عروج امت اور شکور محمد
محمد آصف ریاض
شکورمحمد راجستھان کے
شہرجودھپورکے رہنے والے ہیں۔ وہ 62 سال کے ہوچکے ہیں ۔ وہ ایک د ھا ڑی دارمزدورہیں
اور پتھر تراشنے کا کام کرتے ہیں ۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کی
شادی کرچکے ہیں ۔ اب بڑھاپے میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک بیٹی کے گھرمیں رہتےہیں۔
1984 میں انھوں نے چارہزار روپے میں 6 پلاٹ
خریدے تھے۔ ان میں ہر ایک پلاٹ 150 ورگ گزکا ہے۔ اس وقت ہر ایک پلاٹ کی قیمت تقریباً
25 لاکھ روپیہ ہے۔
شکورمحمد نے دو پلاٹ
اپنی دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اپنی والدہ کے نام سے ایک اسپتال
بنانے کے لئے وہ ایک پلاٹ بہت پہلے ہی وقف کر چکے ہیں ۔ اس پلاٹ پرجودھپورکے سابق
میئر رامیشور نے 40 لاکھ روپے کی لاگت سے ایک ہیلتھ سینٹرقائم کیا ہے۔
اب شکورمحمد نے زمین کا
ایک ٹکڑا مدرسہ کے لئے وقف کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہاں کوئی مدرسہ بن جائے تاکہ
قوم کے بچے دین کی تعلیم حاصل کرسکیں۔ اسی کے ساتھ ہی انھوں اپنا ایک پلاٹ مسجد کی
تعمیر کے لئے بھی وقف کیا ہے اور وہ وہاں مسجد بنانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو نماز
کی ادائیگی کے لئے دور دراز کا سفر نہ کرنا پڑے۔
شکورمحمد پتھرتراشنے کا
کام کرتے ہیں اور بہت ہی سادہ زندگی
گزارتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ اتنی سادگی کے ساتھ زندگی کیوں بسر کرتے ہیں؟
تو ان کا جواب تھا کہ پیسہ بچا کرقوم کو ترقی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں۔
شکور محمد کا واقعہ بتا
رہا ہے کہ قوم اگرایک عالیشان عمارت ہے توافراد اس کی اینٹ ۔ اگراینٹ مضبوط ہے توعمارت
بھی مضبوط ہوگی اوراگر اینٹ کمزورہےتو عمارت بھی کمزور ہوگی۔ اگر آپ کو کسی قوم کی
عمارت بلند نظر آتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس میں ضرور کسی شکور محمد کی اینٹ لگی ہے۔
جان لیجئے کہ عروج امت
کا کام سیاسی ہنگامہ آرائی کا کام نہیں ہے یہ فرد فرد کو شکور محمد بنانے کا کام
ہے۔ یہ کام بیج کو درخت بنانے کا کام ہے۔ یہ بہت ہی صبر آزما کام ہے۔ اس کام کے
لئے آدمی کو 62 سال انتظار کرنا پڑتا ہے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں