنے بھائی کو چھوڑ دیں گے؟
کتنی عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے ہندو آج  بھی مسلمانوں کو اپنا خونی  بھائی سمجھتے ہیں۔ کاش مسلمانوں کو بھی اس کا شعورہوتا۔ کاش وہ بھی ہندوئوں کو اپنا بھائی سمجھتے۔ کاش ان کا دل بھی اپنے بھائی کی خیر خواہی میں تڑپتا۔ کاش وہ بھی اپنے بھائی کی تکلیف دہ باتوں پرخاموش رہنے اورصبرکرنے کا سلیقہ جانتے، یہاں تک کہ کوئی رام یا لکشمن اٹھ کران کی طرف سے بولنے لگتا۔
میناکشی پورم سے رحمت نگر
میناکشی پورم تمل ناڈو کے ضلع ترونیلویلی  Tirunelveli کا ایک گائوں ہے۔ یہاں 19 فروری 1981 کو ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ترونیویلی ضلع کے لوگ صبح جب سوکراٹھے توخبر پڑھی کے میناکشی پورم گائوں کے زیادہ تر لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ ایک خبر یہ تھی کہ 800 سو لوگ مسلمان ہوئے۔ دوسری خبر یہ تھی کہ تین سو لوگ مسلمان ہوئے۔ جب یہ خبرملک میں پھیلی تو ہر طرف گویا بھونچال آگیا۔ بی جے پی لیڈراٹل بہاری واجپئی بھاگے ہوئے میناکشی پورم پہنچے، اس وقت کی مرکزی حکومت نے بھی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اپنا وفد میناکشی پورم روانہ کیا ۔ معلوم ہوا کہ وہاں کے دلت اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے برتائو سے تنگ آکراسلام میں داخل ہوچکے ہیں ۔ اب وہ کسی بھی حالت میں اسلام مذہب چھوڑنے کے لئے تیارنہ تھے۔2014 میں جبکہ اقتدار کی باگ ڈوربی جے پی کے ہاتھوں میں آئی تو ملک بھر میں 'گھر واپسی' کا معاملہ اٹھا۔
تبدیلی مذہب کی ایک دوسری کہانی
ٹائمزآف انڈیا کی ایک خاتون رپورٹرجیا مینن نے 4 جنوری 2015 کویہ جاننے کے لئے کہ میناکشی پورم میں جو لوگ
81 19میں مسلمان ہوئے تھےآج ان کا کیا حال ہے وہاں کا دورہ کیا۔ وہاں سے لوٹ کرانھوں نے ٹائمز آف انڈیا میں ایک اسٹوری کی۔ اس اسٹوری کا عنوان تھا 'تبیلی مذہب کی ایک دوسری کہانی' (The other conversion story) اس اسٹوری میں انھوں نے ایک انوکھے واقعہ کا ذکرکیا۔ انھوں نے بتا یا کہ میناکشی پورم جوکہ اب رحمت نگربن چکا ہے، وہاں ہم نے شام کی نمازکے وقت ایک مسجد کا دورہ کیا۔ یہ مسجد میناکشی پورم کے مسلمانوں نے تبدیلی مذہب کے فوراً بعد تعمیرکی تھی۔ یہاں انھوں نے دیکھا کہ مسجد کے اندربینچ پر 66 سالہ ایک شخص بیٹھا ہے۔ مینن نے ان سے پوچھا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اورآپ یہاں بیٹھے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہ ہندو ہیں۔ ان کا نام کروپیا ماداسامی  Karuppiah Madasamy,  ہے۔ وہ یہاں بیٹھ کراپنے پوتوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے پوتے اندرمسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتا یا کہ نماز ختم ہوجائے تووہ اپنے پوتوں کے ساتھ چائے پینے نکلیں گے۔ انھوں نے بتا یا کہ ان کا بیٹا مسلمان ہوگیا تھا اور وہ ہندو ہی رہے ۔ ان کے سارے پوتے مسلمان ہیں۔
مسلمانوں کے لئے سبق
ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ بڑھئے تومعلوم ہوگا کہ ان کا ہندوئوں کے ساتھ خونی رشتہ رہا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان باہرسے آئے ہوئے نہیں ہیں۔ مٹھی بھر لوگ باہرسے آئے تھے، مسلمانوں کی بڑی تعداد تبدیلی مذہب کے ذریعہ مسلمان ہوئی۔  پہلے مسلمانوں نے حسن سلوک، رواداری اوراسلامی شرافت کا نمونہ پیش کیا تو لوگ خاص کرملک کے ہندو ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔ کل کے مسلمانوں نے زیادہ شرافت ، زیادہ خیرخواہی اور زیادہ رواداری کا مظاہرہ کیا تو زیادہ لوگ اسلام کے سا ئے میں داخل ہوئے۔ آج کے مسلمان ایسا کرنے میں فیل ہوگئے تو رسوائی ہاتھ لگی۔ مسلمان جب تک شکربنے ہوئے تھے، جب تک وہ دوسروں کی زندگی میں مٹھاس گھول رہے تھے، تو وہ پوری دنیا پر چھا ئے ہوئے تھے لیکن جب انھوں نے لوگوں کی زندگی میں مٹھاس کی جگہ کھٹاس بھرنا شروع کردیا توخدا نے انھیں امامت کے منصب سے ہٹا دیا اورمسلمان آج اسی کا رونا رورہے ہیں۔
پارسیوں کا واقعہ
ویکی پیڈیا میں ہندوستان میں پارسیوں کی آمد کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ لکھا ہوا ہے۔ ہندوستان میں پارسی گجرات کے راستے سے داخل ہوئے۔ کہا جا تا ہے کہ جب پارسیوں کا پہلا جھتا گجرات میں داخل ہوا تو اس نے گجرات کے راجپوت راجا "جادھورانا" کے سامنے ملک میں ٹھہرنے کی درخواست پیش کی۔ اس کے جواب میں راجا نے دودھ سے بھرا ایک پیالہ پارسیوں کے سردارکوبھیج دیا۔ سردارہوشیارتھا، اس نے سمجھ لیا کہ راجا کہہ رہا ہے کہ جس طرح پیالہ دودھ سے بھرا ہے، اسی طرح اس کا ملک بھی بھرا ہوا ہے۔ یہاں باہری لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے جواب میں پارسی سردارنے دودھ  میں شکرملا کر راجا کوواپس کردیا کہ حضور ایک گھونٹ پی لیں۔ راجا نے دودھ کو چکھا تواسے بہت میٹھا معلوم ہوا۔ اس نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے ملک میں کوئی گڑبڑی پیدا کرنے نہیں آئے ہیں۔ ہم آپ کے ملک میں مٹھاس گھولنے آئے ہیں۔ راجا خوش ہوا اوراس نے پارسیوں کو اپنے ملک میں بسنے کی اجازت دے دی۔
مسلمان پچھلے ہزارسالوں میں پوری دنیا میں بسے۔ وہ صرف اسی مٹھاس کی طاقت پربسے ۔ جب تک وہ دودھ میں مٹھاس ملاتے رہے وہ دنیا پرحکمراں بنے رہے، جیسے ہی انھوں نے مٹھاس کی جگہ کھٹاس ڈال کر دودھ کو پھاڑنا شروع کیا توخدانے انھیں امامت کے منصب سے ہٹا دیا ۔ اب مسلمان اگر اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ ایک بار پھر دودھ میں شکر ملانے کا ہنرسیکھیں۔ وہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیداکریں، وہ لوگوں کے لئے مشکل کھڑی نہ کریں۔
حدیث میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " یسرو ولا تعسرو، وبشرو ولا تنفرو" یعنی تم لوگ آسانی پیدا کرنے والے بنوتم لوگ مشکل پیدا کرنے والے مت بنو، تم لوگ بشارت سنانے والے بنو تم لوگ نفرت پھیلانے والے مت بنو۔

منگل، 14 جولائی، 2015

افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ سبت کے انجام کو خوب جانتے ہیں اورصوم کے انجام سے غافل ہیں


افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ سبت کے انجام کو خوب جانتے ہیں اورصوم کے انجام سے غافل ہیں
محمد آصف ریاض
خدا نے یہود کو سبت کا دن دیا تھا۔ یہ دن ان کے لئے بہت ہی محترم اورمقدس تھا۔ ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ اس دن کے تقدس کو پامال نہ کریں اوراسے خدا کی عبادت کے لئے خالص کرلیں اور خدا سے ڈرتے رہیں۔
لیکن یہود نے اس دن کے تقدس کو پامال کیا اورسبت کے دن بھی دنیا داری میں اسی طرح سرگرم رہے جس طرح اوردنوں میں رہا کرتے تھے۔
یہود ساحل سمندر پر رہتے تھے اورمچھلیوں کا شکارکرتے تھے۔ ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ سبت کے دن مچھلی مت پکڑنا، یہ ان کی آزمائش تھی ۔ لیکن ان کے بگڑے ہوئے لوگوں نے یہ راستہ نکالا کہ بنسی جمعہ کے دن لگا دیتے اورجب سنیچرکو مچھلیاں ان میں آکر پھنس جاتیں تو وہ انھیں اتوارکے دن پکڑ لیتے اورجب کوئی منع کرنے والا انھیں منع کرتا تو وہ کہتے کہ وہ سبت کے دن یعنی سنیچرکے دن کہاں مچھلی پکڑتے ہیں، وہ تواتوارکے دن مچھلی پکڑتے ہیں۔
یہود نے سبت کے تقدس کو پامال کیا تو ان پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ عین سبت کے دن جبکہ وہ اپنی حیلہ بازیوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑ رہے تھے تو خدا نے انھیں بندر بنا دیا۔ قرآن میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:
" جنھوں نے سبت کا قانون توڑا تھا تو ہم نے انھیں کہہ دیا کہ بندر بن جائو اوراس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے" (البقرہ 2: 65 )
جس طرح یہود کو ہفتے میں ایک دن برکت والا اوررحمت والا دیا گیا تھا اوران سے کہہ دیا گیا تھا کہ اس دن کے تقدس کو پامال نہ کرنا اوراس دن کو خدا کی عبادت کے لئے خالص کرلینا اورحد سے تجاوز نہ کرنا کہ کہیں تم نقصان اٹھانے والے نہ بن جائو۔ اسی طرح خدا نے مسلمانوں کو بھی سال میں ایک مہینہ دیا ہے ۔ وہ مہینہ رمضان کا ہے۔ اوران سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اس ماہ کے تقدس کا خیال رکھیں۔ وہ اس مہنے میں روزہ رکھیں ، زیادہ سے زیادہ نماز کا اہتمام کریں ، صدقہ ، فطرہ اور زکواۃ ادا کرتے رہیں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ اسی مہنے میں خدا نے انھیں اپنا کلمہ قرآن کی شکل میں دیا ہے وہ اس کی تلاوت کرتے رہیں اوراس مہنیہ کو خدا کی عبادت کے لئے خالص کرلیں اوراس کے تقدس کا پورا خیال رکھیں۔ اسی مہنے میں ایک رات ہے جو ہزارراتوں سے بہتر قرار دی گئی ہے مسلمانوں سے مطلوب ہے کہ وہ اس رات کی جستجو میں رہیں۔
قرآن میں ہے:
" رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو انسانوں کے لئے سراسرہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پرمشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اورحق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھےاورجو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو ، تو وہ دوسرے دنوں میں روزے کی تعداد پوری کرے ۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا، اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفرازکیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی بیان کرو اور اس کا شکرادا کرو۔" (سورہ البقرہ 2:185)
دوسری جگہ فرمایا : " اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پرروزے فرض کر دئے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروئوں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔" سورہ البقرہ
سبت اور صوم
یہود کو سبت دیا گیا تھا اورمسلمانوں کو صوم دیا گیا ہے اور دونوں کو خبردار کردیا گیا کہ وہ اس مبارک دن اور مہنے کے تقدس کا پورا خیال رکھیں۔ یہود نے سبت کی عظمت کو پامال کیا تو خدا نے انھیں بندر بنا دیا اورکہا کہ اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار اور پھٹکار ہو۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ  شکلاً بندرنہیں بنائے گئے تھے بلکہ اپنی فطرت اور عادت کے لحاظ سے بندر بنا دئے گئے تھے۔ اب یہود کا حال یہ تھا کہ کوئی بھی لاٹھی لے کر اٹھتا اور جس طرح بندر کو ادھر سے ادھر منتشر کر دیا جا تا ہے وہ یہود کو ادھر سے ادھر بھگا دیتا۔ مثلاً یہود کو پہلے بیبیلونیا کے بادشاہ بخت نصر نے مار بھگایا اوریروشلم کو پوری طرح تباہ کردیا۔  پھرروم کا بادشاہ ٹائٹس اٹھا اوراس نے یہود کو منتشر کردیا اوریروشلم کو پوری طرح تباہ کردیا، اسی طرح ہٹلراٹھا اوریہود کی آدھی سے زیادہ آبادی کو قتل کرنے اور انھیں بے گھر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہردور میں کوئی قوم اٹھتی اور یہود کو ڈنڈا لے کر اس طرح ہنکا دیتی جس طرح بندر کو ہنکا یا جاتا ہے ۔
یہود کے معاملہ میں مسلمانوں کے لئے عبرت ہے۔ وہ یہ کہ اگر مسلمان بھی یہود کی طرح صوم کا احترام قائم کرنے میں ناکام رہے، اور صوم کے ساتھ بھی وہی کیا جو یہود نے سبت کے ساتھ  کیا تھا تو بعید نہیں کہ انھیں بھی خدا یہ کہہ دے کہ  "جا، بندر ہوجا" یعنی یہ کہ تیری خصلت بند کی طرح ہوجائے اورجس طرح بندر پیٹ بھر نے کے لئے ایک ڈال سے دوسری ڈال پر چھلانگ لگاتے رہتے ہیں، تو بھی ایک شہر سے دوسرے شہر کا چکر کاٹتا رہ ۔ اور جس طرح بندر کی محنت کار گر نہیں ہوتی اسی طرح تیری بھاگ دوڑ بھی بے کار ثابت ہوگی۔ اورذرا فلسطین سے برما اور نائجیریا سے عراق و شام اور افغانستان تک نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ آج مسلمانوں کا حال بھی وہی ہوگیا ہے جو یہود کا ہے۔ آج مسلمان دنیا بھر میں دوسری قوموں کے ذریعہ اس طرح ہانکے جا رہے ہیں جیسے کہ وہ بندر ہوں اور کوئی لاٹھی وا لا انھیں ادھر سے ادھر منتشر کر رہا ہو۔
افسوس ہے مسلمانوں پر اور ان کےعلما پر جو یہود کے سبت کے انجام کو تو خوب جانتے ہیں لیکن اپنے صوم کے انجام سے غافل ہیں۔       

ہفتہ، 11 جولائی، 2015

خدایا، تو میری قوم کوعلم و دانش سے خالی مت چھوڑ


خدایا، تو میری قوم کوعلم و دانش سے خالی مت چھوڑ

محمد آصف ریاض

البانیہ یوروپ کا ایک ملک ہے۔ یہ یوروپ کے نقشے پرجنوب مشرق میں واقع ہے۔ اس خطہ کوبلقان بھی کہتے ہیں۔ البانیہ کے شمال مغرب میں مانٹینیگرو، شمال مشرق میں کوسوو،جبکہ مشرق میں مقدونیہ اوراس کے جنوب مغرب میں یونان واقع ہے۔


البانیہ میںsalve سلیودور(548) سے پہلے تک رومن ایمپائرکا قبضہ تھا، پھراس پر9 ویں صدی میں بلغاریائی ایمپائرکا قبضہ ہوا۔ 13 ویں صدی میں رومن ایمپائراوربلغاریائی ایمپائرکی کمزوری کےساتھ ہی اس کے کچھ علاقوں پرسربوں نے قبضہ جما لیا۔ 1415 میں عثمانیوں نے اس پرحملہ کیا اورکئی سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد 1431 میں اس پرقابض ہونے میں کامیاب ہوگئے۔


کہا جا سکتا ہے کہ البانیہ 15ویں صدی میں اسلام سے متعارف ہوا لیکن اسے اسلام میں داخل ہونے میں 200 سال لگ گئے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ ترکوں کے تئیں ان کی نفرت تھی۔ ترک ایک فاتح قوم کی طرح اس میں داخل ہوئے تھے جس کی وجہ سے البانیائی قوم اورترک قوم کے درمیان ایک نفسیاتی خلا پیدا ہوگیا تھا۔ اس خلا کو پر کرنے میں دو سو سال لگے۔ ترکوں نے دوسوسال کی کوشش اورحسن سلوک سے اس خلا کو پاٹنے میں کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے مفتوح قوم کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا۔ ان کی اخلاقیات اوربردباری کو دیکھ کرالبانیائی قوم پگھل گئی اوردوسوسال کے بعد 17 ویں صدی کی انتہا میں محض 50 سال کے اندراندر پوری قوم اسلام میں داخل ہوگئی۔


دی اسپریڈ آف اسلام ان دی ورلڈ (The Spread of Islam in the World ) کے مصنف پروفیسرتھامس آرنالڈ نےاسے تاریخ کا ایک حیران کن واقعہ قرار دیا ہے۔ ایک قوم جودوسو سال تک اپنی تہذیب اوراپنے مذہب کو اپنے گلے میں باندھے رہی، اچانک محض پچاس سال کی مدت میں حیرت انگیز طورپراسلام میں کس طرح داخل ہوگئی؟ پروفیسرآرنالڈ نے لکھا ہے کہ جہاں ترکوں کا ہتھیارہارگیا وہاں ان کی اعلیٰ قدریں اوراعلیٰ اخلاقیات جیت گئیں۔ البانیہ آج ایک مسلم ملک ہے۔ اس کی آبادی 30 لالکھ ہےاوروہ تیزرفتارترقی کی راہ پر گامزن ہے۔


ترکی کےموجودہ صدررجب طیب اردوغان 13 مئی 2015 کوالبانیہ کے سرکاری دورے پرپہنچے۔ یہاں انھوں نے دارالحکومت 'تیرانہ' کے نزدیک 'پریزا' گائوں میں ترک طرزتعمیر کی ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پرایک البانیائی لڑکی نے معروف ترک شاعر Arif Nihat Asya) ) کی ایک دعایہ نظم پڑھی۔ اس نظم کوسن کررجب طیب اردوغان اوران کی اہلیہ روپڑیں۔ وہ نظم یہ ہے۔


"خدایا، چیخ و پکارکی وجہ سے ہماری آواز بیٹھ گئی ہے، توہماری مسجدوں کے میناروں کواذان کی صدائوں سے خالی مت چھوڑ


خدایا، ہمارے درمیان ایسے لوگ اٹھا جوشہد پیدا کریں، تو ہمیں شہد کی مکھیوں سے خالی مت چھوڑ

خدایا، ہماری مسجدوں کے مینارے قمقموں سے خالی ہیں، توہمارے آسمانوں کو قوس و قزح سے خالی مت چھوڑ

خدایا، تو اس ملک کو جسے مسلمانوں نے بنایا ہے، اسے مسلمانوں سے خالی مت چھوڑ

خدایا، اس قوم کو جسے ایک ہیرو کی تلاش ہے، تو اسے بغیر ہیرو کے مت چھوڑ

خدایا، ہمیں دشمنوں کا سامنا کرنے والا بنا ، تو ہمیں مردہ مت چھوڑ 

خدایا، ہم کل کے سفرپرہیں تو ہمارے سال کو رمضان سے خالی مت چھوڑ

خدایا، اگراس ریوڑ کا کوئی نگراں نہیں، تو تواسے منتشر کردے، تواسے چرواہے کےبغیرمت چھوڑ

خدایا، تو ہمیں بغیرپیار، بغیرآب، بغیر ہوا، اور بغیر ملک کے مت چھوڑ"




“We all have a hoarse voice... do not leave 
our minarets with no calls to prayer, my God!

Either bring us those who make honey
or do not just leave us with no hive, my God!

Minarets have no mahya [a string of lights set up between two minarets to flash a short text, often featuring moral or religious themes]...
Do not take the Milky Way away from our skies, my God!

Do not leave this country, which was kneaded by Muslims,
with no Muslims, my God”

Do not leave these masses, who look for a hero,
with no hero, My God!

Let us know how to resist the foe, 
do not leave us lifeless, my God!

On the path to tomorrows, do not leave
our years with no Ramadan [month], my God!

Either disperse your herd, if left unattended,
or do not leave them with no shepherd, my God!

Do not leave us, O, with no love, no water, no air
and with no country, my God!”


یہ ایک اچھی نظم ہے۔ اس طرح کی نظمیں اقبال کی بھی ہوا کرتی ہیں ۔ لیکن اس نظم میں ایک چیز غائب ہے۔ اورمیرے نزدیک یہی وہ چیز ہے جواس وقت مسلمانوں کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ وہ چیزہے طلب علم وحکمت ۔ دراصل مسلمانوں کوعلم وحکمت کی کمی نے دنیا بھر میں بے وزن اور بے قیمت کردیا ہے۔ مسلمان اس چیزسے محروم کردئے گئے ہیں جسے قرآن میں 'خیرکثیر' کہا گیا ہے۔ قرآن میں ہے "خدا جسے چاہتا ہے حکمت دے دیتا ہے اوراس نے جسے حکمت دے دی اسے گویا خیر کثیر دے دیا"


مسلمانوں کا اصل مسئلہ نا دانی کا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کا حال آج وہی ہوگیا ہے جو دورزوال میں یہود کا ہوگیا تھا، جس کی نشاندہی کرتے ہوئے یہود کے ایک پیغمبر ہبککوک (Habakkuk) نے کہا تھا:


“God will pour upon you the spirit of foolishness, and there will be no wise man among you”


"خدا تمہارے اوپر نادانی کو انڈیل دے گا، تمہارے درمیان کوئی دانا آدمی نہ ہوگا جو تمہارے مسائل کو حل کر سکے۔"

میں سمجھتا ہوں کہ اس نظم میں ایک لائن غائب ہے اور جو غائب ہے اسے اس طرح ہونا چاہئے تھا:


My God, our people are in darkness, they sans education and wisdom، do not leave them, with no education, no wisdom my God!


" خدایا، میری قوم تاریکی میں ہے، جہالت میں ڈوب گئی ہے، علم و دانش سے خالی ہے، تواسے علم ودانائی اورمومنانہ فراست سےخالی مت چھوڑ!

شاید اسی بات کو کسی اردو شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے :

قوت فکروعمل پہلے فنا ہوتی ہے 

تب کسی قوم کی عظمت پہ زوال آتا ہے

بدھ، 8 جولائی، 2015

کوئی آپ کا چراغ نہیں بجھا تا چراغ کے اندر تیل کی کمی اس کو بجھا دیتی ہے



کوئی آپ کا چراغ  نہیں بجھا تا چراغ کے اندر تیل کی کمی اس کو بجھا دیتی ہے

محمد آصف ریاض
علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی نے 26 اپریل 2015 کوایم بی بی ایس کا انٹرینس ٹسٹ لیا۔ لیکن جب ٹسٹ کا ریزلٹ آیا تو اسے 28 مئی کو کینسل کردیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ کیرالہ کے کوزی کوڈ میں اے ایم یو کا جو سینٹر تھا وہاں سے حیرت انگیز طور پرایک ہی سینٹر(فاروق کالج ) سے 50 طلبا کامیاب ہو گئے۔ ان طلبا میں زیادہ ترمسلمان تھے۔
ٹسٹ کو رد کئے جانے پرکیرالہ کے لیڈران نے اپنی ناراضگی جتائی اورکہا کہ اگر کہیں کوئی بدعنوانی ہوئی ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے۔ صرف اس جواز پرکہ ایک ہی سینٹرسے پچاس طلبا کامیاب ہوگئے ٹیسٹ کے ریزلٹ کو کینسل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو کیرالہ کے بچوں کی صلاحیت کا مذاق ہے۔ یہ ملیالی طلباکی کی بے عزتی ہے۔
انڈین یونین مسلم لیگ کے رکن پارلیمنٹ پی وی عبد الوھاب نے اس معاملے پروزیر برائے فروغ انسانی وسائل محترمہ اسمرتی ایرانی کو ایک خط لکھا اوراپنی نارضگی کا اظہارکرتے ہوئے یونیورسٹی کے فیصلے کو ملیالی طلبا کی بے عزتی سے تعبیر کیا۔
IUML MP P V Abdul Wahab, also expressed its dissent over the cancellation of examination citing it was like humiliating the students of Kerala
7 جولائی کو دی ہندو میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ اے ایم یو انتظامیہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ ٹیسٹ کینسل نہیں ہوگا کیونکہ اس کی کوئی ٹھوس وجہ  نہیں پائی گئی ہے۔ ایک پریس رلیز میں اے ایم یو نے بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کی ایکزکیوٹیو کونسل نے بہت غوروخوض کے بعد متفقہ طور پرانکوائری کمیٹی کی اس رپورٹ کو قبول کرلیا ہے جسے عزت مآب جسٹس امتیازمرتضیٰ کی قیادت میں تیارکیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں واضح طورپربتایا گیا ہے کہ کوزی کوڈ سینٹر میں کہیں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی تھی۔   
In a press release, the AMU said, “The Executive Council of Aligarh Muslim University, after in depth deliberations, has unanimously accepted the report submitted by the Enquiry Committee headed by Hon’ble Mr. Justice Imtiyaz Murtaza, former Judge, Allahabad High Court, which clearly stated that there was no foul play in the conduct of the affairs that happened at the Kozhikode Centre Kerala in the MBBS/BDS Entrance Test 2015-16 held on April 26, 2015. It also held that the procedures followed were in conformity with approved norms.”۔
ایک اور حقیقت کا انکشاف
مجھے اس معاملہ میں تجسس تھا ۔ میں نے دہلی میں میڈیکل کے چند طلبا سے جانکاری طلب کی تو انھوں نے ایک اور ہی کہانی کا خلاصہ پیش کیا۔
مسٹر رہبر ریاض جو خود میڈیکل کی تیاری کرتے ہیں ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ وہ طلبا جو کوزی کوڈ کے سینٹرمیں اپیئر ہوئے تھے وہی طلبا دوسری جگہوں پر بھی امتحان میں بیٹھے تھے اور ان میں سے کئی دوسری جگہوں پر بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ گویا انھوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوالیا تھا اور اسی لئے حکومت و یونیور سٹی انتظامیہ کے پاس کوئی معقول وجہ نہ رہی کہ اس امتحان کو کینسل کیا جائے۔
یہ سن کر مجھے کسی مفکر کا یہ قول یاد آگیا : " کوئی شخص کسی کا چراغ نہیں بجھاتا ؛ یہ تیل کی کمی ہے جو کسی کے چراغ کو بجھا دیتی ہے۔"

کوزی کوڈ کے ہونیہار طلبا نے اپنے تیل کو مرنے نہیں دیا چنانچہ کوئی ان کے چراغ کو بجھا نے والا بھی نہ بن سکا ۔ اس معاملہ میں ملک کے تمام طلبا کے لئے سبق ہے، خاص طور سے ان اقلیتی طلبا کے لئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کا تعصب انھیں آگے نہیں بڑھنے د یتا۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ کسی قسم کے تعصب کی پرواہ کئے بغیر آپ میدان عمل میں کود پڑیں، آپ اپنے چراغ کے تیل کو بڑھاتے رہیں؛ پھرکوئی آندھی آپ کے چراغ کو بجھانے والی نہیں ہوگی۔

بدھ، 1 جولائی، 2015

اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے

اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے

محمد آصف ریاض
انیس فروری 1981 کوہندوستان جب سو کراٹھا تو اسے یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ میناکشی پورم میں 300 فیملی پرمشتمل 800 افراد مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس واقعہ پرپورے ملک میں کھلبلی مچ گئی۔ بی جے پی، ہندو منانی سبھا، وشو ہندو پریشد اورآرایس ایس جیسی ہندووادی تنظیمں بے چین ہو اٹھیں۔ بے جے پی کے لیڈراٹل بہاری واجپئی بھاگے ہوئے میناکشی پورم پہنچے۔
اتنی بڑی تعداد میں دلتوں کو مسلمان ہوتا ہوا دیکھ کرہندو وادی تنظموں میں کھلبلی مچ گئی ۔ وہ اس کوشش میں لگ گئیں کہ کسی طرح ان مسلمانوں کی گھرواپسی کرائی جائے۔ اس مہم کے تحت آریہ سماج نے وہاں ایک کیمپ اورایک اسکول قائم کیا۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ کیا لوگ واپس ہندو دھرم میں آگئے؟
انڈیا ٹیوی نے 12 دسمبر 2014 کوایک اسٹوری کی۔ اس اسٹوری میں بتایا کہ ہرچند کہ ہندووادی تنظیموں نےمیناکشی پورم کے دلتوں کی گھر واپسی کی بڑی کوشش کی لیکن ان میں سے ایک بھی ہندو دھرم میں واپس نہیں لوٹا۔ انڈیا ٹیوی کے الفاظ یہ ہیں:
"آریہ سماج نے دلتوں کی گھرواپسی کے لئے میناکشی پورم میں ایک کیمپ قائم کیا اورایک اسکول بھی کھولا۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آج یہ اسکول کھنڈربنا ہوا ہے اورکوئی بھی دلت اسلام دھرم کوچھوڑ کرہندو دھرم میں واپس نہیں لوٹا۔"
The Arya Samaj set up a mandapam and a school building in the hamlet in 1981 soon after the mass conversions, in order to re-convert the Dalits, but these buildings now remain abandoned and dilapidated. There was no re-conversion in reality.
یہ ایک واقعہ ہےجواسلام کی داخلی قوت کوبتا رہا ہے۔ یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ انسان اسلام کےخلاف پروپگنڈہ کا طوفان تواٹھا سکتا ہے لیکن وہ اسلام کے چراغ کو بجھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح محض چند رسم و رواج کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک اسٹرانگ آئیڈیا لوجی کا نام ہے۔ اسلام معرفت حق کا نام ہے اور یہ معرفت جسے حاصل ہوجاتی ہے وہ کسی دوسری چیزکا خریدار نہیں بنتا۔ اس کی مثال موسی اورجادو گروں کے واقعہ میں ہمیں ملتی ہے۔
موسیٰ ، جادو گر اور اصحاب الاخدود
جادو گروں پرجب یہ سچائی کھل گئی کہ موسیٰ اللہ کے رسول ہیں تو انھوں نے فرعون کی دھمکی پرصاف کہہ دیا کہ تم کوجوکرنا ہے کرگزرو ہم تو موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے اورہم اپنے ایمان سے کسی بھی طرح دستبردارنہیں ہو ں گے۔ سورہ الاعراف
اسی طرح قرآن کی سورہ البروج میں خندق والوں کا ذکرہوا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اگلے زمانے میں ایک باشاہ تھا اس کے یہاں ایک جادو گرتھا۔ جب وہ جادو گر بوڑھا ہوگیا تواس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اورمیری موت کا وقت آرہا ہے، مجھے کسی بچے کو سونپ دو تو میں اسے جادو سکھا دوں۔ چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا۔ لڑکا اس کے پاس جا تا تو راستے میں ایک راہب کا گھرپڑتا جہاں وہ عبادت میں اورکبھی وعظ میں مشغول رہتا۔ یہ بچہ بھی وہاں کھڑا ہو جا تا اوراس کے طریقہ عبادت کو دیکھتا اوراس کی باتوں کو سنتا۔ وہ آتے جاتے یہیں رک جا تا تھا۔ ایک دن جب گھر واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ راستے میں ایک شیرکھڑا ہے اوراس نے آنے جانے والوں کا راستہ روک رکھا ہے۔ لوگ خوفزدہ ہیں اورادھرادھر بھاگ رہے ہیں۔  بچے نے ایک پتھر اٹھا یا اورکہا خدایا، اگرراہب کا دین سچ ہے تواس پتھرسے یہ شیرمارا جائے ۔ پتھر لگتے ہی وہ شیر ماراگیا اور لوگوں کا آنا جا نا شروع ہو گیا۔
اس واقعہ کے بعد لوگوں میں بچے کا چرچہ ہوگیا ۔ کہا جا تا ہے کہ بادشاہ کا وزیر نابینا تھا ۔ وہ بچہ کے پاس آیا اور کہنے لگا تم میری آنکھ ٹھیک کردو۔ بچے نے کہا میں کچھ نہیں کرسکتا۔  البتہ اگر تم خدا پر ایمان لائو تو میں خدا سے دعا کروں گا اور وہ تمہاری آنکھیں ضرور ٹھیک کر دے گا۔ نابینا ایمان لے آیا اور آنکھوں والا ہوکر لوٹا ۔ اس نے اس واقعہ کا ذکربادشاہ سے کیا۔
بادشاہ نے کہا کہ تمہیں اس بچے نے ٹھیک کردیا۔ وزیرنے جواب دیا،  نہیں اس بچے کے رب نے مجھے ٹھیک کیا ہے اور ہم اس کے رب پرایمان لے آئے ہیں ۔ بادشاہ بھڑک اٹھا، اس نے حکم دیا کہ اس بچے کو پہاڑ سے ڈھکیل کر ماردیا جائے۔ جب لوگ اسے پہاڑکی چوٹی پرلے گئے تو بچے نے خدا سے دعاکی چنانچہ زلزلہ آگیا اورسارے لوگ پہاڑ سے گرکرمرگئے اوربچہ واپس بادشاہ کے پاس آگیا۔
اب بادشاہ نے حکم دیا کہ بچے کو دریا میں غرق کردیا جائے۔ چنانچہ لوگ بچے کو دریا میں غرق کر نے لئے گئے۔ دریا میں طوفان آیا اوربچہ بچ گیا اور باقی لوگ مارے گئے۔ بچہ لوٹ کر بادشاہ کے پاس آیا۔
بادشاہ نے ایک بارپھربچے کو مارنے کی کوشش کی تو بچے نے کہا تم مجھے اس طرح نہیں مار سکتے۔ میں تمہیں تدبیر بتاتا ہوں ۔ اس تدبیر کے ذریعہ تم مجھے مار سکتے ہو ۔ بچے نے بتا یا کہ شہر کے تمام لوگوں کو جمع کر لو اور مجھے کھجورکی شاخ سے لٹکا دو اورپھر یہ کہہ کر تیر مارنا " بسم اللہ رب ھذا الغلام "یعنی اس بچے کے رب کے نام سے تیر مارتا ہوں۔ وہ تیر مجھے لگے گا اورمیں مرجائوں گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا ۔ بھیڑ جمع کی گئی اوربسم اللہ رب ھذالغلام  پڑھ کراسے تیر مارا گیا۔ اور بچہ مرگیا۔
یہ دیکھ کرسارا مجمع پکار اٹھا کہ ہم سب بچے کے رب پر ایمان لا ئے ۔ بادشاہ بہت زیادہ برہم ہوا۔ اس نے سمجھ لیا کہ بچہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے شہر بھر میں خندقیں کھداوئیں اور ان میں آگ بھڑکا دیا اور تمام اہل ایمان کو چن چن کر دہکتی ہوئی آگ میں جلانا شروع کردیا۔ بادشاہ اوراس کے لوگ خندق کے کنارے بیٹھ کراہل ایمان کی چیخ و پکار کا تماشا دیکھ رہے تھے ۔ کہاجاتا ہے کہ آخر میں ایک بڑھیا لائی گئی ۔ وہ خوفزدہ تھی تواس کے ننھے بچے نے کہا ماں، صبر کر، تو حق پر ہے، یہ کہہ کر وہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ آگ میں کود گیا۔
دہکتی ہوئی آگ سے بھری ہوئی خندق اہل ایمان کے اندر بھڑکنے والی ایمانی آگ کو ٹھنڈا نہ کر سکی۔ لوگ یکے بعد دیگرے آگ میں کودتے رہے اوراہل ایمان ہونے کا ثبوت دیتے رہے۔ انھوں نے ثابت کیا کے اہل ایمان کے پاس ایک ہی متاع ہے اور وہ ہے متاع دین ۔ اب ایک اورمثال لیجئے۔

اتر پردیش کے میرٹھ ضلع کے سردھنہ میں ایک چرچ ہے۔ اس چرچ کا نام ہے بیگم سمرو۔ بیگم سمرو ایک مسلم خاتون تھیں۔  اٹھارہویں صدی کی اس خاتون نے ایک عیسائی مشنری سے شادی کر لی تھی ۔ بعد میں اپنے شوہر کے مرنے پرانھوں نے ایک چرچ بنوایا تھا۔ آج بھی سردھنہ میں یہ چرچ موجود ہے اور 'بیگم سمرو چرچ' کے نام سے جا نا جا تا ہے۔
مولانا وحید الدین خان نے اپنے سفر نامہ میرٹھ میں لکھا ہے کہ جب میں وہاں گیا تو میں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ عیسائی مشنریوں کی کوششوں سے کتنے مسلمان عیسائی ہوئے ۔ مقامی لوگوں نے انھیں بتایا کہ چار مسلمان عیسائی بنے۔ کتنی مدت میں؟ تقریباً چار سو سال کی مدت میں ۔ چارسو سال کی مدت میں صرف چار لوگ۔  یہ ہے اسلام کی طاقت۔ اسلام کوئی پھول نہیں ہے کہ کڑی دھوپ اسے کمہلا دے یا کوئی بچہ اٹھے اوراسے توڑ کر لے جائے۔ اسلام کی مثال ایک عظیم درخت کی سی ہے جس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں اور جڑیں بہت گہری زمین میں پھیلی ہیں۔ وہ درخت آسمان سے انرجی لیتا ہے اور زمین سے پانی۔ اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پر خدائی تحفظ کا کوچ بھی چڑھا ہوا ہے کوئی کٹار اسے کاٹ بھی نہیں سکتا۔ اسلام دین محفوظ ہے۔
یہاں مجھے ایک کرسچن مصنف کا قول یاد آ رہا ہے۔ اس نے ہندوستان کے پس منظر میں لکھا ہے کہ ہندوستانی عیسائیوں کو آپ ہندو یا بدھسٹ بنا سکتے ہیں۔ آپ ان سے ان کا مذہب بدلوا سکتے ہیں لیکن یہی کام آپ مسلمانوں کے ساتھ نہیں کر سکتے۔ مسلمان  اپنے بچوں کی نگرانی اس طرح کرتے ہیں جس طرح مرغی اپنے بچوں کی نگرانی کرتی ہے۔
مسلمانوں کے لئے سبق
ان واقعات میں مسلمانوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بارے میں اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں یہ نہیں سوچنا ہے کہ کوئی ان کے مذہب کو ختم کر دے گا۔ خدا کا مذہب غالب ہونے کے لئے آیا ہے وہ مغلوب ہونے کے لئے نہیں آیا ہے۔
شرک اب سر نہیں اٹھائے گا
دوسری بات یہ ہے کہ پیغمبراسلام اوران کے اصحاب نے دنیا سے شرک کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا ہے۔ اب جو شرک باقی ہے وہ مردہ شرک ہے اوراس سے کوئی نقصان ہونے والا نہیں ہے۔ مثلا ہندوئوں کا کیس لے لیں ۔ کوئی بھی ہندو اپنے مذہب کو جسٹیفائی نہیں کر پاتا۔ وہ صرف یہ کہتا ہے کہ ایسا اس کے ماں باپ کرتے آئے ہیں یا ایسی دھارنا ہے یا یہ ہندو کلچر ہے وغیرہ۔ تو پتہ چلا کہ دنیا میں کہیں زندہ شرک موجود نہیں ہے البتہ مردہ شرک باقی ہے اور یہ مردہ شرک ہمیشہ باقی رہے گا کیونکہ اسی میں انسان کا امتحان ہے۔ اگرایسا ہو کہ سارا دین ایک ہی ہوجائے تو پھر امتحان کا موقع ہی ختم ہوجائے گا اوراگر ایسا ہو تو خدا کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ خدا نے اسی امتحان کی غرض سے اولاد آدم کو فکرو عمل کی آزادی دی ہے۔ خدا کو اولاد آدم کا امتحان اتنا زیادہ مطلوب ہے کہ وہ اس بات کا بھی رسک لے رہا ہے کہ لوگ اس کی دنیا میں رہیں اوراس کا نام نہ لیں۔ لوگ اس کا کھائیں اور پیئں اورنام غیرخدا کا لیں ۔ خدا یہ سب برداشت کر رہا ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس نے ایک دن فیصلے کا مقرر کر رکھا ہے اور اس سے پہلے قول عمل کی آزادی دے رکھی ہے۔
آگرہ کا کیس
اب آپ سوال کریں گے کہ اترپردیش کے آگرہ میں جو کچھ ہوا وہ کیا تھا ۔ اترپردیش کے آگرہ میں دسمبر 2015 کو ایک حیران کن واقعہ پیش آیا ۔ لوگ جب سوکر اٹھے تو معلوم ہوا کہ آگرہ میں 60  مسلمان ہندو بن گئے ہیں۔ سارے قومی اخباروں میں اس کی رپورٹنگ ہوئی لیکن پھر تین دن کے بعد ہی یہ خبر آئی کہ کچھ ہندو وادی تنظیموں نے ان سادہ مسلمانوں کو ہندو نہیں بلکہ بیوقوف بنا یا تھا۔ انھیں آگ کے سامنے بیٹھا کر تصویریں اتار لی گئی تھیں اوریہ شورکیا گیا تھا کہ وہ اسلام دھرم کو چھوڑکر ہندو بن گئے ہیں۔ لیکن بہت جلد ہی مطلع صاف ہوگیا اور تمام لوگوں نے اعلان کیا کہ وہ مسلمان تھے اور مسلمان ہیں۔ تو پھر یہ ڈرا مہ کیوں پیش آیا؟

دراصل آگرہ کے اس واقعہ کی کڑی میناکشی پورم سے ملتی ہے۔ میناکشی پورم میں 1981 میں جو واقعہ پیش آیا تھا وہ آج بھی نام نہاد ہندو وادی تنظیموں کے نزدیک قومی شرم کا واقعہ سمجھا جا تا ہے اورآگرہ میں اسی قومی شرم کے دھبے کو دھونے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس واقعہ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔