جب غریبی طاقت بن جاتی ہے
محمد آصف ریاض
میگھا لیہ کے ایک کرسچن مصنف مسٹرالبرٹ تھیرنیانگ ( Albert Thyrniang)نے ایک مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے۔
"میگھالیہ آسام بن سکتا ہے"ـــــــ Meghalaya could become Assam
مضمون میں شمال مشرقی ریاستوں میں مسلمانوں کے وجود کو خطرہ بتا یا
گیا ہے۔ مضمون نگارشمال مشرقی ریاستوں میں عیسائی غلبہ کو برقرار رکھنے کے لئے تگ و دو کرتا ہوا نظرآتا
ہے۔ وہ اس راہ میں مسلمانوں کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اوراسی لئے پریشان
ہے۔ آسام سے جو غریب مسلمان میگھا لیہ مزدوری کے لئے جاتے ہیں وہ انھیں عیسائی میگھالہ
کے لئے خطرہ بتاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی امیری سے خوفزدہ نہیں
ہے، وہ ان کی غریبی سے خوفزدہ ہے۔ وہ لکھتاہے۔
" ہم اس بدنام کمیونٹی سے جو سبق حاصل کر سکتے
ہیں وہ یہ کہ یہ بدنام کمیونٹی بہت زیادہ محنتی اور سخت جان ہوتی ہے۔ یہ لوگ کسی بھی
حالت میں ترقی کرنے اور پنپنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ پائیدارعزم و حوصلہ کے
حامل لوگ ہیں۔ وہ ہر جگہ ہر صورت حال میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ وہ سستے مزدوروں کا گروہ
ہیں۔ وہ کوئی بھی کام کر سکتے ہیں۔ وہ چلچلاتی دھوپ اور بارش میں بھی کام کر سکتے ہیں۔
کمپنیاں اور فرمس انھیں اپنے یہاں مزدوربناتی ہیں کیوں کہ انھیں سستے مزدور مل جاتے
ہیں۔ ان کے سامنے مزدوروں کے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اور اس طرح
وہ پوری ریاست میں پھیل رہے ہیں؛ ہم مقامی لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنا ہے، اس سے
پہلے کہ وقت ہمارے ہاتھ سےنکل جائے۔“ مضمون
نگارکے لفظوں میں:
One lesson that we can learn from these
much maligned community is hard work. They flourish in extreme conditions. They
have an endearing and enduring spirit. They can survive anywhere, anyhow. They
are a source of cheap labour. They do any work. They work under the sun and
under the rain. It's a big temptation for firms and companies, organizations
and individuals to hire them. At times there is no option but to employ them.
That's how they spread. We indigenous people have to learn before it is too late.
مذکورہمضمون کو پڑھ کر مجھے قرآن کی یہ آیت
یاد آگئی:
" قوم فرعون کے سرداروں
نے کہا کہ کیا تو موسیٰ اوراس کی قوم کو چھوڑ دے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اورتجھکو
اور تیرے معبودوں کو چھوڑدیں۔ فرعون نے کہا کہ ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اوران
کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے۔ اورہم ا ن پر پوری طرح قادر ہیں۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ سے مدد چاہو اور
صبر کرو۔ زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔"( سورہ الاعراف، آیت نمبر، 128-127)
مذکورہ آیت سے لوگوں کی ایذا رسانی کے مقابلہ میں نبیوں اوررسولوں کے صحیح
رسپانس کا پتہ چلتا ہے۔ وہ یہ کہ نبی اور رسول کا یہ طریقہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کی
سفاکیت اور ایذا رسانی کے طوفان کے جواب میں اسی قسم کا کوئی دوسرا طوفان اٹھا ئے۔
وہ لوگوں کو ظلم کے مقابلہ میں صبرو تحمل کی تلقین کرتا ہے۔ وہ یکطرفہ
قتل عام کے جواب میں یکطرفہ صبرو تحمل کا رویہ اپنا تا ہے۔ وہ اپنا اور اپنے لوگوں
کا معاملہ خدا وندکی طرف لوٹا دیتا ہے۔ وہ سادہ لفظوں میں بتاتا ہے کہ زمین اللہ کی
ہے اور وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ بائبل میں اسی بات کو اس طرح سمجھا
یا گیا ہے:
”ا فسوس ہے تم پر کہ تم اپنا انعام پا چکے، افسوس
ہے تم پرکہ تم کھا چکے ،اب تم فاقہ کرو گے ۔ افسوس ہے تم پر کہ تم ہنستے ہو ،عنقریب
تم روﺅگے اور ماتم کرو گے“
“But woe, unto you that are rich for you
have received your consolation. Woe unto you that are full, for ye shall hunger.
Woe unto you that laugh now! For ye shall mourn and weep". Luke 6:24-5
یہ ایک واقعہ ہے جو بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے غریبی اورامیری، دونوں
رحمت ہے؛ جہاں ان کی امیری کام نہیں کرتی وہاں
ان کی غریبی کام کر جا تی ہے ، اور جہاں ان کی غریبی کام نہیں کر تی وہاں ان کی امیری
کام کرجاتی ہے۔
بہترین مضمون۔ اللہ آپ کی دور اندیشی اور بصیرت میں مزید اضافہ کرے۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںnice
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ مصباحی صاحب
جواب دیںحذف کریں