اسلام' ابوالبرکات اورالبرکہ
محمد آصف ریاض
وہ بہت خوبصورت اورحسین
لڑکی تھی ۔ گوکہ وہ
یورپین طرزکا پوشاک پہنتی تھی لیکن اس کا دل اسلامی تھا۔ وہ ترک نزاد جرمن شہری تھی۔
وہ جرمنی میں اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیرتھی ۔ اس کا نام البرکہ(Tuğçe
Albayrak)
تھا۔ وہ محض 22 سال کی تھی۔
ایک دن وہ جرمنی کے ایک
شہرسے گزررہی تھی کہ تبھی قریب کے ایک رسٹورنٹ سے کچھ لڑکیوں کے
چیخنے چلانے کی آوازآئی۔
وہ اس آواز پردوڑی ہوئی
رسٹورنٹ میں پہنچی ۔ وہاں دیکھا کہ دولڑکیاں اپنی عصمت کے تحفظ کے لئے سخت قسم کی
جدوجہد کر رہی ہیں ۔ وہ شیرکی طرح دہاڑی اور بدقماشوں پرجھپٹ پڑی۔ اس نے دونوں لڑکیوں
کوبچالیا لیکن اس عمل میں اسے اپنی جان گنوانی پڑی۔
یہ افسوسناک واقعہ 15
نومبر2014 کوپیش آیا اور18 تاریخ کوجرمنی کےایک اسپتال میں اس کی موت ہوگئی۔ اس کی
موت کی خبرجنگل میں آگ کی طرح پورے جرمنی میں پھیل گئی ۔ لاکھوں جرمن شہری
"میں البرکہ ہوں" کے نعروں کے ساتھ سڑکوں پرنکل پڑے۔ 10 لاکھ لوگوں نے آن
لائن مہم چلا کرجرمن صدرسے مطالبہ کیا کہ البرکہ کو بعد ازمرگ بہادری کا قومی خطاب
دیا جائے۔
اس واقعہ کے بعد جرمن
صدرجواشم گاکPresident, Joachim Gauck) ( نے اپنے تعزیت نامے میں یہ الفاظ لکھے:
"جب دوسرے لوگ
دوسرارویہ اپنائے ہوئے تھے، ایسے نازک وقت میں البرکہ نے مثالی بہادری اورسماجی
ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، وہ مشکل وقت میں تشدد کی شکارلڑکیوں کی مدد کے لئے آگے آئی
۔"
“Where
other people looked the other way, Tugce showed exemplary bravery and civil
courage and came to the aid of a victim of violence,”
البرکہ نے اپنی قربانی
دے کرجرمنی میں پھیلےاسلامو فوبیا کو بڑی حد تک کم کردیا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے نفرت
کی آگ کو محبت کے پانی سے بجھا دیا۔ اس نے خدا کے اس قول کو ثابت کیا کہ " وہ
جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے"
أَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ
البرکہ کی قربانی جرمنی
میں اسلام دشمن طاقتوں کے لئے مایوسی کا سبب بنی ۔ جرمنی میں اسلام کے بارے میں
لوگوں کا نظریہ بدل گیا۔ اب اسلام جرمنی کا سرمایہ asset) )
بن چکا ہے۔ البرکہ کی قربانی نے اسلام کے تئیں جرمن شہریوں کے منفی نظریہ کو یکسرتبدیل
کردیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ البرکہ کی موت سے قبل جرمنی
میں اسلام کے خلاف پگیدا (PEGIDA)
کے نام سے ایک مہم چل رہی تھی لیکن البرکہ کی شہادت نےاسلام مخالف اس مہم کو ختم
کر دیا۔ البرکہ کی شہادت کے بعد جرمن شہری اپنے آپ کو اسلام مخالف اس مہم سے الگ
کرنے لگے ہیں۔ پریس ٹیوی نے اس کی رپورٹنگ ان الفاظ میں کی ہے:
Germany's anti-Islam PEGIDA movement breaks up
اگر آپ ماضی کا مطالعہ
کریں تو پتہ چلے گا کہ جرمنی کا واقعہ اسی نوعیت کا ایک واقعہ ہے جوآج
سے سات سوسال قبل یعنی چودہویں صدی میں مالدیپ میں پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر
ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں خصوصی طور پرکیا ہے۔
ابن بطوطہ نے لکھا ہے
کہ پہلے مالدیپ میں مورتی کی پوجا ہوتی تھی ۔ یہاں ہرمہینہ سمندرکے راستے سے ایک بلا
آتی تھی۔ ایک مرتبہ ابوالبرکات نامی ایک بربراس جزیرے پراترا۔ وہ حافظ قرآن تھا۔
وہ وہاں ایک بڑھیا کے یہاں مہمان ٹھہرا ۔ ایک دن اس نے بڑھیا کو روتے ہوئے دیکھا
توپوچھا کہ ماں ماجرا کیا ہے؟
بڑھیا نے بتایا "یہاں
سمندرکے راستے ہرمہینے ایک بلا آتی ہے اوراس بلا کو روکنے کے لئے ہر بارایک آدمی
کو اپنی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اسے سجاکرسمندرکے کنارے چھوڑدیا جا تا ہے اورسمندری
طوفان اسے کھا کراپنی بھوک مٹا لیتا ہے۔ اس طرح وہ لوگ اپنے ملک کو مجموعی تباہی
سے بچا لیتے ہیں اوراس باراس کی بیٹی کے نام سے قرعہ نکلا ہے اوراب اسے اپنی بیٹی
کی قربانی دینی ہوگی، اسی لئے گھر میں ہر طرف کہرام مچا ہے۔"
ابوالبرکات نے بڑھیا سے
کہا کہ ماں توپریشان نہ ہواس بار سمند کی خوراک میں بنوں گا ۔ اس بار میں جائوں
گا۔ چنانچہ ابوالبرکات کوسجا سنوار کر سمند کے کنارے لے جاکرچھوڑ دیا گیا۔ کہا جا
تا ہے کہ ابوالبرکات وہاں رات بھر قرآن کی تلاوت کرتا رہا ۔ طوفان آیا اورچلا گیا۔
صبح شہر کے لوگ ابوالبرکات
کی لاش برآمد کرنے پہنچے تو ابوالبرکات کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے پایا۔ یہ دیکھ
کروہ حیران رہ گئے۔ لوگ اسے اٹھا کربادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ بھی حیران ہوا
اوراس نے کہا کہ اگراگلی بار بھی ہمارا ملک سمندرکےعتاب سے محفوظ رہا تو ہم سب لوگ
ابوالبرکات کے مذہب پرایمان لے آئیں گے اورپھر وہی ہوا۔ دوبارہ طوفان آیا اورملک
تباہی سے بچ گیا تو بادشاہ نے اسلام قبول کر لیا اوراس کے ساتھ پورا ملک اسلام میں
داخل ہوگیا۔
ابن بطوطہ نے لکھا ہے
کہ یہاں کی ایک مسجد پرایک کتبہ لگاہوا ہے جس پر لکھا ہوا ہے "سلطان احمد
شنورازہ ابوالبرکات کے ہاتھ پراسلام لایا۔"
مالدیپ کے ابوالبرکات
اورترکی کی البرکہ کو کس چیزنے اتنا بہادربنا دیا تھا؟ وہ کون سی قوت محرکہ تھی جوانھیں
طوفان بلا سے ٹکرا رہی تھی؟
اللہ پر یہ بھروسہ کہ جو
ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر وہ نفع پہنچانا چاہے توکوئی اسے روکنے
والا نہیں اوراگروہ نقصان میں ڈالے تو کوئی اسے بچا نے والا نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں